باجوہ،،،! ڈیڈ باڈیز کہاں ہیں،،،؟ آفندی کے سوال
پر،،،باجوہ پر ذمہ دار نیب کی
طرح لہجے کو پروفیشنل انداز میں بنا کر ہر لفظ جدا جدا ادا کیا،،،
سر،،،! ڈیڈ باڈیز،،،ضروری تسلی کے بعد،،،ڈی این اے،،،کے لیے ،،،روانہ کردی
ہیں،،،وئی وِل ہیو رپورٹس اِن ٹوئنٹی فور آرز،،،
پھر وہ آفندی کے قریب آیا،،،سر،،،! یہ پاکٹ سے میں نے نکال لیا،،،باجوہ نے
بنک کا انٹرنل میپ ،،،جو کہ بہت باریکی سے لپٹا ہوا تھا آفندی کے حوالے
کیا،،،
آفندی نے بنک میپ کو دیکھا،،،اور مسکرا دیا،،،یہ وہ مسکراہٹ تھی،،،جوکہ
آفندی کے ہونٹوں پر تب آتی تھی،،،جب وہ کسی کی ہوشیاری اور مکاری کو
بھانپ لیتا تھا،،،
باجوہ کو دیکھ کے بولا،،،باجوہ ،،،یہ پاکٹ کی تہہ نہیں ہے،،باجوہ مسکرا کر
بولا،،،یس سر،،،شلوار کے نیفے میں تھی،،میں نے پاکٹ کا لفظ ڈاکٹر کی وجہ
سے یوزکیا،،،
انعم نے باجوہ کو گھور کے دیکھا،،،باجوہ نےمنہ دوسری طرف کر لیا،،،اک بات
اور بھی ہے،،،مگر،،،اب،،،پھر اس نے بیچارگی سے آفندی کی طرف دیکھا،،،!!!
ڈاکٹر انعم دانت پیس کے بولی،،،یہی ناں،،،کہ اس کی سنتہ نہیں ہوئی تھی،،،
ایڈیٹ،،،ایم ڈاکٹر،،،مائنڈ اٹ،،،!
باجوہ سٹپٹا سا گیا،،،آفندی نے بات بدلنے کے لیےکہاہم سب کو مسِ گائیڈ
کرنے کے لیے یہ کسی اور بنک کی برانچ کا میپ ہے،،،اور ہوشیاریوں نے اس،،،
بنک کا نام کیپیٹل لیٹر میں لکھ دیاہے،،،
ڈاکٹر انعم کا موڈ اب بھی خراب ہی تھا،،،ڈی ایس پی،،،چائےلاؤ،،،ڈاکٹر کے
لیے
رانا جو لکھنے میں مصروف تھا،،،نئے آرڈر پر تلملا کر رہ گیا،،،
بیٹھے رہو رانا،،،میں خود بنا کر لے آتی ہوں،،،تمہارےمیجر کو کافی کی
طلب،،،
ہورہی ہے،،،
باجوہ جو خود وہاں سے کھسک جانا چاہتا تھا،،،آگے بڑھا،،،ڈاکٹرصاحبہ،،،میں
بنا
لاتا ہوں،،،ڈاکٹر نے باجوہ کو غصے سے دیکھا،،،تم تو بالکل بھی نہیں،،،،! سن
لیا
باجوہ،،،
باجوہ جس رفتار سے آگے بڑھا تھا،،،اس سے دوگنی رفتار سے پیچھے ہٹ گیا،،،،
رانا کی ہنسی نکل گئی،،ہنس کے بولا،،باجوہ،،،! فری ایڈوائز،،،کبھی بھی دو
طوفانی
رفتار گاڑیوں کے بیچ نہ آنا،،،ہیومن باڈی کی شناخت بھی ناممکن ہو جاتی
ہے،،،!
باجوہ نے اثبات میں سر ہلایا،،،آفندی نے کسی بھی بات پر دھیان نہیں
دیا،،،،!!!!!
رانا،،،!! رانا نے میجر کو دیکھا،،،یس سر،،،رانا ہم الوّ بن گئے،،جس بنک کی
برانچ کا
نام ہے،،،کوئی چوکیدار ٹائپ بندے،،،جو کسی ہسپٹل کے ہوں،،،بنک کے باہر
لگا دو،،،ان سے کہہ دینا،،،تم لوگ ایجنسی کے لیے یہ کام کرو گے،،،ان میں
ہوا ،،،
بھر جائےگی،،،اور میں یہی چاہتا ہوں،،،
آفندی گال پر ہاتھ رکھ کر سوچنا ہی چاہتا تھا،،،کہ اسکے ہونٹوں کے
سامنے،،،،
کافی کا مگ آگیا،،،آفندی نے آہستہ سے کہا،،،آئی گوٹ مائی ہینڈز،،،!
انعم مسکرا کے بولی،،،یہ ہاتھ مجھے دے دو میجر،،،رانا کے منہ
سے‘‘توبہ‘‘نکلی
انعم نے رانا کو آنکھ ماری،،،مصنوئی انداز میں غصے سے
بولی،،،رانا،،،کیوں،،،کیا
ہوا،،،توبہ کیوں،،،،!
رانا مسکرا کر بولا،،،مشرقی لڑکیاں ہاتھ نہیں مانگا کرتیں،،ڈاکٹر نےحیرت سے
کہا
پھر،،،،،رانا نے آفندی کی گھورتی آنکھوں کو دیکھا،،،تو جھٹ سے بولا،،،مجھے
کیا،،،
پتا،،،میں معصوم سا انسان،،،
انعم زور سےہنس کر بولی،،،اسی لیے کوئی لڑکی تم سے سیٹ نہیں ہوتی،،،آفندی
نے آسمان کی طرف دیکھا،،،،حد ہے،،،،،!!! (جاری)
|