گزشتہ دنوں محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات کی جانب سے
پہلی عالمی مکلی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں خاکسار کو بھی شرکت کا موقع
ملا۔ کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، لبنان، ایران، اسپین اور وطن
عزیز کے نامور محققین نے تاریخی مقبروں، مقامات، شاندار فن تعمیر، شاہجہان
مسجد اور دیگر پر 22 تفصیلی و تحقیقی مقالے پیش کئے اور اپنے اپنے تجربے کی
روشنی میں مکلی کی تاریخ پر نظر ڈالی؛ جس سے ہم جیسے طفل مکتب لوگوں کو بہت
کچھ سیکھنے کو ملا۔
مکلی تقریباً 50 فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس اطراف کے علاقے کا نام ہے جو
ٹھٹھہ شہر سے مغرب کی طرف ہے۔ 20 میل کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا، سندھ کی
قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان، مکلی کا یہ پراسرار قبرستان
’ساموئی‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’پیر پٹھو‘ پر ختم ہوتا ہے۔
اس شہرِ خموشاں میں 14 ویں سے 18 ویں صدی عیسوی تک کے وہ بادشاہ مدفون ہیں
جنہوں نے اپنے لیے شاندار مقبرے اور قبریں بنوائے تاکہ مرنے کے بعد وہ اُن
میں طمطراق سے دفن ہوسکیں۔ ان میں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل ادوار کے
حکمران، سپہ سالار، ملکاؤں، گورنروں، صوفیوں، دانشوروں، فلسفیوں، امراء،
خدا رسیدہ اور صاحبانِ کمال افراد کے علاوہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ 7 صدیوں
کے راز دفن ہیں۔
یہاں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں موجود ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد
اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں؛ اور نہ جانے کتنی لوک
داستانوں کا شور ہے جو اِس شہرِ خموشاں میں دفن ہے۔ کانفرنس میں لنچ کے بعد
ہم نے مقبروں کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ان شاندار عمارات کو دیکھنے کے
بعد اندازہ ہوا کہ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد
بھی ان کی عظمت و ہنر کا پتا دیتا ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو کے مطابق یہ عظیم
الشان قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں جسے دیکھنے کےلیے ہر
سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔
ان مقبروں کی تعمیر کےلیے پتھر یا پختہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں جو ضرب
لگنے پر بجتی ہیں اور ٹوٹنے کی حالت میں شیشے کی طرح چمکتی ہیں۔ اینٹوں کی
دیواریں منقش روغنی ٹائلوں سے مزین مقبرے کی دیواروں پر جو شجری نقوش
ابھارے گئے ہیں وہ سندھ، راجپوتانہ اور گجرات کے فنِ سنگ تراشی کی پرانی
روایات کے بہترین نمونے ہیں۔ ان مقبروں کی عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط،
طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں
پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1980 کی دہائی میں ثقافتی اہمیت کے پیشِ
نظر مکلی کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حال ہی میں مکلی کو عالمی ورثہ
کمیٹی سے ڈی لسٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے پولینڈ
میں یونیسکو کے سامنے بہترین انداز میں مکلی کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ محکمہ
ثقافت کی کاوشیں رنگ لائیں، تبھی مکلی عالمی ورثے کی فہرست میں برقرار رکھا
گیا اور عالمی ورثہ کمیٹی نے مکلی پر کیے گئے بحالی اقدامات کو تسلی بخش
قرار دیا۔
محکمہ ثقافت نے نہ صرف مکلی کے عالمی ورثے کا تحفظ کیا بلکہ تین نئی سائٹس
بھی شامل کرانے کی کوشش کی تھی۔ حکومت سندھ نے یونیسکو کے تعاون کو سراہا
جنہوں نے ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں مکلی کو برقرار رکھا۔ بقو ل وزیر ثقافت،
’’ہم نے مکلی کے ورثے کی بحالی، صفائی ستھرائی، سیاحوں کےلیے شٹلز اور دیگر
مطلوبہ سہولیات مہیا کیں اور ہم اسی طرح جوش و جذبے سے سندھ کے تمام تاریخی
مقامات کو محفوظ اور بہتر بنائیں گے اور مکلی قبرستان کے متعلق یونیسکو کی
جانب سے سفارشات پرعملدرآمد کروائیں گے۔‘‘
پیرس سے آئے ہوئے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر تھامس لورین کا کہنا تھا کہ ایسے
مقامات نوع انسانی کی خدمات اور تاریخی تجربے کی بنیادی یادگاریں ہیں۔
ثقافتی تحفظ کے ذریعے ہم اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ثقافتی ورثہ پوری
انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔
کا نفرنس میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے یقین دلایا کہ حکومت سندھ
تاریخی مقامات کی بہتری کےلیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں وہ محکمہ ثقافت،
سیاحت و نوادرات کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے ہر ممکن مدد فراہم کریں
گے۔ مکلی کا تاریخی قبرستان ایک تاریخی سرمایہ ہے۔ سندھ حکومت اس تاریخی
مقام کی ترقی و فروغ کےلیے کوشاں ہے۔
مکلی پر منعقدہ پہلی عالمی کانفرنس کے نتیجے میں تحقیق دانوں اور ماہرین سے
مکلی کی بہتری و ترقی کےلیے ملنے والی سفارشات پر عملدرآمد کا یقین بھی
دلایا گیا۔ ہماری نظر میں سندھ حکومت کی طرف سے یہ ایک اچھا قدم تھا۔ اگر
واقعی مستقبل میں بھی اسی طرح تاریخی مقامات کو بچانے اور ان کی تاریخ سے
آنے والی نسلوں کو آگاہ کرنے کےلیے کام کیا جاتا رہا اور دوسرے وعدوں کی
طرح یہ بھی صرف وعدے ہی نہ رہیں تو واقعی یہ ایک احسن اقدام ہوگا۔
مقامی مقررین کا کہنا تھا کہ مکلی کے تاریخی آثار قدیمہ اور قبرستان کےلیے
ایک مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے۔ دوران کانفرنس سینئر صحافی وسعت اللہ خان
کی بنائی ہوئی ڈاکیومینٹری فلم بھی دکھائی گئی جس سے مکلی کا ایک زبردست رخ
سامنے آیا۔ محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو
نے وزیر ثقافت کے ساتھ مل کر محنت اور جانفشانی سے کانفرنس کے انتظامات کئے
اور سائٹ پر آنے والے مہمانوں کے سوالات کے جوابات بھی دیتے رہے۔
کانفرنس میں موسیقی کا بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں سندھ کے مشہور
گلوکاروں نے سندھ کے لوک نغموں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ کانفرنس کی ایک اچھی
بات یہ تھی کہ ڈائریکٹر جنرل محکمہ سیاحت غلام مرتضی داﺅد پوٹا کی جانب سے
سیاحتی مقامات کی آگاہی اور نوادرات کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے۔ جن
نوادرات کو صرف تصاویر میں ہی دیکھ پائے تھے، ان کو چھو کر محسوس کرنے کا
لمس ہی کچھ اور تھا۔
اور جہاں تک بات ہے عمارات اور مقبروں کی، تو یہ بھی ایک مسحور کن تجربہ
تھا جس نے پورے دن اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ یہ احساس بھی ہوا کہ پتھر بھی
بولتے ہیں۔ صدیوں پہلے کے بے نام و نشاں سنگ تراشوں کے تخلیقی ذہن، چھینی
اور ہتھوڑی نے جو ان لوگوں کو دوام بخشا کہ اب ان کی آخری آرام گاہ صرف
قدیم آرٹ کا نادر نمونہ ہی نہیں بلکہ سندھ اور پاکستان کا عظیم ثقافتی ورثہ
بھی بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپین سیاحوں نے ٹھٹھہ کے اس قبرستان کی
خوبصورتی اور دلکشی سے متاثر ہو کر اسے ’’ایلڈوراڈو‘‘ کا نام دیا ہے جس کا
مطلب خوابوں کی ایک ایسی دنیا ہے جو خزانوں سے مالا مال ہے لیکن وہاں لالچ،
حرص اور طمع نہیں۔
بہت سے ناقدین کی نظر میں یہ ایک فضول خرچی اور پیسہ ٹھکانے لگانے کا بہانہ
تھا مگر دوسری طرف اقوامِ عالم کو یہ پیغام بھی گیا کہ ہم اپنی تاریخ اور
ورثے کے ساتھ مخلص ہیں اور ان کے تحفظ و فروغ کےلیے سنجیدہ ہیں۔ |