بچوں کو سزا …… اسلام کیا کہتا ہے؟

بچہ… ایسا منہ زور حیوان ناطق ہے جسے سُدھانا اس کے والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک ایسا ہیرا ہے جسے پالش کرنے کے ساتھ ساتھ تراشنا بھی پڑتا ہے۔ جسے کندن بنانے کے لیے تجربات کی بھٹیوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ اسے صراط مستقیم پر چلانے کے لیے جہاںراہ نمائی، حوصلہ افزائی، محبت اور لالچ کی ضرورت ہوتی ہے؛ وہیں تادیب کے لیے سزا اور جرمانہ بھی ضروری ہے۔ لیکن دونوں پہلوؤں میں حد اعتدال ضروری ہے۔ بے جا محبت اور حد سے زیادہ سختی، بچوں کے مزاج کو بگاڑ دیتی ہے۔سزا جب تشدد کا روپ دھار لیتی ہے تو بچے کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ اس کے تعلیمی کیرئر کو گھن لگ جاتا ہے۔ جس سے ایک فرد ہی نہیں پوری نسل شاہراہِ ترقی سے ہٹ کر تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کی میڈیکل برانچ نے ایک تحقیق کی۔ اس کے لیے 19سے 20سال کے800 ایسے نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا۔جنہیں بچپن میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تحقیق کے مطابق انہیں درج ذیل ذہنی و جسمانی عوارض کا سامنا کرنا پڑا:

کچھ جسمانی طور پر معذور ہوئے۔ان کی عزت نفس مجروح ہوئی۔ خوف زدہ ہوئے، جس کی وجہ سے دماغی صلاحیتیں متاثر ہوئیں۔ اکثر نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ بداخلاق، ضدی، ہٹ دھرم، گستاخ اور ڈھیٹ ہو گئے۔ بعض نے گھر چھوڑ دیا اور جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ گئے۔ اپنے محسنوں کو دشمن گرداننے لگے۔ برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچپن میں تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کے جذبات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حتی کہ ان کی ازدواجی زندگی پر بھی ناخوش گوار اثر پڑتا ہے۔کیوں کہ ایسے بچے کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ جب کہ شادی کی کامیابی میں اعتماد اولین شرط ہے۔تحقیق کے مطابق اگر ایسے بچے جوان ہو کر اپنے خاردار ماضی سے پیچھا چھڑا لیں تب بھی تلخ اور منفی یادیں ان کی بقیہ حیات کو زہر خند کرتی رہتی ہیں۔

مشہور مؤرخ علامہ ابن خلّدونؒ کے مطابق تشدد سے بچے جھوٹ کی عادت سیکھتے ہیں۔ان میں نفاق اور کسل مندی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے۔ زندگی سے خوشی اور امنگ ختم ہو جاتی ہے۔ وہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچے کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔ اور حصول علم کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ اس کی طبیعت سے غیرت، حمیت اور مدافعت کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ کے مطابق بچوں کو مارنا ایسا حق العبد ہے جس کی معافی بھی مشکل ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں اپنی اولاد کو بہت مارتا ہوں، مجھ میں عدمِ برداشت بہت زیادہ ہے۔ جوابا فرمایا ’’قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ پیر ذوالفقار نقشبندی مدظلہ نے دیکھا کہ ایک معلم نے اپنے ساتھ پائپ رکھا ہوا ہے۔ پوچھا: ’’یہ کس لیے ہے؟‘‘ معلم نے کہا ’’یہ بچوں کو ڈرانے کے لیے ہے‘‘۔ فرمایا ’’پھر تو پستول رکھ لیجیے، بچے زیادہ ڈریںگے۔‘‘

دنیا کے 52ممالک میں جسمانی سزا پر مکمل پابندی ہے۔ جب کہ 92ممالک تشدد کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں تعلیمی اداروں میں 70%سے زائد بچوں کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2013ء میں یہاں ایک قانون بنایا گیا جس کے مطابق تشدد کرنے والے کو ایک سال قید اور پچاس ہزار جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ چناں چہ دفعہ نمبر 319کے تحت بچہ زخمی ہو جائے تو دفعہ نمبر 323اور 325 کے تحت قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا ہو سکتی ہے۔

معلمین اکثر یہ گِلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بچوں کو سزا نہ دی جائے تو وہ پڑھائی میں عدم دل چسپی کے ساتھ ساتھ بدتمیز بھی ہو جاتے ہیں۔ اسلام ہماری اس جانب بہترین راہ نمائی کرتا ہے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جہاں میری زبان کام کرتی ہے وہاں میں اپنا ڈنڈا استعمال میں نہیں لاتا۔‘‘ جو شخص چھٹتے ہی ڈنڈا اٹھا لے، سمجھ جانا چاہیے یہ زبان سے سمجھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔امام غزالیؒ کے مطابق ’’حتی الامکان زبان سے سمجھایا جائے۔ ذہنی و نفسیاتی طریقوں سے بچے کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔‘‘ اگر مار ناگزیر ہو جائے تو ان امور کا خیال رکھا جائے:

طلبہ کی دو قسمیں ہیں۔ نابالغ اور بالغ۔ پھر نابالغ بچوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ سمجھ دار اور بے سمجھ بچے۔ امام احمدؒ نے بے سمجھ بچوں کو مارنے سے قطعی طور پر منع فرمایا ہے۔ اور سمجھ دار بچوں کے بارے میں امام غزالی ؒ کا موقف ہے کہ اولا ان کے جرم سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اگر دوبارہ کریں تو انھیں اشارۃ، کنایۃ، بالواسطہ اور بلا واسطہ سمجھایا جائے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کے ساتھیوں کے سامنے تنبیہ کی جائے۔ اگر اس کے باوجود بھی اسی جرم کے مرتکب ہوں تو تین چھڑیوں کی سزا د ی جائے۔اسلامی احکام کے مطابق کوئی بھی معلم ، بچوں کو ان کے والدین کی اجازت کے بغیر سزا نہیں دے سکتا۔ اگر پانی سر سے گزر جائے اور سزا دینا ناگزیر ہو جائے تو مار سے ہٹ کر کوئی سزا دی جائے جیسے کچھ دیر کھڑا کرنا، تھوڑی دیر کے لیے ہاتھوں کو اوپر کروا دینا وغیرہ۔ اگر اس کے باوجود بچے نہ سمجھ رہے ہوں تو درج ذیل شرائط کے ساتھ مارنا جائز ہو جاتا ہے:
۱: والدین سے اجازت حاصل کی جائے۔ ۲:غلطی کی نوعیت کے مطابق سزا پہلے سے متعین ہو۔ ۳:سزا دینے کا مقصد تادیب و تعلیم ہو۔ (ذاتی انتقام اور غصہ کے جذبات کے تحت سزا ، ظلم و تشدد شمار ہوگی اور قیامت والے دن اس کے بارے میں سوال ہوگا۔) ۴:بچے کے تحمل کے مطابق سزا دی جائے۔ ۵:جتنا جرم ہو، سزا اس سے زیادہ نہ ہو۔ ۶:چہرے اور سر پر مارنے سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے۔۷: نابالغ کو لکڑی اور ڈنڈے کے ساتھ مارنا بھی منع ہے۔(محض تھپڑ اور چپت سے کام چلایا جائے)۔ ۸: تین سے زیادہ ضربات نہ ہوں۔ امام شامیؒ نے درمختار میں فتوی دیا ہے کہ اگر بچے کو تین ضربات سے زیادہ سزا دی گئی تو قیامت والے دن اس سے قصاص لیا جائے گا۔ بخاری شریف میں پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا
فرمان ہے کہ ’’دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے جائیں۔‘‘ (یہ فرمان بالغ مردوں کے بارے میں ہے)
مشہور مفکر قاضی ابن جماعہؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تذکرۃ السامع والمتکلم فی آداب العالم والمتعلم‘‘ میں لکھا ہے ’’طالب علم کے مصالح و منافع کو پیش نظر رکھے۔ ان کے ساتھ اپنی پیاری اولاد کی طرح سلوک کرے۔ یعنی ان کے ساتھ شفقت و رافت اور احسان والا معاملہ کرے۔ …… شدت اور سختی سے پیش نہ آئے۔ اس سے مقصد ان کی حسنِ تربیت، تحسین اخلاق اور اصلاحِ احوال ہو۔‘‘ شاہ ابرارالحقؒ فرماتے ہیں ’’تعلیم میں نرمی کا پہلو 80% اور سختی کا پہلو 20% ہو، تب بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو سکتی ہے۔‘‘
٭٭٭

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 99310 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.