سرکار کو اپنے کارِ سرکار کے لیے ملازمین کی ضرورت ہوتی
ہے،،،جس سے
اس کے کاروبارِ حکومت کو چلایا جاسکے۔
ترقی پذیر ملک ہوں،،،یا ترقی یافتہ،،،سرکار کی ملازمت کو نعمتِ خداوندی
تصور کیا جاتا ہے،،،
ابھی ہمارے پڑوسی ملک جو خود تو جلی ہوئی بھنڈی جیسے ہیں،،،،مگر
شائنگ انڈیا کی گردان ایسے کرتے ہیں،،،کہ اب ڈکشنری والے،،،شائنگ کا
مطلب تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
بات تھی سرکاری ملازمت کی،،،انڈیا میں چودہ ہزار کی چپڑاسی کی نوکری،،،
کیلئے لاکھوں افراد نے اپلائی کیا۔جس میں ڈاکٹر،انجینئر،بزنس گریجویٹ
بھی شامل تھے۔
پتا نہیں شائنگ انڈیا میں یونیورسٹیز اتنے قابل لوگ کیوں پیدا کررہی ہیں،،،
کہ ان کی قابلیت کے مطابق روزگار میسر نہیں ہے،،،یا تو ڈگری میں جان
نہیں ہے۔ یا پھر انڈیا شائن ہونے سے پہلے زنگ آلود ہو رہا ہے۔خیر یہ انکا
ذاتی مسئلہ ہے،،،ہم کیا کر سکتے ہیں،،،کیونکہ افسوس ہمارا کام کا نہیں۔
پاکستان میں اگر کوئی آپ سے سست کاہل،،،نکمے،،،نکھٹو،،،کا مطلب اک
لفظ میں بیان کرنے کو کہے،،،تو اکثر کا جواب ہوگا سرکاری ملازم۔
آپ سوچ رہے ہوں گے اک ہی شخص میں اتنی ساری خوبیاں کیونکرہوسکتی
ہیں۔جناب،،،! ان سب کی بنا پرہی تو انہیں سرکار کی غلامی کا طوق عنایت،،
کیا جاتا ہے۔
آپ کو اگر کوئی شخص بہت باتیں کرتا ہوا،،،اور ساتھ میں بے فکری سے چائے،،
پیتا ہوا نظر آئے۔ساتھ میں اخبار کا مطالعہ بھی کررہا ہو تو سمجھ
جائیں،،،کہ
یہ اک سرکاری ملازم ہے۔
آپ سوچیں گے ہمارے پاس ایسی کیا دلیل ہے جو ہم اتنے اعتماد کے ساتھ
کیسے یہ سب فرما رہے ہیں۔
بھائی،،،ہاتھ کنگن کو آرسی کیا،،سرکاری ملازم کوکام سے کیا،،،چلو بھائی،،،!
آپ
پی آئی اے،،ریلوے،،سرکاری ہسپٹلز،،سکول،،کالجز،،میونسپل،،پولیس،،،بات نکلے
گی تو دور تک جائے گی۔یعنی کہ پی ایم،،،سی ایم تک جائے گی۔پھر بھلا ہم کہاں
جائیں گے۔
ویسے بھی جو کسی کام کا نہیں ہوتا،،،وہ سرکار کے کام کا ہوتا ہے،،،اور
جوکچھ نہ
کر پائے،،،وہ مزے سے سرکار چلائے۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے،،،جیسی سرکار ویسے ملازم،،،پیوستہ رہ سرکار
سے،،،
امیدِ آدمانی رکھ،،،بات سمجھ آگئی ہو گی۔۔ورنہ پھر کبھی سہی۔۔۔!
|