چترال کے سرحدی علاقوں میں اب بھی اور شہری علاقوں میں
دہائیوں پہلے صاحب جائیداد لوگ بیلوں کی جوڑی پالا کرتے تھے۔ چونکہ مشینوں
کے ذریعے کاشت کاری کے لئے چترال کے اکثریتی علاقے اب بھی ناموزوں اور
ناہموار ہیں سڑکوں کی عدم موجودگی مشینوں کی عدم دستیابی کی اصل وجہ ہے۔ اس
لئے زیادہ تر علاقوں میں اب بھی بیلوں کی جوڑی پالنا از بس ضروری ہے۔ بیلوں
کی جوڑی نہ صرف جس گھر میں پالے جاتے ہیں ان کی زمینوں پر ہل چلانے کے کام
آتے ہیں بلکہ گاؤں میں کم آمدن اور کم زمین رکھنے والے افراد بھی اپنے
زمینوں پر کاشت کاری کے لئے صاحب ثروت افراد کے پالے ہوئے بیلوں سے استفادہ
کرتے ہیں۔
یہاں اصل بات جو بات بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ یہی ہے کہ انسان کو اﷲ
تعالی ایسے صفات سے نواز کر دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ جانوروں کو اپنی مرضی
اور ضرورت کے مطابق سدھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ایسے ہی انفرادی طور پر
پالے ہوئے بیلوں کی بھی تربیت کی جاتی ہے۔ گھر میں پالے ہوئے بیلوں کو پتہ
ہوتا ہے کہ ان کی خاطر مدارت پورے سال اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ سال کے آغاز
میں اپنا فریضہ صحیح طریقے سے انجام دیں۔ ہل چلانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔
مالک کی حکم عدولی نہ کریں۔ جس کام کے لئے مالک نے پالا ہے اس کی انجام دہی
میں کوتاہی کا مطلب شدید ترین سزا کے طور پر ملنے کا بیل کو یقین محکم ہوتا
ہے۔ ان سزاؤں میں بازار میں فروخت سے لے کر ذبح کرکے (سزائے موت) گوشت کی
صورت میں مہمانوں تک کو پیش کرناشامل ہیں۔ بیلوں کے لئے سزا و جزا کا قانون
جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے نرم گرم مگر بہرصورت موجود رہا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ بہترین اور مروجہ قانون کی موجودگی بیلوں کو روگردانی سے ہمیشہ روکتی ہے۔
اور وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں۔
مگر جس طرح ’’انسانوں کی بستی‘‘ میں کچھ لوگ قوانین سے روگردانی کے مرتکب
ہوتے ہیں طاقت کے نشے میں وہ معاشرے کے بنائے ہوئے قوانین کو خاطر میں لانے
کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں انسانی معاشرہ
مروجہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والی بین الاقوامی قانون کے تحت افراد
کو پرکھتا اور سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ مگر جانور چونکہ ’’جس کی لاٹھی اس
کا انسان‘‘ جیسا کوئی قانون بنانے سے قاصر ہیں اس لئے مکمل طور پر انسان کے
محتاج ہیں پھر بھی درندہ نما انسانوں کی مانند ان لے پالک بیلوں میں بھی
’’انسان نما بیل‘‘ پیدا ہوہی جاتے ہیں جو مالک کی طرف سے بنائے گئے قوانین
کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بھی حملہ کرنے
سے نہیں چوکتے۔ طاقت کے نشے میں چور بیل اپنے مالک پر بھیحملہ آور ہوسکتا
ہے یہی وجہ ہے کہ اکثرمالک نقصان اٹھانے سے پہلے یا حملے سے پہلے ہی بیل کی
خصلت سے اندازہ لگا لیتا ہے کہ وہ آگے جا کر ہل چلانے میں مہارت حاصل
کرسکتا ہے یا پھر مالک کا ہی کام تمام کرسکتا ہے۔ کسی بھی نقصان کے اندیشے
کے پیش نظر ایسے سرکش بیل کو بدترین سزا دی جاتی ہے۔جس میں بیل کا ذبح یا
فروخت ہونا لازمی ہے۔ مگر اتنے سخت سزا کی اکثر ضرورت نہیں رہتی۔ کچھ نرم
سزاؤں کے بعد ہی بیل سمجھ جاتا ہے کہ ان کو ہل چلاتے ہوئے پوری توجہ زمین
ہموار کرنے پر دینیچاہئے۔ ناکہ مالک کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ
ہل کیسے چلانی چاہئے یا بچوں کی پرورش کیسے کرنی چاہئے۔ یا بچے اغوا
ہوجائیں تو ان کی بازیابی کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ کس کو پیسے دینے چاہئے
اور کس کی خالی تعریف کرنے سے بچے کی لاش واپس مل سکتی ہے۔نہ ہی آج تک کسی
بیل نے یہ جرات کی ہے کہ مالک کے ہاتھ سے چابک اچک لے اور ہل پر بھی خود ہی
کنٹرول کرے۔
حیرت کی بات یہی ہے کہ آپ بیل کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہل چلا کر کھیت
ہموار کرنے کے بعد بیٹھ کر آپ کو مشورہ یا حکم دے کہ آپ کو آئندہ کیا کرنا
اور کیسے رہنا چاہئے۔ کتنا بولنا چاہئے، بیلوں کے خوراک کا کیسا بندوبست
کرنا چاہئے۔ وہ کم از کم مالک کی حیثیت کو چیلنج کرنے کا تصور تک نہیں
کرسکتے۔ کہاں یہ کہ اپنی کارکردگی پر خود ہی تالی بجائیں۔ پھر اپنے
حکمرانوں کو کیسے اجاز ت دیتے ہیں کہ وہ آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے شاہانہ
زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کریں۔ زینب کے
قاتلوں کی گرفتاری کے بعد وہ کس پر احسان جتانے کے لئے پریس کانفرنس کررہے
تھے۔ ملک میں کوئی بھی بندہ زندہ نہیں رہا؟ جو یہ پوچھے کہ اپنی ذمہ داریوں
کا اشتہار کیوں ہر دیوار پر چسپان کررہے ہو۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب
’’بیل‘‘ بن گئے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ جن کی ذمہ داری ہمارے بچوں کی
حفاظت کرنا ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہم ان کو اجرت دیتے ہیں
وہ اپنی اجرت حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داری ادا کرکے ہم پر احسان جتا
رہے ہیں۔ ہماری بے بسی پر ان کے قہقہے بھی ہماری ضمیر کو جھنجوڑ نہیں پارہے
ہیں۔میڈیا کے سامنے موجود ہوتے ہوئے ہمارے منہ پر زبردستی کا رکھا ہوا ان
کا ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ ہم ان کے لے پالک بیل ہیں اور وہ
ہمارے مالک۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مالک کبھی فروخت یا ذبح
کرنے سے پہلے بیل سے مشورہ نہیں کرتا تو اس کے بچوں کو ذبح کرنے سے پہلے
تھوڑی پوچھے گا ۔ زینب کو بھی ذبح ہی تو کیا گیا ہے۔اگر ان کو ذبح کرنے سے
پہلے ان کے بوڑھے والد سے نہیں پوچھا گیا تو اس میں غصہ کس بات کا۔ آپ بھی
تو ایک بیل ہو۔ تالی بجاؤ اور ذبح ہونے کے لئے بچے تیار کرو۔ |