دوسرا منظر
ابھی زرنیش سیڑھی پر قدم جمانے والی تھی کہ رافعہ باہر نکلی اور اسے آواز
دیتے ہوئے کہا:
سنو ، زرنش نے اس کی آواز پر پلٹ کر غور سے اسے دیکھا۔
تمھیں کتنی بار کہا ہے اپنا کچرا اپنے ڈسٹبن میں ڈالو اور خود باہر رکھ کر
آؤ۔ رافعہ نے ہر لفظ چبا چبا کر ادا کیا
اوہ، وہ اس نے کچھ سوچنے کا ٹائم لیا
اصل میں، میں صبح لیٹ اٹھی تھی اور جلدی جلدی تیار ہو کر کچرا باہر ہی
پھینکنے والی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے سوچا میں اچھی نہیں لگتی یہ کام کرتے ہوئے تو کیوں نہ رافعہ کو یہ
ذمہ داری دے دوں، رافعہ نے اس کی بات بیچ میں کاٹ کر خود مکمل کی۔
نہیں نہیں میں ایسا کیوں سوچوں گی۔ تم غلط سوچ رہی ہو۔ میں جلدی جلدی میں
یہاں چھوڑ گئی۔ آئندہ نہیں ہوگا۔
یہ تو تم نے لاسٹ ٹائم بھی کہا تھا۔
اب یاد رکھوں گی۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
مجھے سو فیصد یقین ہے تم کچھ دنوں بعد پھر یہ حرکت کرو گی۔
اور میں یہ حرکت پھر کیوں کروں گی، زرنش نے سوال کیا گویا اس کی بات کا مزہ
لیا ہو۔
کیونکہ تمہیں مزہ آتا ہے مجھے تنگ کرنے ہیں۔ مجھ سے لڑنے میں۔
پتا ہے تو خون کیوں جلاتی ہو، زرنش نے دل میں سوچا اور بولا تو بس اتنا،
اچھا رافعہ میں شام کو آؤ گی تو کھل کر بات کریں گے۔ بائے
یہ کہتے ساتھ ہی وہ سیڑھیوں پر چل دی۔ ( او اب یہ بہت دنوں تک بات نہیں
کرنے والی مجھ سے)
رافعہ وہی کھڑی تلملا رہی تھی۔
زرنش کو یہاں شفٹ ہوئے ایک سال ہوگیا تھا۔ وہ رافعہ کی ہم عمر ہے۔ پہلے وہ
حیدرآباد میں رہتی تھی مگر اپنی امی کے انتقال کے بعد احمد صاحب ( زرنش کے
ابو) نے کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی وہاں کے رشتہ داروں کی باتیں
انھیں تنگ کرتی تھی اور یہاں کے رشتے انھیں سب سے پیارے تھے۔ اپنے مسئلوں
کا ذکر جب انھوں نے اپنے بڑے بھائی سے کیا تو انھوں نے یہاں شفٹ ہونے کا
مشورہ دیا۔ویسے بھی وہ یہاں کے ماحول سے اچھے سے واقف تھے اور پڑھائی کے
بعد وہ یہاں آکر جاب بھی کرتے رہے تھے ، اپنی جاب کے دوران ہی انھیں ندا
پسند آئی تھی اور شادی میں بھی بڑے بھائی نے مدد کی باقی گھر والے کچھ خاص
خوش نہ تھے مگر سب راضی ہوگئے تھے یہی کافی تھا، ماں باپ کے انتقال کو ہوئے
بھی عرصہ بیت گیا تھا، اب انھیں شادی تو کرنی ہی تھی تو اپنی پسند سے کر لی
، پھر شادی کے بعد وہ حیدرآباد میں ہی رہے، مگر انھیں بہت جلد احساس ہوگیا
تھا کہ یہاں زیادہ دیر نہیں رہ سکتے تھے انھیں نیا گھر لینا ہی پڑتا کیونکہ
پسند کی شادی ان کا گناہ بن گئی تھی، مگر انھیں نہیں پتہ تھا کہ انکی بیوی
بھی انھیں جلد چھوڑ جائے گی ،کچھ وقت کے بعد ان کی بہن اور باقی گھر والے
بھی دوسری شادی کا کہنے لگے انھیں یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں، اور وہ
زرنش کو بھی ان باتوں سے دور رکھنا چاہتے تھے اور احمد صاحب کا اچھا خاصہ
ایکسپیرینس تھا فائنیس ڈیپارٹمنٹ میں اس لیے چند ایک فرمز میں اپلائے کرنے
کے بعد ہی آسانی سے جاب مل بھی گئی زرنش کو بھی کراچی سے ہی بی بی اے میں
ایڈمیشن لینا تھا اور رہائش کی تو پروبلم ویسے ہی نہیں تھی سلیم صاحب نے
اوپر کا خالی پورشن احمد صاحب کے حوالے کر دیا۔ اب وہ یہاں سکون سے زندگی
گزار رہے تھے۔ |