ہم لوگ آج کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس کسی کی بات سننے کا
وقت نہیں ہم کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ ہم کسی کے ساتھ اچھا سلوک
کرنے کو تیار نہیں۔ ہم کسی کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنا اپنی کمزوری سمجھتے
ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو ہم کمزور کہلائیں
گے۔ ہم بزدل بن جائیں گے۔ ہمیں اگر اپنی دھاک بٹھانی ہے تو خود کو پھنے خان
بن کر دکھانا ہوگا ۔
انسان کو جو چیز ایک دوسرے انسان سے یکسر مختلف ثابت کرتی ہے وہ یہی تو ہے
کہ ہم دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک اپنا انتخاب سمجھ کر ، کر سکتے ہیں۔ ہم
دوسروں کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ہم خود سے دوسروں کے کام آسکتے ہیں۔ ہم سب آج
اس مقم پر ہیں جہاں ہمیں اچھا سلوک کرنا اپنی برائی نظر آنے لگا ہے۔ ہم
زندگی میں جس بھی مقام پر ہوں ہم پریہ لازم آتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ
اچھا سلوک کریں۔
ہم معاشرے میں خواہ کسی بھی حیثیت میں کھڑے ہوں ہم دوسروں کا بھلا کر سکتے
ہیں۔ ہم دوسروں کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ہم دوسروں کے کام آسکتے ہیں۔ مگر ہم
لوگ اب اس نہج پر سوچتے ہیں کہ جب تک ہم کسی حکومتی سطح پر نہ آجائیں ہم
کچھ اچھا نہیں کر سکتے۔ ہم دوسروں کا بھلا نہیں کر سکتے۔ ایک عام انسان تو
کچھ کر ہی نہیں سکتا۔
آج ہم لوگوں کو دو سوچوں نے عمل کم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ
کھالے پی لے جی لے یہ ہی زندگی ہے۔ دوسرا کہ ہم بے بس ہیں۔ ہم انتہاوں پر
جا رہے ہیں ان سوچوں کے ساتھ۔ ہم خود کو بھی اور دوسروں کو بھی مارجن دینے
کو تیار نہیں۔
ہم انتہاوں پر جا کر جینا پسند کرنے لگے ہیں۔ ہمیں انسان پیار اور محبت کے
ساتھ مکار لگتے ہیں۔ خود بھی ڈھنگ سے رہنا نا چاہتے ہیں نا سیکھنا چاہتے
ہیں۔ انسان کی زندگی میں مشکل آتی رہتی ہیں ۔ جتنا آپکا ایمان مظبوط ہو گا
یقینی آپکے اوپر تنگی ہو یا پریشانی وہ اتنی ہی ذیادہ آئیگی۔ آپ اتنے ہی
پریشان بھی ہوں گے۔ آپ اتنے ہی حیراں بھی رہیں گے۔
کہ اللہ پر ایمان پھر بھی دل اور دماغ اتنا پریشان۔ زندگی کی ایک حقیقت یہی
ہے کہ انسان کو اچھا بن کر رہنا ہوتا ہے۔ دوسروں کے سامنے نہیں اللہ کے
سامنے۔ اسی طرح رہنا سیکھنا ہوتا ہے ۔ جس طرح سے انسان کو رہنا چاہئے۔ ہمیں
زندگی کے طور طریقے سکھائے گئے انکو سیکھ کر ایک ریفائن اور خیر والا انسان
بن کر۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کچھ بھی اچھا کرنے کو زندگی میں تیار نہیں۔
اپنے آپکو فالتو سمجھتے ہیں۔ کچھ بھی اچھا کرنے کو اہم نہیں سمجھتے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ڈھنگ سے رہنا سیکھیں۔ دوسروں کو بھی خود کو بھی اچھے
انداز سے دیکھیں اچھے انداز سے رہیں۔ اچھے انداز میں رہنا ضروری ہے۔ مگر ہم
تیار ہی نہیں ہوتے۔ نہ اپنے بچوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے آج ہم
معاشرے میں اتنا انتشار بھی دیکھ رہے ہیں۔ دل کو دماغ کو اپنے آپکو ڈھنگ سے
رکھنا ہم آخر کب سیکھیں گے۔ کب ہم انسان بنیں گے۔ کب آخر کب۔
اپنی ذات سے ذمہ داری اٹھانا شروع کریں۔ آج یہ ضروری ہے کہ ہم ڈھنگ سے رہنا
سیکھیں ۔ اپنی تربیت خود کرنا سیکھیں۔ ہم کب تک اپنے ماں باپ کو الزام دیتے
رہیں گے۔ ہمیں خود سے اچھا بننا ہوگا ۔ عملی طور پر اچھا ۔
صرف نام کے یا مقام کا نہہں۔ کردار کا بھی اچھا بننا ہوگا۔ کردار کا بھی۔
کردار یہی کہتا ہے کہ صرف سب کے سامنے نہیں آپکو دوسروں کے سامنے بھی اچھا
بننا ہوگا۔ اللہ انکی ہی مدد کرتا ہے جو اپنی کرنا چاہتے ہیں۔.
|