روایت میں وارد ہو ا ہے کہ جناب عیسیٰ ابن مریم علیہما
السلام نے بارہ حواریین کے درمیان سے جناب یحییٰ بن زکریا کولوگو ں کی طرف
تبلیغ کے لئے بھیجا اور بھانجی شادی کرنے سے منع فرمایا۔ اس زمانہ کا
بادشاہ اپنی بھانجی سے محبت کرتاتھا اور اس سے شادی رچا نا چاہ رہاتھا ۔جب
اس لڑکی کی والدہ کواس بات کا علم ہو اکہ جناب یحییٰ نے اس قسم کی شادی سے
منع فرمایا ہے تو وہ اپنی بیٹی کو زیب و زینت سے آراستہ کر کے بادشاہ کے
پاس لائی ۔
اس نے جب اس کو دیکھا تو پوچھا:آپ کی خواہش کیا ہے ؟
اس نے کہا:میں یحییٰ بن زکریا ؑ کو قتل کرنا چاہتی ہوں ۔
اس نے کہا : کسی اور شے کا مطالبہ کرو ؟
اس نے کہا:میں یہی چاہتی ہوں اور بس!جب اس نے انکار کردیا تو بادشاہ نے ایک
طشت منگایا اورجناب یحییٰ کوبلا بھیجا ۔اس نے آپ کو قتل کرڈالا۔اس وقت آپ
کے خون کا ایک قطرہ زمین پر گر گیا او ر اس کا داغ باقی رہا یہاں تک کہ اﷲ
نے اس سرزمین پر بخت نصر کو مبعوث فرمایا ۔بنی اسرائیل کا ایک بوڑھا شخص ان
کے پاس آیا اور اس خون کے سلسلے میں ان کو خبردی ۔بخت نصر نے ارادہ کرلیا
کہ میں بنی اسرائیل کا قتل کرتا رہوں گا یہاں تک کہ خون کا داغ مٹ جائے ۔اس
نے اس خون کے انتقام میں ایک سال کے اندر ستر ہزار لوگوں کا قتل کیا یہاں
تک کہ اس خون کا داغ ختم ہو گیا ۔(بحارالانوار ج ۱۴ص ۱۸۲ح۲۴)
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا :سابقون چارحضرا ت ہیں(سورہ واقعہ؍ ۱۰) ۔
(۱)جناب آدم کے مقتولہ فرزند
(۲)امت حضرت موسیٰ ؑ میں مومن آل فرعون
(۳)حضرت عیسیٰ ؑ کی امت میں حبیب نجار
(۴)حضرت محمد مصطفیٰؐ کی امت میں حضرت علی ؑ (بحارالانوار ج۶۶ص ۱۵۶)
باب جرس
حارث اعوار سے روایت ہے کہ ہم حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے ساتھ حیرہ کا سفر
کر رہاتھے ۔ہم ایک راہب کے پاس پہونچے جو گھنٹی بجا رہا تھا ۔
حضرت نے فرمایا :اے حارث ! کیا تم جانتے ہو کہ یہ گھنٹی کیا کہ رہی ہے ؟
میں نے عر ض کیا : اﷲ و رسول اور رسول کے ابن عم بہتر جانتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا :یہ دنیا کی مثال اور اس کی تباہی کو بتا رہی ہے اور کہہ رہی
ہے کہ اﷲ کے سو ا کوئی معبود نہیں یہ بات حق ہے اوریہی بات سچ ہے ۔بیشک !
اس دنیا نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ،ہمیں مشغول کیا ہے اورہمیں رغبت دلائی ہے ۔
اے فرزنددنیا !ٹھہرو!ٹھہرو!اے فرزند دنیا ! اکٹھے ہوجاؤ !اکٹھے ہوجاؤ!دنیا
لمحہ بہ لمحہ فنا ہو رہی ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کوئی رکن نہ گرتا
ہو ۔ہم نے دارابدی کو ضائع کردیا ہے ۔ہم فنا ہونے کے لئے گھر تعمیر کرتے
ہیں ۔ہمیں اس با ت کا علم نہیں کہ ہم نے اس دنیا میں کتنی خطائیں کی ہیں
یہاں تک کہ موت آجاتی ہے ۔
حارث نے عرض کیا :اے مولا! کیا عیسائی اس بات کوجانتے ہیں؟
آپ نے فرمایا:اگر وہ اس بات کو جانتے تو خدا وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر جناب
عیسیٰ کوخدا نہ مانتا ۔
حارث نے کہا: میں راہب کے پاس گیااو ر کہا:تمہیں حضرت عیسیٰ ؑ کی قسم !تم
ایسے ہی گرجا گھر کی گھنٹی بجاؤ جیسے تم بجایا کرتے ہو ۔اس نے بجانا شروع
کیا ۔میں نے میں لفظ بہ لفظ وہی جملے ’’یہاں تک کہ ہمیں موت آجاتی ہے ‘‘ تک
تکرارکئے۔
اس نے کہا: تمہیں تمہارے نبی کی قسم !تمہیں یہ بات کس نے بتائی ہے ؟
میں نے کہا :وہی شخص جو کل میرے ساتھ تھے۔
اس نے کہا:کیا وہ نبی کے قرابت داروں میں سے ہے؟
میں نے کہا:وہ ان کے ابن عم ہیں ۔
اس نے کہا:تمہیں تمہارے نبی کی قسم! کیا اس نے اس بات کوتمہارے نبی سے
سناتھا؟
میں نے کہا:ہاں !۔
پھر وہ مسلمان ہو گیااور مجھ سے کہا : قسم بخدا ! میں نے توریت میں پڑھا
تھا کہ آخری زمانہ میں ایک نبی آئے گا جو اس گھنٹی کی آواز کی تفسیرکرے گا
۔(بحارالانوار ج ۱۴ص ۳۳۴ح۱)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم) |