مجھ پر نظر پڑتے ہی انہوں نے ٹائروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے،
اپنی وہیل چیئر کا رخ قریبی بینچ کی طرف موڑا۔ میں قریب پہنچا تو انہوں گرم
جوشی سے ہاتھ ملایا اور بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ خوش دکھائی دے رہے
تھے۔ اور اس خوشی کا اندازہ ان کے چہرے کی طمانیت سے لگایا جا سکتا تھا۔ وہ
ایک معذور، فالج زدہ شخص ہیں۔ ادھیڑ عمر، تنہا، لیکن خلوص اور شکر کی کیفیت
ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے رکھتی ہے۔ روز ان کا ملازم انہیں شام کے وقت
پارک لے آتا ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات بھی پارک میں ہی ہوئی تھی۔ یوں میں
ہر شام ان کے پاس بیٹھتا اور وہ روز میرے منتظر ہوتے۔ انہوں نے میرا حال
احوال پوچھا اور اتنے دن پارک نہ آنے کی وجہ معلوم کی۔ میں نے اپنا ایک عذر
بیان کیا، تو انہوں نے کہا : اﷲ جی عافیت فرمائیں۔ ساتھ ہی وہ بولے میں
کافی دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ پھر جیب سے ایک چرمرایا ہوا پرانا سا
اخبار نکالا، اپنی گود میں پھیلایا اور گویا ہوئے: میں بہت خوش ہوں۔ اچھا!!!
میں بھی خوش ہوں کیوں کہ آپ خوش ہیں۔ میں نے جواب دیا۔
انہوں نے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے آنکھ کا کونا صاف کیا۔ مجھے لگا وہ کچھ
چھپانے، نہ بتانے کی کوشش کررہے ہوں۔ انہیں پاکستان سے اپنی ذات سے زیادہ
محبت ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں:'' انسانی فطرت ہے، جس کو وہ چاہتا ہے اسے تمام
برائیوں، کمزوریوں، عیبوں کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ بعض اوقات اس کے سدھار کی
ساری تراکیب بے سدھ، ناکام، غارت ہوجاتی ہیں اور وہ سوچتا ہے جیسا بھی ہے
میرا ہے، جیتا رہے، سلامت رہے۔ میرے وطن کا حال کچھ ایسا ہی ہے۔ اس کا ہر
ڈھب نرالا ہے، ہر چال بے ڈھنگی ہے، مگر اس میں میرے پاک وطن کا کیا قصور؟؟؟
میرا وطن تو میری جان ہے۔ میں وہ بات جاننے کے لیے بے تاب تھا جس کی وجہ سے
وہ خوش تھے۔ انکل! مجھے خوشی میں شریک نہیں کریں گے؟ میں نے پوچھا۔ انہوں
نے اخبار میری طرف سرکایا، پھر ایک سرخی پر انگلی رکھ کر بولے: یہ ہے میری
خوشی۔ میں نے ان کے چہرے کو دیکھا تو وہ خبر ان کے چہرے پر ایسے لگی ہوئی
تھی جیسے ڈاک خانے کی مہر لفافے کے ٹکٹ پر ثبت ہوتی ہے۔ اخبار کوئی دو ہفتے
پرانا تھا۔ خبر میں نے دیکھی تو لکھا تھا: ''پاک نیوی کے میزائل کرافٹ پی
این ایس ''ہمت'' نے سمندر سے خشکی پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل
کروز میزائل ''حربہ'' کا کامیاب تجربہ کیا۔
میں خبر پڑھ چکا تو انہوں نے اخبار کو لپیٹتے ہوئے کہا: جانتے ہو؟ ہمارے
اپنے انجینیئروں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جی بالکل! پاکستان میں
ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ ہاں ہر فرد قوم کی ترقی کا ذریعہ
ہے، صرف بہترین دماغوں کو راستہ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بات مکمل
کی، پھر بولے: وہ تمہیں یاد ہے جب کامرہ ایئر بیس پر حملہ ہوا تھا۔ میں نے
اثبات میں سر ہلایا تو وہ بولے: تب بھی میں بہت کرب کی کیفیت سے گزرا تھا۔
دہشتگردوں کے اس حملے میں ہمارا ایک ساب ایئر کرافٹ طیارہ تباہ، جب کہ
دوسرے کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔ ان طیاروں کو بنانے کے لیے عالمی ادارے نے
287ملین ڈالر مانگے تھے لیکن وہی طیارے ہمارے اپنے نوجوانوں، انجینیئروں،
سائینسدانوں نے صرف 25ملین ڈالر میں دوبارہ پرواز کے لیے تیار کر لیے۔ وہ
رکے سانس لیا اور پھر بولے: ہمارے ملک کے سیاستدانوں، رہنماؤں، کرتا
دھرتاؤں کی احمقانہ پالیساں ایک طرف، مگر دوسری طرف میرا ملک تنزلی سے ترقی
کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے تہہ کیا ہوا اخبار کھولا، اس سرخی پر ہاتھ رکھا اور بولے: خوشی
اور کامیابی کی ایسی کوئی خبر ملتی ہے ناں تو میری بوڑھی رگوں میں دوڑتا
خون ایک دم سے گرم ہو جاتا ہے۔ بحیثیت پاکستانی مجھے اطمینان ہوتا ہے،
تسکین ملتی ہے کہ ملک میں ایسا ادارہ موجود ہے دنیا کی سیاسی، معاشی، عسکری
صورت حال سے آگاہ رہتے ہوئے خود کو اس کے مطابق منظم رکھتا ہے۔ جی! دفاعی
نظام کسی بھی ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، کیوں؟؟ ہاں ہاں، دفاعی نظام
ملکی استحکام کے لیے اشد ضروری ہوتا ہے۔ اور ہمارے لیے تو کچھ زیادہ ہی
ضروری ہے کیوں کہ چاروں طرف سے دشمن گدھ بن کر ہم پر جھپٹنے کی کوشش میں
ہیں۔ انہوں نے کہا۔ پھر وہ رکے، پاس رکھی ہوئی پانی کی بوتل اٹھائی، گھونٹ
بھرا اور بوتل رکھتے ہوئے بولے: پاکستان کا دفاعی نظام الحمدﷲ مضبوط ہے۔
ایٹمی صلاحیت سے مالا مال ملکِ خداداد دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔
ہاں کیوں نہیں، ہماری پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ انہوں نے میری بات
سنی تو کہا: یہ صرف ایک بات ہی نہیں ایک حقیقت ہے۔ جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔
امریکی ویب سائٹ دی ٹاپ ٹین کے مطابق دنیا کی بہترین افواج میں پاک فوج
پہلے نمبر پر ہے۔ اور پاک وطن ان چند ممالک میں شامل ہے جو سمارٹ بم اور
لڑاکا طیاروں سے استفادہ کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ ایٹمی توانائی کا حصول
چوں کہ ہر آزاد ملک کا حق ہے۔ اس پر چند ممالک کی اجارہ داری سامراجیت کی
بالادستی کے نظام کو جنم دیتی ہے۔ ایسے میں ہماری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ
ملک میں ایٹمی سائنس کو زیادہ فروغ دے۔ اس میں معذرت خواہی سے کام لینا سچ
سے آنکھیں چرانا ہے۔ امریکا، اسرائیل، بھارت اور ان کے ہمنوا ہمارے ایٹمی
مراکز کو تباہ کرنے میں یکساں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیکن ہمارا اصلی دفاع یہی ہے کہ ہم نیو کلیئر اسلحہ جات سے پوری طرح لیس
ہوں۔ وہ رکے، اخبار سامنے کیا اور اس خبر پر انگلی رکھتے ہوئے بولے: ''خود
حفاظتی کے ایسے بہت سے حصار ہمیں اپنے گرد کھینچنے ہوں گے۔'' انہوں نے بات
مکمل کی تو قریب کی مسجد سے اﷲ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔ ہم اب مسجد کی طرف
بڑھ رہے تھے۔ |