گاڑی پوری رفتار سے موٹر وے پر روانی سے ڈور رہی تھی۔آدھا
راستہ طے ہوا تو سوچا کچھ دیر رک جائیں، آرام بھی ہو جائے گا اور چائے بھی
پی کر کچھ تروتازہ ہو جائیں گے۔ قیام اور طہام آتے ہی گاڑی کا رخ اس کی طرف
موڑ دیا۔یکایک پتہ نہیں کیا ہوا، آہستہ سپیڈ پر گاڑی کانپنے لگی۔ یہ اس
کمپنی کی گاڑی ہے جو دنیا بھر میں اپنی مضبوطی اور پائیداری کے لئے معروف
ہے۔ نئی گاڑیاں ویسے بھی دو ڈھائی لاکھ کلو میٹر تک خراب نہیں ہوتیں۔ اپنے
اطمینان کے لئے میں نے کئی بار بند کی ،سٹارٹ کی، آہستہ چلائی، تیز چلائی۔
باقی سب ٹھیک تھا مگر آہستہ سپیڈ پر کانپنے کے سوا اس میں کوئی خرابی نہیں
تھی۔ہم دوبارہ عازم سفر ہوئے توباقی راستہ گاڑی نے بڑی روانی سے تیز سپیڈ
پر طے کیا ور ہم لاہور پہنچ گئے۔
اگلے دن میں گھر کے قریب ایک جدید ورکشاپ پر گاڑی کو ٹھیک کرانے پہنچ گیا۔
انہوں نے گاڑی کو پوری طرح چیک کیااور بتایا کہ گاڑی کے چار پلگوں میں سے
شاید دوسرے پلگ یا اس کی تار میں نقص لگتا ہے ۔ امید ہے ان میں سے کوئی ایک
چیز بدلنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا جس کا خرچہ سات آٹھ سو روپے آئے گا۔ ہاں
البتہ یہاں خرابی نہ ہوئی اور ہیڈ کھولنا پڑا تو چار ہزار کے لگ بھگ آپ کا
خرچ ہو جائے گا۔ میرا بیٹا انجینئر ہے۔ میں نے فون پر اسے بتایا تو اس نے
کہا کہ نئی گاڑی ہے ابھی فقط چالیس ہزار کلو میٹر چلی ہے اس ورکشاپ پر نہ
دیں ، ہیڈ کھول کر کہیں انجن مزید خراب نہ کر دیں۔بہتر ہے کہ کمپنی کی
ورکشاپ سے مرمت کرا لی جائے۔ کم از کم وہ گاڑی کی خرابی کا صحیح اندازہ تو
لگا لیں گے۔بیٹے کے مشورے کے مطابق میں نے اس ورکشاپ والوں سے اجازت لی اور
انہیں بغیرکچھ دیئے تھوڑی دیر بعد میں کمپنی کی " "3S سروسز سے استفادے کے
لئے ٹھوکر نیاز بیگ ان کے بہت بڑے شوروم سے ملحقہ ورکشاپ میں موجود تھا۔
دنیا بھر میں آٹو انڈسٹری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔دنیا میں شاید انسانی
آبادی میں بھی اس شرح سے اضافہ نہیں ہو رہا، جس شرح سے گاڑیوں کی تعداد میں
اضافہ ہو رہا ہے۔پچھلے چند سالوں میں جدید قسم کی ورکشاپس بڑی تیزی سے وجود
میں آ رہی ہیں۔اس سے پہلے محلوں میں عام مستری گاڑیوں کو ٹھیک کرتے تھے۔
اچھی قسم کے سپیئر پارٹس بھی میسر نہیں تھے۔ لوگوں کو اچھی سہولیات میسر نہ
ہونے کی شکایت تھی۔ اس شکایت کے ازالے کے لئے گاڑیاں بنانے والی دنیا کی
تمام کمپنیوں نے "3S" کا تصور اپنایا۔یعنی سیل، سروس اور سپیئرز۔ جس جگہ پر
گاڑی بیچی جائے وہیں پر مرمت اور دیکھ بھال کی جدید ترین سہولت بھی اپنے
گاہکوں کو فراہم کی جائے، وہیں پر فالتو پرزہ جات بھی میسر ہوں۔ یہ سہولت
مہیا کرنے والی کمپنیوں پر لوگوں کا اعتماد بڑھا جس سے کمپنیوں کی ساکھ اور
سیل دونوں میں اضافہ نظر آیا۔کمپنیوں کی جدید ورکشاپس نے مقابلے کے رحجان
کو بھی فروغ دیا۔ آج بہت سی پرائیویٹ ورکشاپس کمپنیوں کی ورکشاپس سے بہتر
نہ سہی مگر ان کے ہم پلہ ضرور ہیں۔عام ورکشاپس کا معیار بھی اب بہت بہتر ہو
چکا ہے۔ فالتو پرزے بھی ہر معیار میں بازار میں بآسانی دستیاب ہیں۔بات صرف
اعتماد اور اعتقاد کی ہے۔لوگوں میں ایک رحجان ہے کہ جس کمپنی کی گاڑی ہے
بہتر ہے اسی کی "3S" سروسز سے استفادہ کیا جائے، اس لئے یہ سروس بہت کامیاب
ہے۔
دنیا بھر میں شہروں اور قصبوں تک "3S" سیلز سنٹرز کا رحجان اس قدر پھیل گیا
ہے کہ اب کوئی کمپنی اپنا شو روم ان تمام سہولیات کے بغیر بنانے کا تصور
بھی نہیں کر سکتی۔بھارت کے تمام شہروں میں ٹاٹا موٹرز اور اشوک آٹوز کے
"3S" شوروم نظر آتے ہیں۔ یہ شو روم اس قدر جدید ہیں کہ انسان پریشان ہو
جاتا ہے۔ گاڑی بیچنے کے بعد یہ آپ کو ہفتے کے سات دن چوبیس گھنٹے سہولیات
فراہم کرتے ہیں۔ان سہولتوں میں فنانسنگ، انشورنس او ر انتہائی معمولی
معاوضے میں سالانہ دیکھ بھال کا معاہدہ شامل ہیں۔ گاڑی کی دیکھ بھال اور
مرمت کے لئے آنے والے ڈرائیوروں کے لئے بہترین ایر کنڈیشنڈ لاؤنج جہاں Wi
Fi کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے، موجود ہیں۔ گاڑی کی مرمت کے دوران اگر مالک
یا ڈرائیور آرام کرنا چاہے تو آرام کے لئے بھی جگہ موجود ہوتی ہے۔ مرمت اور
دیکھ بھال کا معاوضہ انتہائی جائز ہوتا ہے۔ اگر باہر کوئی جدید ورکشاپ کسی
مرمت کے ایک ہزار لیتی ہے تو "3S" والے بھی وہ کام اسی معاوضے میں کرتے ہیں
اور اگر بڑا زیادہ بھی لیں تو بارہ سو ہو جائیں گے ۔ سالانہ معاہدہ ہو تو
یہ کام بہت کم معاوضے میں ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ چھوٹی اور پرائیویٹ ورکشاپس
کے ساتھ یہ ایک صحت مند مقابلے کی فضا قائم رکھتے ہیں۔پاکستان میں بھی اس
وقت ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی موٹرز کی ـ"3S" سروسز دستیاب ہیں۔
میرے گھر کے قریبی جدید ورکشاپ والے نے زیادہ سے زیادہ معاوضہ چار ہزار
بتایاتھا۔میرے بیٹے نے کہا، گاڑی والوں کی "3S" ورکشاپ ہر لحاظ سے بہتر ہے،
چار نہیں چھ سات ہزار لے لیں گے۔یہی سوچ کر اوربیٹے کے مشورے سے میں "3S"
ورکشاپ کے دفتر کے سامنے موجود تھا۔ گاڑی کھڑی کرکے میں انٹری پاس بنوانے
دفتر میں داخل ہوا تو بیٹھ کر انتظار کا کہا گیا۔ انٹری پاس بنانے والے
دونوں لڑکے، میرے علاوہ دفتر میں کوئی دوسرا نہ ہونے کے باوجود،بہت مصروف
تھے۔ آدھ گھنٹہ گزرا تو ایک صاحب آئے اور انہیں کچھ ہدایات دینے لگے۔ یقیناً
انچارج ہونگے۔میں نے عرض کیا، حضور انتظار میں ہوں ، یہ بتا دیں کہ یہاں
انتظار منٹوں کے حساب سے ہے یا گھنٹوں یا پھر دنوں کے۔ مسکرا کر بولے، کب
سے بیٹھے ہیں ، بتایا آدھ گھنٹے سے ۔ ایک نوجوان کو ہدایت ہوئی کہ انہیں
فوری ڈیل کیا جائے ۔ چند منٹ کے بعد میں گاڑی سمیت ورکشاپ میں تھا۔ پندرہ
منٹ انتظار کے بعد مجھ سے گاڑی لے لی گئی اور مجھے انتظار گاہ میں بھیج دیا
گیا۔دس منٹ بعد ایک سپر وائزر صاحب آئے اور بتایا کہ گاڑی دو دن کے لئے
چھوڑنا پڑے گی ۔ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے مگر اس میں یہ اور یہ یہ نقائص ہو
سکتے ہیں۔مجھے لگا میں کسی پوشیدہ امراض کے ماہر سنیاسی کی علاج گاہ میں
بیٹھا ہوں ۔ اور بقول اس کے مجھے بے حساب امراض لاحق ہیں۔پتہ چلا کہ آج
گاڑی کا انجن کھولا جائے گا، پھر نقص کا اندازہ ہو گا، خیال ہے کہ کل سارے
دن کے لئے خراد پر بھیجنا پڑے گی ، پرسوں فٹنگ ہو گی اوراسی شام کوگاڑی آپ
کو مل جائے گی۔پیسے کتنے لگیں گے انجن کھولنے کے بعد اندازہ ہو گا۔میں یہ
سوچ کر کہ اس قدر تباہ حال گاڑی اور پرائیویٹ ورکشاپ والا گھنٹے ڈیڑھ میں
مجھے فارغ کر رہا تھا۔ اسے کام کا پتہ ہی نہیں تھا۔دو تین بجے کا وقت تھا،
میں گاڑی ان کے سپرد کرکے گھر آ گیا۔
اگلی صبح نو بجے میرا بیٹا یہ پتہ کرنے کہ گاڑی میں کیا نقص ہے وہاں پہنچا
تو حیران ہوا کہ گاڑی کل شام ہی سے تیار تھی۔ اسے پچیس ہزار دو سو نوے روپے
دینے کے بعد گاڑی مل گئی۔اندازہ ہوا کہ وہ گاڑی میں لمبی خرابی اور وہ دو
تین دن سب ڈرامہ تھا۔ اتنا زیادہ بل کیوں کوئی پوچھنے کی جرآت نہیں کر
سکتا۔گاڑی میں کیا معمولی نقص تھا۔کچھ پتہ نہیں ۔اس نقص کے بارے ، پرائیویٹ
ورکشاپ والے مفت بتاتے ہیں ۔ "3S" ورکشاپ والوں نے چار ہزار روپے لئے۔
مرمت، جس کے عام ورکشاپ والے ہزار سے پندرہ سو وصول کرتے ہیں،اس کے پندرہ
ہزار وصول کئے گئے۔سلنڈر ہیڈ کی گیس کٹ ،جو بازار میں ہزار بارہ سو میں
دستیاب ہے، پنتالیس سو (4500)میں ڈالی گئی۔ سیل کے دس سو تیس(1030)، پلگ
صاف کرنے کے چار سو، سلیکون ڈھائی سو روپے اور ریگمار سمیت ہر چیز کی قیمت
بھی بل میں شامل تھی ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ جو لوگ مسکرا کر ملے انہوں نے اپنی
مسکراہٹ کی قیمت وصول نہیں کی۔
مجھے انگلینڈ میں "3S" جانے کا اتفاق ہوا۔ بھارت بھی ایک دوست کے ساتھ گیا
ہوں۔ مگر دونوں جگہ ایسی لوٹ مار نہیں۔ ان سے تقابل کرتا ہوں تو محسوس ہوتا
ہے کہ ہمارے "3S" والے کسی ڈاکو سے کم نہیں اس قدر چور بازاری،"3S" کے نام
پر اس قدر لوٹ مار۔ اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہماری وزارت تجارت
عملی طور پر اندھی ہے۔کسی دوسرے ملک میں کوئی کمپنی اس قدر لوٹ مار کر رہی
ہوتی تو اس کے مالکان سزا بھگت رہے ہوتے۔ کمپنی بند ہو چکی ہوتی۔کچھ قصور
ہمارا بھی ہے۔ ہم کمپنیوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔جن لوگوں کے پاس آسان
آمدن ہے۔ حرام خوری ہے۔ ناجائز پیسہ ہے انہیں تو اتنی رقم کا احساس ہی نہیں
ہوتا۔ مگر میرے جیسے شخص کے لئے ایک ظلم ہے، نا انصافی ہے۔گاڑی کبھی عیاشی
تھی اب ایک ضرورت ہے۔شہر پھیل رہے ہیں، فاصلے بڑھ رہے ہیں، وقت بہت قیمتی
ہو گیا ہے۔ حکومت جہاں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں کنٹرول کرتی ہے وہاں
ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی نظر رکھے تو بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے
اوراس سے حکومت کی نیک نامی بھی ہو گی اور عوام کوحکومت کی موجودگی کا
احساس بھی۔ |