شمتالے تاشیانہ۔ موریشس یونیورسٹی
ہوگا ایسا بھی کوئی جو غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ انیسویں صدی میں اردو ادب بلکہ اردو شاعری میں سب
سے نمایاں نام مرزا غالب کا ہے جبکہ اٹھارویں صدی میں میر تقی میر کا زیادہ
چرچہ تھا اور بیسویں صدی میں علامہ اقبا ل کا۔ در اصل غالب کی عظمت کا راز
صرف ان کا طرزِ بیان اور خوبی اظہار ہی نہیں ہے بلکہ ان کااصل کمال یہ ہے
کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے
اور بڑی سادگی سے عوام کے لئے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں
پیدا ہوئے تھے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے
ہوئے اور انگریز قوم کو ملک پر اقتدار قائم کرتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی پس
منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی جس کا عکس ان
کی شاعری میں ابھرتا نظر آتا ہے۔ مرزا غالب نے ویسے شاعری کی مختلف اصاف
میں طبع آزمائی کی تھی لیکن غزل گوئی میں ان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ
بات قابلِ ذکر ہیکہ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان میں بھی شاعری کی
ہے۔ یعنی وہ ان دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے ۔ابتدائی دور میں ان
کے اردو کلام میں مشکل پسندی تھی اور فارسیت کا غلبہ تھا لیکن جب وہ مشکل
پسندی سے دست بردار ہوئے اور فارسی زدہ اسلوب کو انہوں نے خیر باد کہی تو
ان کی غزلوں میں اس نوع کے اشعار اپنی بہار دکھانے لگے:
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا
ہے؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
مذکورہ بالا اشعار سے غالب کے انداز بیان کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ کسی بھی
مضمون کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کردیتے تھے یہاں تک کہ پامال مضامین بھی
ان کے مخصوص اندازِ تحریر سے خوبصورت معلوم ہونے لگتے ہیں۔ علاوہ بریں غالب
نے اپنی غزلوں میں انسانی زندگی کے مختلف پہلو اور جذبات کی بوقلمونیاں پیش
کی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مزید براں کائنات اور مناظرِ قدرت کے حسن اور محبوب کی خوبصورتی پر غالب نے
غائرانہ نظر ڈالی ہے۔ پھر رمز یہ اور طنزیہ انداز میں انہوں نے اپنی غزلوں
میں جو جمالیاتی حسن پیدا کیا ہے وہ ان کی تخلیقی ہنرمندی کی دلیل ہے۔
قدرتی مناظر کاذکر کرتے وقت غالب کے یہاں تصوف کا پہلو ابھرتا ہے اور
محبوبِ مجازی کا ذکر اپنی مثال آپ ہے۔ ذیل میں چند اشعار بطورِ مثال پیشِ
خدمت ہیں:
جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردہ میں مْنہ
چھپائے کیوں
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیا ں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو
دیکھتے ہیں
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
اسے کون دیکھ سکتا ہے کہ یگانہ ہیوہ یکتہ جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں
دو چار ہوتا
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
دہر جز جلوہء یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق ایک آفاقی موضوع ہے اور اس موضوع کو تمام تر
زبانوں کے شعرا نے اپنے اپنے انداز میں پرکھا، برتا اور باندھا ہے۔ اردو
شاعری میں عشق سے متعلق ا اتنا بڑا سرمایہ موجود ہے کہ اس پر پوری پوری
کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غالب کی شاعری میں عشق و
محبت کا جذبہ اپنی مختلف صورتوں میں جلوہ افروز ہے۔ کہیں پہ وہ شوخی سے کام
لیتے ہیں تو کہیں وہ نفسیاتی پہلووں کو اجگر کرتے ہیں اور اس امر سے یہ پتہ
چلتا ہے کہ غالب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے نباض بھی
ہیں۔کبھی وہ دوسرے عاشقوں پر طنز کرتے ہیں اور کبھی اپنے جذبہ عشق اور
دیوانگی کو بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر :
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت میری شہرت ہی سہی
غم اگرچہ جاں گْسل ہے، پہ بچیں کہاں کہ دل ہے غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ
روزگار ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر
پہ دم نکلے
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالب کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میر ے بعد
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کلام غا لب کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ فرہاد تو
کبھی قیس کو عشق کے مضمون کے درمیان لے ا?تے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ
یہ دونوں کردار اپنی دیوانگی شوق اور اپنے جذبہ ق کی انتہا کے لئے مشہور
ہیں۔ چند اشعار دیکھیے جن سے دیوانگی اورعشق کے کئی رنگ واضح ہوتے ہیں:
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد اآیا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا
یہ واضح رہے کہ مرزا غالب کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے کیونکہ ان کے یہاں
شوخی و ظرافت بہ درجہ اتم موجود ہے۔ طنز و ظرافت کے لئے ذہانت اور فطانت
درکار ہے۔ مرزا غالب کی ذہنی ساخت اور میلان طبع اس بات کی گواہی دیتے ہیں
کہ وہ کس قدر ذہین و فطین انسان تھے۔ جس زندہ دلی اور خوش طبعی سے غالب کا
شعری آہنگ شوخی و ظرافت کے لہجہ میں تشکیل ہوتا ہے وہ لائقِ داد ہے۔ انہوں
نے نہ صرف دوسروں پر طنز کیا ہے بلکہ اپنے آپ پر بھی طنز کیا ہے۔ یہ بھی
غور کیا گیا ہے کہ ان کے کلام میں انہوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ خدا اور
فرشتوں کو بھی اپنے طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ اشعارچند دیکھیے:
ان پری زادوں سے لیں گے ہم خلد میں انتقام قدرتِ حق سے یہی حوریں، اگر واں
ہوگئی
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟
مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے یہ بندہ کمینہ ہم سایہ خدا ہے
عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
یہ بات بھی دعوتِ فکر دیتی ہے کہ مرزا غالب کی شاعر ی میں گہرے فکریو فلسفے
کی کارفرمائی ہے۔یہ درست ہے کہ غالب کے یہاں اقبال کی طرح کوئی منظم فلسفہ
اور باضابطہ کوئی فکری نظام نہیں پایا جاتا ہے لیکن پھر بھی غالب کے پورے
کلام پر فکر و فلسفے کی گہری چھاپ ضرور ملتی ہے۔ وہ پوری کائنات اور انسانی
دنیا کو غور سے اور سوالیہ اندازمیں دیکھتے ہیں۔ آئیے کچھ اشعار دیکھتے ہیں
جن میں غالب کی گہری فکر اور تخیل کے نقوش ابھرتے ہیں:
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جْز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غالب نے اردو غزل کی روایتی طرز اظہار کو خیر
باد کہہ کر اپنا نیا اندازِ بیان پیدا کیا ہے۔ ان کے یہاں استعاروں اور
تشبیہوں کا برمحل اور برجستہ استعمال ملتا ہے۔ انہیں صنائع و بدائع پر
دسترس حاصل ہے۔ زبان و بیان میں توانائی کے ساتھ روانی، برجستگی، سلاست اور
سادگی کے ساتھ کبھی کبھی مشکل پسندی اور فکرو تصوف کے ساتھ طنز و ظرافت کی
آمیزش ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ غالب کی غزلوں میں مضامین کا تنوع ، زورِ
بیان اور دلکش زبان، سادہ و مشکل الفاظ کا التزام ، روایت و جدت کا حسین
امتزاج ، انسانی جذبات ، مشاہدات اور تجربات کی خوبصورت پیش کش ، زندگی کے
نشیب و فراز نیزغم و نشاط کے دونوں پہلو بلا تصنع اور صنائع و بدائع کا
اہتمام اس قدر پر کیف انداز میں ملتا ہے کہ کسی دوسرے شاعر کے یہاں ناپید
ہے۔ یہی سبب ہے کہ غالب کے کئے اشعار زبان زدِ خلائق ہو گئے اور آج تک
لوگوں کے دلوں کو مسحور کرتے ہیں۔ چند اشعار پر یہ مضمون اختتام کو پہنچ
رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں
مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئیے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار
کوئی ہمیں ستائے کیوں
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی بسکہ دشوار ہے ہر کام
کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اْگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی
ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر
بھی کم نکلے
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے
کیوں
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا
تھا کہ ہم نکلے |