ابو حمزہ ثمالی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اس
آیت کے سلسلے میں سوال کیا ۔’’واضرب لھم مثلااصحاب القریۃ اذ جاء ھا
المرسلون۔اذارسلنا الیھم اثنین فکذبوھما فعززنا بثالث فقالو انا الیکم
مرسلون‘‘
اور پیغمبر آپ ان سے بطور مثال اس قریہ کاتذکرہ کریں جن کے پاس ہمارے رسول
آئے ۔اس طرح کہ ہم نے دورسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلا دیا تو ہم نے
ان کی مدد کو تیسرا رسول بھیجا اور سب نے مل کراعلا ن کیا کہ ہم سب تمہاری
طرف بھیجے گئے ہیں ۔(سورہ یس۱۳۔۱۴)
آ پ نے فر مایا : اﷲ نے سر زمین انطاکیہ کی طرف دو شخص کو مبعوث کیا ۔انہوں
نے وہاں پہونچ لوگوں کے معمول کے خلاف کام کرنا شروع کردیا ۔اس لئے لوگوں
نے ان کو اذیتیں دیں اور انہیں گرفتار کرکے ایک بت خانہ میں ڈال دیا ۔اﷲ نے
وہاں ایک تیسرے شخص کو بھیجا ۔وہ داخل شہر ہوا اور کہا کہ مجھے بادشاہ کے
دروازہ کا راستہ دکھاؤ ۔جب وہ اپنی منزل مقصود کو پہونچ گیا توا س نے کہا :
میں نے صحرا کی عبادت کی ہے اور اب یہ چاہتا ہوں کہ بادشاہ کے خدا کی عبادت
کروں ۔اس کی بات بادشاہ تک پہونچائی گئی۔
اس نے کہا : اسے بت خانہ میں لے جاؤ ۔لوگوں نے اس کو وہی بھیج دیا ۔وہ وہاں
اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک سال تک رہا ۔اس نے ان دونوں سے کہا:ہم یوں
لوگوں کو ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف منتقل کرتے ہیں،نہ کہ غیر عاقلانہ
طریقہ سے ․․․۔
اس نے کہاـ: میرے بارے میں کچھ مت بتانا۔پھر اسے بادشاہ کی خدمت میں حاضر
کیاگیا ۔
بادشاہ نے کہا : مجھے خبر ملی ہے تم میرے خدا کی پرستش کرتے ہو ۔لہٰذا!اب
تم ہمیشہ میرے بھائی ر ہوگے۔اپنی ضرورت بتاؤ۔
اس نے کہا:بادشاہ سلامت !مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔لیکن میں نے بت خانہ
میں دو شخص کو دیکھا ہے ان کا کیامسئلہ ہے ؟
بادشا ہ نے کہا:وہ دوآدمی ہیں جو یہاں آئے تھے ، لوگوں کو میرے مذہب سے
گمراہ کر رہے تھے اورایک آسمانی خدا کی دعوت دے رہے تھے ۔
اس نے کہا :اے بادشاہ! کیا ہی بہترین (مناظرہ کا)موقع ہے !اگر وہ حق کو
ثابت کردیتے ہیں تو ہم ان کا اتباع کریں گے اور اگر ہم حق ثابت کر دیتے ہیں
تو ہم انہیں اپنے مذہب میں شامل کرلیں گے ۔جو ان کے لئے ہے،وہی ہماری لئے
بھی ہے ۔اور جو ہمارے خلاف ہے وہی ان کے خلاف بھی ہے ۔
بادشاہ نے ان دو آدمیوں کو بلابھیجنے کا حکم دیا ۔جب وہ اس کے پاس آئے تو
ان کے دوستوں نے کہا ـ ہمارے لئے کیا لے کر آئے ہو؟
انہوں نے کہا:ہم اس اﷲ کی عبادت کی دعوت دینے آئے تھے جس نے آسمان و زمین
کو خلق کیا ،رحم مادر میں جو چاہتاہے وہ پیدا کرتا ہے ، جیسا چاہتا ہے ویسا
بناتاہے ،درخت و میوے اگاتاہے اور آسمان سے بارش کے قطرے برساتا ہے ۔اس
تیسرے شخص نے اس دونوں سے کہا :یہ تمہارا خدا جس کی عبادت کی تم دعوت دے
رہے ہو اگر ہم ایک اندھا آدمی لائیں تو کیا وہ اسے دوبارہ بینائی عطا کرنے
پر قادر ہے؟
انہوں نے کہا: اگر ہم اس سے ایسا کرنے کا سوال کریں تو وہ اسے انجام دے گا
۔
اس نے کہا:بادشاہ سلامت ! ایک پیدائشی ا ندھے کو لایاجائے۔ایسا ہی ایک شخص
لا یا گیا ۔
اس نے کہا : اپنے خدا سے اس کی قوت بینائی عطا کرنے کے سلسلے میں دعا کرو
۔وہ لوگ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا کی ۔اچانک کیا دیکھا کہ اس اندھے
آدمی کی دونوں آنکھیں کھلی ہیں اور وہ آسما ن کی طرف دیکھ رہا ہے ۔
جناب شمعون نے کہا :بادشاہ سلامت! کسی دوسرے اندھے آد می کو لایا جائے
۔دوسرا آدمی حاضر کیاگیا ۔جناب شمعون نے ایک سجدہ کیا ،اپنا سر اٹھایا اور
دیکھا کہ اس اندھے آدمی کی بصارت لوٹ آئی ہے۔
آپ نے کہا :دلیل پر دلیل !
ایک مفلوج ومعذور آدمی کو لایا گیا ۔(انہوں نے گذشتہ عمل کی تکرار کی)۔
نماز پڑھی اور خدا وند عالم سے دعاکی کہ اچانک و ہ مفلوج و لنگڑاآد می اپنے
پیروں پر سیدھا کھڑا ہوجاتااور چلنے لگ جا تاہے ۔
آ پ نے کہا:بادشاہ سلامت!کسی دوسرے مفلوج و لنگڑے آد می کو لایا جائے ۔آپ
کی بات پر عمل کیا گیا ۔(آپ نے بھی اپنے گذشتہ عمل کی تکرار کی )۔جس کے سبب
مفلوج و لنگڑاآد می اٹھ کھڑاہوجاتا ہے ۔
آپ نے کہا :بادشاہ سلامت !یہ لوگ دو حجت لا چکے ہیں اور ہم نے بھی ان کی
طرح دو حجت پیش کر چکے ہیں ۔ صرف ایک دلیل باقی رہ جاتی ہے ۔اگر یہ اس کو
بجا لاتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ان کے مذہب میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
آپ نے کہا:بادشاہ سلامت ! مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کا صرف ایک فرزند تھا وہ
بھی اس دنیا سے کوچ کرگیا اگر ان کا خدا اس کو(دوبارہ)حیات عطا کردیتا ہے
تو ہم ان کے ہم مذہب ہوجائیں گے ۔
بادشاہ نے کہا :جی! میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ۔
جناب شمعون نے کہا :اب صرف ایک دلیل باقی رہ جاتی ۔بادشاہ سلامت کا فرزند
اس دنیا سے گذر چکا ہے ۔لہٰذا !اپنے پروردگا ر سے اس کو(دوبارہ) حیات عطا
کر نے کا سوال کرو ۔وہ لوگ اپنے خدا کے سامنے سر بسجود ہوئے ،اپنے سجدہ کو
طولانی کیا ،اپنا سر اٹھا یا اور بادشاہ سے کہا کہ کسی کو اپنے فرزند کی
قبر کے پاس بھیجیں اور ان شاء اﷲ آپ اسے زندہ پائیں گے ۔لوگ گئے اور اسے
قبر سے باہر پایا ۔وہ اپنے سر سے گردو غبار جھاڑرہا تھا ۔اسے بادشاہ کے پاس
لایا گیا ۔وہ اپنے فرزند کو پہچان گیااور پوچھا بیٹا!کیسے ہو ؟!
اس نے کہا :میں مردہ تھا ۔میں نے اﷲ کے سامنے دوشخص کو حا لت سجدہ میں میری
دوبارہ زندگی کے سلسلے میں دعاکرتے دیکھا ۔سواس نے مجھے زندہ کردیا ۔
بادشاہ نے کہا:اے میرے فرزند ! کیا تم انہیں پہچان سکتے ہو؟
اس نے کہا:ہاں!
تب لوگوں کو ایک میدان میں لاگیا ۔سب کو ایک ایک کرکے گذارا گیا ۔باپ نے
بیٹے سے کہا :دیکھو!بیٹے نے کہا:نہیں ! یہ نہیں ہیں !جب کچھ لوگ گذر گئے تو
بادشاہ نے ان میں سے ایک شخص کو گزارا ۔بیٹے نے فوراًاشارہ کرتے ہوئے کہا :
ان میں سے ایک یہ ہے ۔لوگ گزرتے رہے یہاں تک کہ اس نے دوسرے ساتھی کو دیکھا
اور کہا : ان میں سے یہ دوسرا شخص ہے ۔وہ پیغمبر جو ان دو شخص کے ساتھی تھے
انہوں نے کہا کہ جہاں تک میری عقیدہ کی بات ہے میں تمہارے خدا پر ایمان
لایا ۔میں جانتا ہوں کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ بر حق ہے ۔
بادشاہ سلامت نے کہا: میں بھی تمہارے سا تھ خدا پر ایمان لے آیا ۔پھر اس کی
حکومت میں جتنی رعایا تھی سب خالق یکتا پر ایمان لے آئی ۔(بحارالانوارج ۱۴ص
۴۰۔۴۲ح ۲۰)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم)
|