آئے دن سامنے آنے والی ہر خبر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ
ہم کس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں.اخلاقیات ، برداشت اور محبت
جیسی صفات ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں. اگر حال ہی میں ہونے والے چند واقعات پر
نظر دوڑائی جائے تو وہ ہماری کمزور اخلاقی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں.
قصور کی ننھنی زینب کو درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا.کوہاٹ میں
میڈیکل کی طالبہ کورشتے سے انکار پر قتل کر دیا گیا.اس کے علاوہ لیہ، جھنگ
اور سرگودھا سے ملزمان گرفتار کئے گے جو پورنوگرافی جیسے دھندے میں ملوث
پائے گئے.جن میں سے ایک نوجوان پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی کے فارغ
التحصیل انجئیرہے.اسی طرح نھنی زینب کو قتل کرنے والا درندہ صفت عمران خود
کو نقشبندی کہلواتا ہے اور موصوف ایک امام مسجد کے شاگرد ہیں جس سے تعویز
لکھنے کا ہنر سیکھتے تھے.اس کے علاوہ بھی اکثر جرائم میں ملوث پائے جانے
والے افرادکافی حد تک تعلیمی یافتہ پائے جاتے ہیں .یہ سب چیزیں اشارہ دیتی
ہیں کہ ہم تعلیمی یافتہ ہونے کے باوجود اخلاقی تربیت کی کمی کا شکار ہیں.
المیہ یہ ہے کے ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت کی بجائے گھوڑوں کی
ریس منعقد کی جاتی ہے جہاں ہر گھوڑے پہ انویسٹ کیا جاتا ہے. اس دوڑ میں
طالبعلم گھوڑے کا کردار ادا کرتا ہے جبکہ والدین اور اساتزہ انوسڑز کا
کردار ادا کرتے ہیں. اس دوڑ میں بھی گھوڑا اپنی سمت، مقصد اور منزل سے
بےخبر ہو کر صرف اپنے انوسٹر کی جیت کے لئے دوڑتا ہے.اس نمبروں اور گریڈز
کی دوڑ میں اگے نکل جانے والے کو شاباش ملتی ہے اور اگلی دوڑ کے لئے تیار
کیا جاتا ہے اور پیچھے رہ جانے والے سے ساری زندگی بوجھ اٹھنے کا کام لیا
جاتا ہے . تو ظاہر ہے جہاں میعار یہ ہو تو وہاں اعلی ڈگری یافتہ ہو کر بھی
اخلاقی تربیت سے محروم رہ جانا کوئی جرم نہیں۔ .
موجودہ دور میں، جہاں ہماری نئی نسل جدید سائنسی تعلیم اور ٹکنالوجی کے
زِیراَثر نشونما پا رہی ہے وہاں ان کے اخلاق و کردار میں بےشمار کمزوریاں
واضع ہو رہی ہیں.اور ان کمزوریوں کا خاتمہ اخلاقی تربیت کے بغیر ممکن نہیں.
اخلاقی تربیت میں والدین خاص طور پہ ماں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے.کیونکہ
ابتدائی طور پر بچے کی پرورش اور تربیت کی زمےداری ماں پہ عائد ہوتی ہے اور
زندگی کے اس حصے میں کی گئی تربیت بچے کی آنے والی پوری زندگی پر مثبت
اثرات ڈالتی ہے.تو بہتر ہے کہ بچپن سے ہی ماں ،بچے کی اخلاقی تربیت کرے
جسکا آسان حل قرآن و سنت کی تعلیم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اورتعلیمی
ادارے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی دیں تاکہ اخلاقی پستی
کی طرف جاتے ہوۓ معاشرے کو راہ راست پر لا کر خود کودنیا کے سامنے ایک منظم
اور مہزب قوم ثابت کیا جا سکے۔
عام طور پر جدید ٹکنالوجی مثلاً کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن کو اخلاقی
بگاڑ کی وجہ کہا جاتا ہے اور یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ مگر دیکھا جاۓ تو
جہاں یہ سب میسر نہیں تو کیا وہاں جنسی جرائم اور اس جیسے دوسرے جرائم
موجود نہیں؟ تو جواب نہ میں ہی ہو گا کیونکہ بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں۔
ٹکنالوجی سے دور بھگنا یا اسے اپنی زندگیوں سے نکال دینا اسکا حل نہیں۔
بلکہ اس کا حل ٹکنالوجی کا مثبت استمعال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہر
طرح کے حالات میں سچ بولنے کی ترغیب دی جاۓ اور اسے سکھایا جاۓ کے سچ نجات
دیتا ہے جس کی مثال حضورغُوثِ اَعظم عبدالقادر جیلانی نے قائم کی اور ماں
کی نصحیت کے مطابق سچ بولا اور راہزنوں نے ان سے متاثر ہو کر راہ حق اختیار
کر لی۔ اخلاقی تربیت ہی وہ واحد طریقہ ہے جِسے مشعلِ راہ بنا کر ہم ان
تاریک راستوں سے نکل کر نئی نسل کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔
.
|