سانحہ قصور نے وطن عزیز کے ہرفرد کو جذباتیت کی آخری حدوں
تک پہنچایا ، ہر فرد کس حال سے تاحال سے دوچار ہوا اور ہے، اسے لکھنے اور
بولنے اور ان احساسات کی ترجمانی کرنے کے بجائے سمجھا ہی جاسکتا ہے۔انتھک
محنت کے بعد مجرم کو گرفتار کرلیا گیا۔ بظاہر اس گرفتاری کے بعد عوام کو
سکون کے کچھ لمحات تو میسر آئے ہیں تاہم ہر فرد اب یہ چاہتا ہے کہ اس مجرم
کو ایسی سزا دی جائے کہ جس کے بعد کوئی بھی اس نوعیت کی حرکت کو سوچنے اور
کرنے کی ہمت نہ کرئے۔
معصومین کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی
نوعیت کی محنت کی اور مجرم کو گرفتار کر لیا ہے، اس حوالے سے وزیر اعلی
پنجاب شہباز شریف نے صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور مرحومہ زینب کے
والد کے ہمراہ اک پرہجوم پریس کانفرس کی اور تمام تفصیلات سے ذرائع ابلاغ
کے ذریعے پوری قوم کوآگاہ کیا۔ محنت کنندگان کیلئے شہباز شریف نے پریس
کانفرنس کے شرکاءسے تالیاں تک بجوائیں۔ شہباز شریف نے انکوائری کمیٹی کے
افراد کو کھڑا ہونے کا حکم دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ میڈیا کے نمائندوں
کے سامنے رخ کریں، اس کے ساتھ اس لمحے تالیاں بجتیں رہیں۔ وزیر اعلی، وزیر
داخلہ سمیت وہاں موجود دیگر ذمہ داران کے چہروں پر فاتخین کی طرح مسکراہٹیں
اور تالیاں ہی تالیاں تھیں ۔
پوری کانفرس میں ایک فرد ایسا تھا جو کہ نہایت سنجیدہ بیٹھا سب کچھ دیکھ
رہا تھا ، اس کے دل و دماغ کی کیفیت کا علم اس کے سوا کسی کو بھی نہیں
ہوسکتا تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ وہ کہ جس کی سات سالہ کی بچی کے ساتھ
انسانیت سوز ظلم و زیادتی ہوئی اور اس کے بعد اسے جان سے مارنے کے بعد ردی
کی ٹوکری کی طرح کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا ۔ ایک باپ، ایک ماں سے بڑھ
کر کوئی بھی ان کے جذبات و احساسات کو نہیں سمجھ سکتاہے۔ ظلم تو یہ بھی ہے
کہ زینب کے والد کو چند جملوں سے زیادہ بات نہیں کرنی دی، بس اتنا ہی کہنے
دیا گیا کہ وہ سب کا شکریہ اداکرتے ہیں اور اس کے بعد ان کا مائیک بند
کردیا گیا ۔ سب اٹھ کر کھانے کی جانب چل پڑے اور وہ وہیں بیٹھا سب کو اور
سبھی کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔
شہباز شریف صاحب، آپ بتائیے کہ کیاکسی کو بھی نوازنے کا یہ انداز مناسب تھا
جو آپ نے مظلوم بچی کے والد کے سامنے سرانجام دیا ؟ شہباز شریف، یہ بھی
بتائیے کہ کیا کسی بھی پریس کانفرنس میں اس طرح کی کوئی کاروائی ہوتی ہے جس
طرح آپ نے سرانجام دی؟ وزیرداخلہ راناءاللہ آپ بتائیے اور آپ کیا بتائیں
گے، آپ کے سامنے آپ کے بڑے Bossنے جو کیا وہ بھلا غلط کیسے ہوسکتاہے،کیسے
؟؟؟ وہاں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی قوم یہ پوچھتی ہے کہ مظلوم
و مقتول زینب کے والد کی موجودگی میں مجرم کی گرفتاری پر اس انداز میں
تالیاں کہاں کی اور کیسی بات ہے اور کیا یہ انصاف ہے؟ یہ اپنی نوعیت کا اک
ظلم ہے جو کہ زینب کے والد کے ساتھ کیا گیا؟ اس کی موجدگی میں تالیاں بجانا
سراسر منافی اقدام تھا ہے اور مورخ اسے منفی لکھے گا۔
سابق اور نااہل وزیر اعظم نواز شریف، آپ کو اپنے شاباش شہباز شریف، شاباش
پنجاب پولیس کے الفاظ پر زینب کے والد سمیت پوری قوم سے اور زینب کی روح تک
سے معافی مانگنی چاہئے۔ آپ نے اپنی بیٹی مریم کے ہمنام قوم کی بیٹی ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ اس کی والدہ کو جلد
امریکہ سے واپس لے آئیں گے لیکن آپ نے آج تلک وہ وعدہ پورا نہیں کیا ۔ آپ
کواب تلک وزیر اعظم سمجھنے والا آپ کا ساتھی اور موجودہ وزیر اعظم شاہد
خاقان عباسی تک نے آپ کا کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ پھر بھلا آپ نے کس
طرح زینب کے قاتل کی گرفتاری پر یہ کہا کہ شاباش شہباز شریف اور شاباش
پنجاب پولیس۔۔۔۔۔
آپ نے، آپ کے بھائی شہباز شریف نے اس کے وزیر داخلہ راناثنا ءاللہ نے حتی
کے پوری پنجاب حکومت نے زینب سے قبل اسی طرز پر بچیوں کی زندگیوں کو ختم
کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی، کیوں ؟ اس کے
ساتھ ہی سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداءکے قاتلوں کی عدم گرفتاری اب تک کیوں
رکھی؟ اس واقعے پر آپ کی زبان کیونکر خاموش ہے؟ نواز شریف صاحب، آپ تین بار
اس ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور اس بات کا یقین ہے کہ آپ نے اس طرز کی
پریس کانفرنس نہیں دیکھی ہوگی کہ جس میں تالیاں بجوائی جاتی رہی ہوں۔ تو پر
آپ نے آخر اس موقعے پر یہ شاباش والا پیغام کیوں بھجوایا؟؟؟
وزیر اعلی پنجاب اور خادم اعلی شہباز شریف صاحب، آپ کا زینب کے والد کی
موجودگی میں تالیوں کا حکم نامہ نہایت غلط اقدام تھا اور اس کے ساتھ ہی
زینب کے والد کو تفصیل سے نہ بولنے دینا اس سے بھی بڑا اقدام ہے۔ یہ بات
یاد رکھیئے گا کہ وقت بدل نہیں رہا بلکہ بدل چکا ہے اور ظلم کے خلاف اب
عوام خاموش نہیں رہتے بلکہ اٹھتے ہیں اور آواز بلند کرتے نہیں اقدامات تک
کر گذرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا
عوام کی ترجمانی کا حق بہتر سے بہتر انداز میں ادا کرنے میں ذرا بھی عار
نہیں سمجھتا ہے۔ یاد رہے کہ عوام اب جاگ چکی ہے اور مظالم کے خلاف میدان
عمل کا رخ اختیار کرچکی ہے لہذا ہوش میں آجائیے آپ بھی اور آپ کے بڑے بھائی
سمیت پوری سیاسی جماعت کے قائدین بھی، عشروں سے آپ پنجاب کی حکومت سنبھالے
ہوئے ہیں اور اسی برس انتخابات ہونے جارہے ہیں، اسی عوام سے گر دوبارہ ووٹ
لینے ہیں اور ان پر حکمرانی کرنی ہے تو اپنے روئیے میں تبدیلی لائیے۔شہرت
پسندی کو ایک جانب رکھیئے اپنی کاموں کی رفتار کو اور ہر جگہ اپنی تصاویر
کو چپکانے سے باز رہئے یہی آپ کیلئے اور آپ کی جماعت کیلئے مفید ہوگا اس کے
ساتھ ہی تالیوں سے خاص طور پر اجتناب کیجئے ۔۔۔۔ |