دوستی سے زیادہ- قسط نمبر ٣

موجودہ وقت میں شام کو جب رافعہ سو کر اٹھی نماز پڑھنے کو بعد جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا، زرنش کی آواز کان تک پہنچی اور منہ کے زاویے بدلے ، کچن تک پہنچنے کے لیے قدم اٹھے اور زرنش کی پھر کوئی ڈیمانڈ آگئی۔
پارٹی میں چلو گی میرے ساتھ؟؟؟ دیکھو زرا سینیرس کتنی لیٹ پارٹی دے رہیں ہیں؟؟ چلو کوئی بات نہیں دے تو رہے ہیں نہ۔۔ تم بھی چل رہی ہو میں نے تمھارا نام بھی لیسٹ میں لکھوا دیا ہے۔
آنٹی آپ بھیج دیں گی نہ رافعہ کو؟ زرنش کے سب سوالوں کے جواب بھی اسی کے پاس ہوتے۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔ ویسے بھی یہ کہیں آتی جاتی نہیں ہے تم لے جانا۔ نصرت بیگم نے ٹی وی پر نظر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
رافعہ بی اپنی امی کو گھور تے ہی رہ گئی۔
ہفتے کا دن:
زرنش اس کے دروازے پر کھڑی تھی اور باز پرس کر رہی تھی
میں تمہیں کہ کر گئی تھی تیار ہوجاؤ، تم ابھی تک اسے ہی کھڑی ہو؟
sorry میں تمھارے ساتھ نہیں جا رہی ، رافعہ نے بے زاری ظاہر کی۔
کیوں کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ؟
بس میں پارٹی واٹی میں نہیں جاتی۔ اب پلیز اب امی کو شکایت مت لگانا۔
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔
زرنش اوپر آکر سمرین کو کال کرنے لگی: ہاں سمرین sorry میں نہیں آپاؤں گی، دوسری طرف سے بات سنے بغیر کال کاٹ دی۔
اسے رافعہ کی کسی بات کا برا نہیں لگتا تھا۔رافعہ اور اس کا رشتہ ہی ایسا تھا ۔ اسے یاد تھا بچپن میں بھی رافعہ اس کے گھر آتی تھی۔ وہ تو ایک دو بار ہی گئی تھی کراچی ، رافعہ اکثر آتی تھی کیونکہ یہاں پوری فیملی جو آباد تھی۔
ان کے گھر میں ۴ فیملیز آباد تھیں ، سب کے الگ الگ پورشنز تھے زرنش کے ۲ اور تایا اور ان کی فیملی بھی وہی رہتی تھی، پھپھو نے اپنے بھائی سلیم کا پورشن ان سے خرید لیا تھا، وہ بھی وہی آکر بس گئیں تھیں، اسے اپنی پوری فیملی میں صرف سلیم انکل اور ان کی فیملی کو پسند کرتی ، وہ شروع سے ہی اپنے تایا کو انکل کہتی اور تائی کو آنٹی، انھوں نے بھی اسے کبھی منا نہیں کیا باقی اپنی پوری فیملی میں کسی بڑے سے بات نہیں کرتی ، اسے لگتا کا جس طرح اس کی امی سے سب لڑتے ہیں اسے بھی ڈانٹے گے مگر حیرت کی بات اس کے کراچی والے تایا تائی کے علاوہ کوئی اس کو پیار بھی نہیں کرتا تھا۔البتہ وہ اپنے کزنز سے لڑائی جھگڑے ضرور کرتی ۔ رافعہ جب ان کے گھر آتی تو الگ ہی رہتی حالانکہ سب اسے کتنا بلانے آتے مگر ایک دو بار کے علاوہ وہ نہیں آئی، زرنش کو پتہ تھا وہ کیوں نہیں آتی ، کیوں کے وہ گیمز میں ھمیشہ ہار جاتی، رافعہ کو بہت سی گیمز کھیلنی ہی نہیں آتیں تھیں، وہ کراچی میں اکیلی ہی وقت گزارتی تھی، رفیق تو پھر اپنے ابو کے ساتھ کلینک جایا کرتا اور اس کی دیگر ایکٹیوٹیز ہی بھت تھیں، لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتا مگر رافعہ گھر میں ہی رہتی ، اس کے کزن اس سے بات کرنے کی کوشش بھی کرتے تو وہ بھاگ کر اپنی امی کے پاس چلی جاتی ۔ رافعہ جب شروع شروع میں کھیلتی تو اس کے کزن اس کا مذاق بنایا کرتے کہ رافعہ تمھیں یہ سمپل گیمز بھی کھیلنی نہیں آتی، تو وہ بس بیٹھی رہتی ایک جگہ سے دوسری جگہ ۔
زرنش کی اپنی کہانی ہی الگ تھی ، اس کے ساتھ کوئی کھیلتا ہی نہیں تھا، وہ جب کھیلنے آتی اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ، وہ لڑتی تھی کھیلنے کے لیے۔ اسے اپنے سلیم انکل کے بچے ٹھیک لگتے تھے کم از کم وہ اسے منع تو نہیں کرتے تھے نہ ہی دھکے دے کر بھاگتے ، ایک بار لڑائی جھگڑے میں اسے گھٹنے پر چوٹ لگی تو کسی نے غور نہیں کیا تب رافعہ اس کی امی کا ہاتھ کھیچ کر باہر لائی اور اس کی چوٹ کا بتا کر اندر بھاگ گئی اس دن کے بعد زرنش کو وہ اور بھی اچھی لگی ، اگلی بار جب رافعہ آئی تو زرنش خود اس کے پاس جا کر اس سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگی ، اس کے ساتھ کھینے کی بھی کوشش کی ، شروع شروع میں رافعہ نے منع کیا مگر پھر جب دیکھا کہ زرنش اس کو گیمز کھیلنے کے طریقے بتاتی رہی تھی اور ہارنے پر اس کا مذاق نہیں اڑایا تو اس کے ساتھ کھیلنے لگی ، پھر اگلی بار جب رافعہ آئی تو اس نے پھپھو کی بیٹی سونیا کو دیکھا وہ رافعہ کو اپنے کھلونے دیکھا رہی تھی ، زرنش کو بہت خصہ آیا اور اس نے جا کر سونیا کا کھلونا توڑ دیا۔اس بات پر پھپھو نے اسے تھپر بھی لگایا تھا اور امی کی ان سے لڑئی بھی ہوئی۔ اس دن کے بعد رافعہ اس کے ساتھ نہیں کھیلی، وہ ایک دو بار کھیلنے کا پوچھنے بھی گئی مگر رافعہ نے منع کردیا تو وہ بھی پیچھے ہٹ گئی وہ رافعہ سے لڑتی بھی نہیں تھی کیو نکہ اسے رافعہ سے لڑنا اچھا ہی نہیں لگتا تھا باقی سب سے لڑ لیتی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی تعلیم میں بزی ہو گئی اور رافعہ بھی ۔

اب جب وہ یہاں شفٹ ہوئی تو رافعہ اس سے بات تو کرتی تھی مگر جب وہ بات کرے۔رافعہ اس کے بہت سے کاموں میں مدد بھی کرتی مگر پھر بھی دور ہی رہتی،تو اس نے اب نیا مشغلہ ڈھونڈ لیا تھا وہ رافعہ کو با ت بات پر تنگ کرنے لگی تھی اور بہت حد تک کامیاب بھی رہی تھی، رافعہ خود آکر اب اس سے بات کرنے لگی تھی اس نے جان بوجھ کر وہ کام کیے جس سے رافعہ چیڑے ۔ رافعہ اس کی باتوں پر چیڑتی بھی تھی اسے ترک با ترک جواب دینے لگی تھی ۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔
وہ چپ چاپ آگئی کہ جانا صرف رافعہ کے ساتھ تھا۔
 

Tooba
About the Author: Tooba Read More Articles by Tooba: 14 Articles with 15899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.