ڈائری لکھنا میرا معمول ہے، آج سے تقریباً تیرہ برس
قبل (24 اپریل بروز اتوار 2005 ) ‘ میں نے کچھ الفاظ ڈائری میں قید کیے۔جن
کا عنوان ’’ہے کوئی ہم جیسا‘‘تھا۔آ ج میں نے سوچا کہ قارئین آپ سے شیئر
کروں۔ تحریر ملاحظہ کیجئے۔
پی ٹی وی (PTV ) نے قومی کرکٹ ٹیم کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے
بلیو ایریا اسلام آباد میں استقبال اور مختلف پروگراموں اور شوز (Shows )
کا اہتمام کیا۔ یہ سب کچھ براہ راست دیکھایا گیا۔ قومی کرکٹ ٹیم نے بھارت
کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز 1-1 سے برابر کھیلی اور جب کہ ایک روزہ میچوں میں
چار - صفر سے کامیابی سمیٹی۔قومی ٹیم کی فتوحات کی خوشی میں پی ٹی وی نے
اپنی براہ راست ٹرانسمیشن ’’ہے کوئی ہم جیسا‘‘ کے نام سے سارا دن جاری
رکھیں اور فتح کا جشن خوب منایا۔
’’ہے کوئی ہم جیسا‘‘ کے معنوں پر پاکستان کرکٹ ٹیم کا پچھلا ریکارڈ دیکھ کر
غور کیا جائے تو اس کے معنی و مفہوم کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اور یہ الفاظ
ہماری قومی ٹیم کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتے ہیں۔وہ ٹیم جو ایک میچ اچھا کھیلے‘
تو اُن سے یہ توقع قطعاً نہ رکھیں کہ وہ اگلا میچ بھی ویسا کھیلے گی۔جی ہاں!
اسی خصوصیت کی بنیاد پر دنیائے کرکٹ کے شائقین و ناقدین ’’Unpredictable ‘‘
کے نام سے پُکارتے ہیں۔بالکل یہ بات ٹھیک نشانے پر بیٹھتی ہے کہ ہم جیسا
باقی کرکٹ دنیا میں کوئی نہیں ہے۔شاباش پی ٹی وی!’’ہے کوئی ہم جیسا‘‘ نام
بھی ایسا رکھا جو ٹیم کی موجوہ اور اگلی پچھلی تمام کارکردگی کی عکاسی کرتا
ہے۔
اگر ہم پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کا انفرادی جائزہ لیں۔ چلیں یوں کہتے ہیں
کہ ہماری کھلاڑی بہت اچھے ہیں اور نہ ہی بہت بُرے، بلکہ اوسط درجے کے مالک
ہیں۔ تو پھر وہ کیا بات ہے جو ہماری ٹیم کو مسلسل فتوحات سے روکے رکھتی
ہے۔آف دی فیلڈ (On the paper ) ہمارے کھلاڑیوں کا ریکارڈ نہایت شانداراور
اِن دی فیلڈ (In the field ) ہمارے کھلاڑی بالکل مخالف۔۔۔۔ آخر کیوں؟
اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انفرادی کارکردگی آپ کو جیتواسکتی ہے لیکن اس سے
کامیابیوں کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ یعنی اگر ٹیم متحد ہو کر
کھیلے اور ایک وننگ اور فائٹنگ اسپرٹ کے ساتھ کھیلے تو ریکارڈ اِن دی فیلڈ
بھی شاندار رہتا ہے۔
آج ہماری ٹیم نے جو کامیابیاں بھارتی سرزمین پر بھارت کے خلاف حاصل کی ہیں
وہ صرف اور صرف ایک فائٹنگ اسپرٹ کی بدولت حاصل کی ہیں، ٹیم کے ہر کھلاڑی
نے اپنا حصہ ڈالا، ہر کھلاڑی نے ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے کھیلا، اور
ٹیم کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے لئے اہم
کامیابیاں سمیٹیں اور قومی پرچم کو سر بلند رکھا۔جس کی ایک مثال نائب کپتان
یونس خان کی سامنے آئی۔ آخری اور فیصلہ کن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں جب یونس
خان اپنی سینچری سے چند رنزوں کے فاصلے پرتھے، انہوں نے اپنی سینچری کی
پراوہ کیے بغیر اننگز ڈیکلیرڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک قابل فخر و ستائش اور
خراج تحسین مثال قائم کی۔اگر یونس خان اپنی سینچری اسکور کر لیتا تو وہ
ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سینچریاں اسکور کرنے والے بلّے بازوں کی فہرست میں
شامل ہوجاتا، لیکن انہوں نے اپنی اننگز ‘ٹیم کی فتح کے لئے قربان کردی۔ ویل
ڈن گریٹ یونس خان۔۔۔۔۔
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے کھلاڑی فائٹنگ اسپرٹ کے ساتھ میدان میں
اُتریں، خواہ وہ جیتیں یا ہاریں۔۔۔ ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہیں۔ کیوں کہ
کامیابی کسی کی میراث نہیں۔ |