قصور میں 300بچوں کے ساتھ زیادتی کے گھناؤنے انکشاف کے
بعد ابھی تک قوم کے شرم سے جھکے سر اُٹھے نہیں تھے کہ ایک اور اندوہناک
واقعہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔7سالہ زینب پر جو بیت گئی اس کا
تصور کرکے شیطان کا سربھی شرم سے جھک گیا ہوگا ۔اس کے والدین پر جو قیامت
گزری اس کا دکھ اور کرب سینے میں دل رکھنے والا ہر شخص محسوس کر سکتا ہے ۔پوری
قوم اس المناک واقعہ پر سوگوار ہے۔اس واقعہ کے بعد عوام کا دکھ ، کرب اور
اضطراب اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے
بلکہ پولیس رپورٹس اور مختلف تنظیموں کے ریکارڈ کے مطابق گزرے سال کے صرف
6ابتدائی ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 768 واقعات ہوئے جن میں سے68
واقعات صرف ضلع قصور میں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل قصور ہی میں تقریباً 300بچوں
کے ساتھ زیادتی کا معاملہ سامنے آیا تھا جنہیں نشہ آور ٹیکے لگاکر اور
ادویات کھلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کی فحش ویڈیوز بناکر
انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کی جاتی تھیں ۔ واقعات جب میڈیا میں آئے تو انتظامیہ
جاگی ۔معاملہ ایوان بالا تک پہنچا ۔ پولیس متحرک ہوئی ، درجنوں سیڈیز اور
فوٹوکلپلس برآمد ہوئے ۔ انکوائری ہوئی ،فوری انصاف فراہم کرنے اور مجرموں
کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے ۔ مگر وقت کے ساتھ
ساتھ جہاں قوم اس اندوہناک سانحہ کو بھول گئی وہاں ملزمان بھی رہا ہوگئے ۔
اتنے بڑے واقعہ کا اصل ذمہ دار کون تھا ؟ کون اس ابلیسی کھیل کو مسلمانوں
کے معاشرہ میں رچا رہا تھا ؟ کون کون ملوث تھا؟کس کس کے مفادات اس ابلیسی
دھندے سے وابستہ تھے آج تک قوم کے سامنے یہ بات نہ آسکی ۔زینب کیس کے بعد
بھی حکومت اور مختلف اداروں کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے ۔جے آئی ٹی
بنی،ملزم کو گرفتار کرنے کے کئی بار دعوے سامنے آئے ۔ مگر اس کے باوجود کہ
کئی واضح اور صاف سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا میں گردش کرتے رہے ابھی تک جو
کچھ ہوا وہ بھی قوم کے سامنے ہے ۔پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد
و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں اوسطاً ہر روز 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا
شکار بنتے ہیں جن میں سب زیادہ تعداد پنجاب کی ہے جہاں ہر روز بچوں اور
خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے4سے5واقعات ہو رہے ہیں اور ملزموں
کو پکڑ نے کی شرح20فیصد سے بھی کم ہے۔
یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہ سب اس
قوم کے بچے ہیں جس نے اس نعرے اور اس دعوے پر اپنے گھر بار چھوڑے اور ہر
طرح کی جان مال کی قربانیاں دیں کہ یہاں اسلامی معاشرے کا قیام عمل لایا
جائے گا ۔پاکستان کا مطلب کیا : لا الٰہ الا اﷲ ان کا نعرہ اور دو قومی
نظریہ ان کا نظریہ تھا کہ ہندو مشرک ، غاصب اور متعصب ہیں ، ہمارا ان کے
ساتھ گزارا نہیں ہوتا لہٰذا ہم اپنا ایک الگ وطن بنائیں گے کہ جہاں ہماری
نسلیں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ ان
کے لخت جگر یہاں اس قدر مکروہ ترین ابلیسی کھلواڑ کا شکار بنیں گے جس کا
تصور کسی بگڑے سے بگڑے ہوئے معاشرے میں بھی نہیں کیا جا سکتا ۔انہیں کیا
معلوم تھا کہ ان کی ایک نسل کے بزرگ شہری عمرہ کی ادائیگی کے لیے مقدس
سرزمین پر پہنچیں گے تو انہیں وہاں ایک ایسی خبر ملے گی جس کی وہ اس معاشرے
میں توقع بھی نہیں کر سکتے تھے جس کے لیے ان کے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں
۔انہیں کیا خبر تھی انہی کی نسل کی ایک بچی گھر سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل
کرنے نکلے گی مگر اس کے ساتھ درندگی ، سفاکیت اور ابلیسیت کا وہ مکروہ ترین
کھیل کھیلا جائے گا جس کا تصور کرکے فرعون کی روح بھی کانپ اُٹھی ہوگی ۔آج
قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کی روحیں بھی کتنی شرمسار ہوں گی
۔
ہمارا آئیڈیل نظام تو وہ نظام عدل اجتماعی تھا جس میں اکیلی عورت ایک شہر
سے دوسرے شہر سفر کرے مگر اُسے کوئی آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ کرے ،
جہاں زکوٰۃ دینے والا گلی گلی خوار ہوتا پھرے مگر اسے کوئی زکوٰ ۃ لینے
والا نہ ملے ۔ مگر ایسا کیا ہوا کہ آج ہم ایک ایسے نظام کی دلدل میں پھنس
گئے جہاں ہماری عزت ، جان و مال تک محفوظ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں
کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں
کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس سے چار گنا تیزی سے حکمرانوں
کی آف شور کمپنیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔جہاں انسانیت ناپید ہے ، جہاں
معصوم اور بے گناہ لوگوں کی عزتوں اور عصمتوں کو بھی کاروبار بنا لیا گیا
ہے۔ جہاں خداخوفی ، تقویٰ ، پرہیز گاری کا نام تک نہیں ۔جہاں ابلیس ننگا
ناچ رہا ہے ۔
ہر نئی صبح ہمارے بھٹکے ہونے کی وعید سنا رہی ہے ، ہر چڑھتا سورج ہمیں اصل
راستے کی کھوج لگانے کی تلقین کر رہا ہے ، ہر دن روح کو چھلنی کر دینے والا
کوئی نہ کوئی واقعہ ہمیں سمجھ جانے اور ہر دن ایک نئی ٹھوکر ہمیں سیدھے
راستے پر چلنے کی تاکید کر رہی ہے مگر ہم ہیں کہ نہ ذرا ٹھہر کر سوچتے ہیں،
نہ بھٹکنے کا احساس ہے اور نہ ہی انجام کی فکر ہے۔
آج زینب کا اندوہناک قتل جہاں قاتلوں کی عبرتناک سزا کا تقاضا کرتا ہے وہاں
کیا اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ہم بحیثیت قوم کچھ دیر رُک کر سوچیں کہ
ہماری منزل کہاں تھی اور کہاں پہنچ گئے ہیں؟ یہ سب ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا
ہے ؟کیا یہی ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے؟کیا اس لیے یہ ملک
آزاد ہوا تھا ؟کون ہے جو ہمیں اس تباہی کے دھانے پر لے آیا ہے ؟ کہیں ایسا
تو نہیں کہ جنہیں ہم راہبر سمجھ بیٹھے تھے وہی راہزن نکلے ہیں ؟ٹھوکر پر
ٹھوکر لگنے کے باوجود ہم نہ یہ سب جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی سیدھے
راستے کی طرف آتے ہیں ۔چنانچہ حقیقت صاف طور پر واضح ہے کہ وہ نظام جو عدل
و انصاف پر مبنی فطری نظام ہے ، جو نہ صرف انسانوں کی جان ، مال اور عزت کے
تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ انسانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت بھی کرتا ہے
، جوانسان کے اندر موجود حیوان کو لگام ڈال کر انسان کو اشرف المخلوقات
بناتا ہے ، اتنی ٹھوکریں کھانے کے باوجود بھی ہم اس فطری نظام کو اپنانے
اور قائم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں بلکہ آسمان مغرب سے آنے والی ہر وحی پر
فوراً لپک کر جاتے ہیں کہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دو ، انہیں گھروں
سے باہر نکالو ، بچوں کو جنسی تعلیم سے آراستہ کرو ۔مگر اسلام کے نام پر
بننے والے اس ملک میں کوئی ایسانہیں ہے جو یہ کہے کہ اﷲ کی عطا کی ہوئی اس
سرزمین پر اﷲ ہی کا دیا ہوا نظام نافذ کرو تاکہ عدل وانصاف قائم ہو ۔
اقبال نے کیا خوب کہا تھا
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب کونہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی !
ہمارے ہاں جنسی تعلق کے لیے نکاح شرط ہے اور کچھ مشرقی روایات کی پاسداری
بھی ہے ۔ شرم وحیا کے تقاضے بھی ہیں اور غیرت و حمیت کی خاطر قتل بھی ہو
جاتے ہیں ۔لیکن کیا مغرب میں ایسا ہے ؟وہاں تو کھلی آزادی ہے ۔ ننگ دھڑنگ
معاشرہ ہے ۔ وہاں کے اصولوں کو اگر یہاں اپنانے کی کوشش کی جائے گی تو اس
کا لازمی نتیجہ وہی نکلے گا جو نکل رہا ہے۔ خود مغرب میں عورت کو جتنی
آزادی حاصل ہے ، کیا اس کے باوجود وہاں کی عورت محفوظ ہے ؟ کیا بچوں کو
جنسی تعلیم دینے سے زیادتی کی شرح کم ہوئی ؟ بلکہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ
مغرب ایسے واقعات میں سب سے آگے ہے ۔ اس کے باوجود اگر ہمارے حکمت و دانش
کے جادوگر مغرب سے ہی دوا لینے جاتے ہیں تو انہیں کم ازکم اب سمجھ لینا
چاہیے کہ اس سے ہمارا درد ہرگز ختم نہیں ہوگا بلکہ ہم مزید شیطنت ، حیوانیت
اور ابلیسیت کے دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے ۔مغربی نظام کے لیے ہم نے
اپنا وہ نظام چھوڑا جس کے لیے یہ ملک بنایا تھا ، مغربی اصولوں کے لیے اپنے
اصول چھوڑے ، اپنی روایات کو چھوڑا ، اپنی اقدار کو چھوڑامگر ’’ درد بڑھتا
گیا جوں جوں دوا کی‘‘ ۔ آج نہ اقدار ہماری اپنی ہیں، نہ روایات اپنی ہیں ،
نہ ہمارا خاندانی نظام محفوظ ہے ، نہ عورتوں کی عزتیں محفوظ ہیں ،حتیٰ کہ
نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب قوم کے پھول جیسے معصوم بچے اور بچیاں ہوس اور
درندگی کا نشانہ بننے لگے ہیں ۔ چنانچہ یہ زینب کا قتل نہیں بلکہ ہماری
اقدار کا قتل ہے ، ہماری روایات کا قتل ، ہمارے نظریات کا قتل ہے اور ان سب
کا قاتل وہ شیطانی نظام ہے جو ایک طرف فحاشی و عریانی کو فروغ دیتا ہے اور
دوسری طرف نکاح کو مشکل بناتا ہے ، جو عورتوں کو گھروں سے نکال کر چوک
چوراہوں پر ان کی نمائش کرتا ہے ، جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر
بناتا ہے ، جو انسان کی اخلاقی و روحانی خاصیت کو مسخ کر اسے دنیا پرستی کی
ترغیب دیتا ہے ، جو انسانوں کو اشرف المخلوقات کے مقام و مرتبے سے اُتار کر
حیوانیت کی سطح سے بھی گرادیتا ہے ۔
آئیے ! ایسے باطل ، دجالی ، استحصالی نظام پر لعنت بھیج کر اپنے اصل کی طرف
لوٹ آئیں اور اس فطری اور حقیقی نظام کو اپنے معاشرے میں قائم کریں جس کے
لیے ہم نے یہ ملک بنایا تھا ۔ جو قائداعظم اور اقبال کا خواب تھا ۔ آئیے کہ
اب بھی وقت ہے ہم لوٹ جائیں اس راستے کی طرف جو رحمتوں ، کامیابیوں اور
کامرانیوں کا راستہ ہے کیونکہ وہی ایک راستہ ہے جو رحمۃ للعالمین ﷺ کا
راستہ ہے ۔ |