معاشرتی لڑائیاں اور نو جوان ںسل

وہ میری کلاس فیلو تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا، محبت بھی ایسی کہ جس میں گناہ کا کوئی نشان نا ھو۔ میں اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، میں نے انجانے میں اس سے محبت کر لی مگر میں یہ بھول گیا کہ میں جس معاشرے سے ھوں وہاں محبت کی شادی کرنا تو گناہ تھا مگر زنا کرنا جائز تھا۔ میں نے نا چاھتے ھوئے بھی اس کو اپنے بہت قریب کر لیا تھا اور ھمیشہ دعا کرتا تھا کہ شاید یہ سوچ بدل جائے مگر میں غلط تھا۔ کیوں کہ لوگ حلال اور حرام کی تمیز بھول چکے ھیں اور ھم اپنے اصولوں کی دلدل میں ایسا پھنس چکے ھیں جھاں موت تو آ سکتی ھے مگر اصول نھیں بدل سکتے۔ میری اس محبت کا جرم یہ تھا کہ میں نے ذات سے باھر محبت کی۔ میں اگر اسکو چھوڑتا تو اپنی اور خدا کی نظروں میں گناہ گار ھوتا اور اگر اسے اپناتا تو شاید لوگ مجھے جینے ھی نہ دیتے۔ کیوں کہ میں اس کو ایسی جگہ نہھی لے کے جانا چاھتا تھا جھاں اسے لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ محبت کے لیے تو کوی قانون نھیں ھوتا۔ یہ تو ایک جذبہ ھے جو آلله نے ھرانسان کے دل میں رکھا ھے۔ محبت کے کوی اصول نھیں ھوتے مگر آج کے اس معاشرے میں نکاح کے لیے تو قانون ھے مگر ذنا کے لیۓ نھیں۔ خیر میں نے جو محبت کا گناہ کیا میں آلله سے اس کی معا فی مانگتا ھوں اور بس اس ڈر سے خوفزدہ ھوں کہ کل کو یہ گناہ میری بیٹی کے ساتھ نہ ھو۔ میں اپنے اس گناہ سے بہت شرمندہ ھوں اور آلله سے معافی مانگتا ھوں۔

میرا یہ بات کرنے کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہۓ میں صرف اس غلط نظام کے خلاف ہوں جو ھمیں زنا کی اجازت تو دیتا ہے مگر نکاح کے لیے بہت سے قانون بنا دیتا ھے۔ ھم ذات پات کو لے کے بہت سی لڑاہیاں لڑتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ھماری اس لڑای کی وجہ سے نہ جانے کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زنا اور بدکاریوں کی دلدل میں پھنس جاتے ھیں کیوں کہ وہ اپنی محبت کو حاصل کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور کسی ایسی ھی لڑای کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر ھم اپنے ھی بناے ھوے اصولوں کو بدلنا نہیں چاہتے۔ آلله کے ساتھ ھم کھلا فساد کر رھے ھوتے ھیں۔ ذات پات کی اس لڑای میں ھم یہ بھول جاتے ھیں کہ نا جانے کتنے خواب آنکھوں سے بچھڑ جایں گے۔ ہم روز اپنے گردونواح میں دیکھتے ہیں کہ کتنے ھی جوان لڑکے لڑکیاں خودکشی کر لیتے ھیں، اور اپنی زندگی خراب کر لیتے ہیں مگر ہم اپنے بناے ھوے اصولوں کو بدلنا نھیں چاہتے۔

آج سیاست، دین کی بات ھر کوئی کرتا ھے مگر معاشرے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ میں مانتا ھوں کہ اسلام میں شادی سے پہلے محبت حرام ہے مگر اسلام ھمیں یہ اجازت بھی دیتا ھے کہ ھم جھاں چاھے نکاح کر سکتے ھیں اور زنا سے روکتا ھے مگر ھم نے آج نکاح کے لیے بہت سے اصول اور قانون بنا دیے ہیں مگر ذنا عام ھوتا جا رھا ھے۔ ہم زات پات اور حسب نصب کی لڑای میں پڑ کر نا جانے کتنی آنکھوں سے انکے خواب چھین لیتے ھیں، بہت سی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں اور الزام معاشرے پہ لگا دیتے ہیں مگر ھم یہ نہیں سوچتے کہ معاشرے کا نظام ھمارا اپنا ھی بنایا ھوا ھے۔ میری تمام والدین سے گذارش ھے کہ اپنی اولاد کی خوشیوں کو سمجھیں اور ایسے غلط نظام سے دور ھوں جس میں آپ کی اولاد اگر غلطی کر بھی لے تو وہ غلطی انکی سزا نا بنے اور وہ کسی بڑے گنا ہ کے مرتکب نا ہوں ۔

ھم مجرم سے تو نفرت کرنا جانتے ھیں مگر جرم کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ اگر ھم نےذات پات کے لڑای جھگڑوں کو ختم نا کیا تو ھم اپنی انے والی نسلوں کو سواے نفرت کے اور کچھ نہیں دے کر جاٰے گے۔ میری تمام نوجوان نسل سے درخواست ھے کہ کوی ایسا گناہ نا کریں جو آپکے والدین کے لیے باعث تکلیف ھو اور والدین سے بھی التماس ھے کہ اگر اولاد ایسی غلطی کر چکی ھے تو اسے اتنی بڑی سزا مت دیں کہ وہ ساری زندگی اپنی خوشیؤں کی تلاش میں ماری ماری پھرتی رھے اور آپکو الزام دیتی رھے۔ ھمارے معشارے میں آج ذنا، خودکشی، ذیادتی کی بہت بڑی وجوہات میں سے سب سے بڑی ایک وجہ ذات پات کی وہ لڑایاں ھیں جن کو ھم کوی اہمیت نہیں دیتے۔ اگر ھم نے یہ ھی روش رکھی تو وہ دن دور نھی جب ھمارے معاشرے میں زنا، بدکاری اور ایسے کؑی گناہ عام ھو جایں گے اور ھمارے اپنے ھی اصول ھماری تباہی کی وجہ ھوں گے۔

Anas Chaudhary
About the Author: Anas Chaudhary Read More Articles by Anas Chaudhary: 2 Articles with 1464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.