پورن گرافی ابتدا سے انتہا تک

 آج کے دور کا گندہ دھندہ پورن گرافی ہے جو معاشرے کیلیے بہت بڑا ناسور ہے یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی تریاق دریافت نہ ہو سکا۔لوگوں کے رویے اور انداز زندگی اسی کی بدولت جنسی خود غرضی کی بھینٹ چڑھے ہم اکثر سوچتے ہیں آخر یہ کھیل شروع کب ہوا.؟اسکا تاریخی پس منظر کیا ہے.؟اس کے وجود کے بنیادی محرکات کیا تھے..؟اور آج کی تاریخ میں اس میں کیسی جدتیں لائی جارہی ہیں.؟تاریخ میں سب سے پہلے پورن گرافی بطور ہتھیار سلطان صلاح الدین ایوبی (1137. 1193) کے دور حکومت میں ہوئی۔ اسے بطور ہتھیار سب سے پہلے صلیبی بادشاہوں نے استعمال کیایہ ایک لمبی کہانی ہے بس آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ فسٹ جنریشن سے پہلے کی بات ہے جب موبائل ،ٹیلی ویژن،ریڈیو ،گاڑی اور زارئع مواصلات کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور اس وقت ہم ترقی کرتے کرتے 6th (سکستھ)جنریشن میں داخل ہوچکے ہیں دوسرے لفظوں میں آپ اسے ترقی کی انتہا بھی کہہ سکتے ہیں اب ہولو گرافی گرام ٹیکنالوجی کا دور شروع ہونے جارہا ہے ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع پورن گرافی کی طرف دنیا میں سب سے پہلے آرٹ پورن گرافی کا آغاز بھی صلاح الدین ایوبی کی فوج کے شیر جوانوں کو خراب کرنے کے لیے صلیبی بادشاہ رونالڈ نے اپنے ایک انٹیلی جنس آفیسر ہرمن کے مشورہ پر شروع کیا انہوں نے دنیا کے مشہور مصور اور منظر نگار وں کو منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا۔ ان سے ایسی فحش تصویر کشی کروائی گئی کہ دیکھ کر نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا تھا۔ وہ سیکس جس پر لوگ ایک حد تک توجہ دیتے تھے پھر اسے بے حد سوچنے لگے۔ صلیبی بادشاہوں نے جب اپنے اس منصوبے کو سو فیصد کامیاب ہوتے دیکھا تو اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ بڑی شان سے کیاصلیبی اپنا دم خم کھو چکے تھے لیکن انکا تیار کردہ زہر پورن گرافی مسلسل فحاشی کے جراثیم پھیلاتا رہا۔ یوں صدیاں بیت گئیں۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ بدل گئے اور کئی ثقافتیں آئیں اور مٹ گئیں.! آخر اٹھارویں صدی کا سورج طلوع ہوا۔ یہ وہ صدی ہے جب سائنس کے علم میں انقلاب کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی تھی۔ نئی جدتیں اور نئی منزلیں روشن ہو رہیں تھیں۔ اٹھارویں صدی کے شروع میں پورن گرافی پر ایک بار پھر نئے انداز میں کام شروع ہوا۔ اس بار پورن گرافی کیلئے لکڑی کا استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ درختوں کو بھی کانٹ چھانٹ کر جنسی عضو کی طرح بنا دیا گیا فرانس میں ہوئے اس تماشے پر لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ لوگ بے پناہ دلچسپی سے لکڑی کے بنے جنسی سامان اور درختوں پر ہوئی زیادتی دیکھنے جوک در جوک آرہے تھے۔اس وڈ پورن گرافی پر لوگوں میں جنسی آزاد خیالی پیدا ہوئی۔ لہذا لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے امریکہ، فرانس اور لندن میں وڈ پورن گرافی کے چھوٹے چھوٹے پورن ہاوس کھل گئے، جو ایک چھوٹا سا جنگل ہوتا تھا۔ جس میں پورن گرافی کے فن پارے درختوں پر عیاں ہوتے تھے.....!1839 میں کیمرہ ایجاد ہوا...اس ایجاد نے جہاں سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا جادو کیا، وہیں یہ بہت جلد پورن گرافی کا اہم ہتھیار بن گیا... 1855 میں پہلی باراسے پورن گرافی کیلئے استعمال کیا گیا۔ لیکن اس پورن گرافی میں مسئلہ یہ تھا کہ کیمرہ تصویر کی صرف ایک کاپی بناتا تھا۔ اس تصویر کو بہت زیادہ شیئر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی لیے پورن گرافی کا جن مشکل کا شکار ہوگیا...لیکن یہ مسئلہ اس وقت مسئلہ نہ رہا جب 1863 میں پرنٹر ایجاد ہوا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی سیکس تصاویر سے بھرپُور پلے کارڈز اور جنسی خاکے لوگوں کے ہاتھ میں آچکے تھے1871 میں جنسی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ رزلٹ میں پوری شدت کے ساتھ مارکیٹ آچکی تھیں۔ ان مارکیٹوں میں فرانس کی مارکیٹ سب سے آگے رہی...! 1876 ویڈیو کیمرہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی۔ اس ٹیکنالوجی میں ویڈیو کیمرہ ایک منٹ میں ساٹھ تصاویر کو کیپچر کرتا تھا۔ پھر ان تصاویر کو چرخا نما مشین پر ایک بڑے رول بنڈل کی صورت چڑھایا جاتا۔ پھر اس چرخے کو ہاتھ سے چلایا جاتا۔ اس سے تصویر اس تیزی سے گھومتی تھی اور ایسے لگتاہے جیسے ویڈیو پلے ہو رہی ہو۔ اسی طریقہ عمل کو آگے چل کر ٹی وی ٹیکنالوجی میں استعمال کیا گیا۔ آج جو ہم حرکت کرتی اور زندہ محسوس ہوتی HD ویڈیوز دیکھتے ہیں دراصل یہ ہزاروں تصاویر کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ جو اس تیزی اور صفائی سے پلے ہوتی ہیں کہ ہمیں تصویر حرکت کرتی نظر آتی ہے...! ویڈیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آتے ہی یورپی ممالک میں فلم ساز انڈسٹری کا ابتدائی ڈھانچہ بننا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ پورن انڈسٹری کا آغاز ہوا..! پہلی پورن فلم 1895 میں ریلیز ہوئی۔اسے لومئیر برادرز انڈسٹری نے پہلی بار عوامی نمائش کیلئے فرانس میں پیش کیا۔اسکے ڈاریکٹر مسٹر البرٹ کرچنر تھے۔ پہلی پورن فلم سولہ منٹ کی تھی جس میں ایک عورت کو برہنہ انداز میں ہوش ربا ادائیں دکھاتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہ فلم نہایت منافع بخش ریکارڈ کے ساتھ مقبول ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی سیکس کی خواہش ضرورت سے بڑھ کر جنون میں بدل گئی۔یورپ کے گلی کوچوں میں لوگ بے ہودہ مذاق اور چھیڑ خوانی کرنے لگے۔ پھر یہی چیز آگے چل کر یورپی ثقافت کا حصہ بن گئی..! انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی۔ منظر پہلے سے زیادہ صاف اور معیاری ریکارڈ ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری سطح پر پورن تھیٹر کھول دیئے۔ جہاں پورن اداکاروں کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا..! 1920 تک یورپی تہذیب پورن گرافی کے اس زہر میں ڈوب چکی تھی۔ عوام سر عام سڑکوں کو بیڈ روم بنائے اپنا شوق پورا کرنے لگی۔ ساحل سمندر عیاشی کے اڈے بن گئے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں سے بھاگنے لگے..! 1970 میں پورن گرافی کا زہر برصغیر میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے پہل یہ صرف تصاویر پر مشتمل تھا۔ اسے ویڈیو دکھانے کیلئے یورپی کمپنیز نے پاکستان و بھارت میں پورن سینما کی اجازت چاہی۔ اس کے جواب میں صرف انکار ہی نہیں کیا گیا بلکہ پورن گرافی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا گیا..! دوسری طرف یورپی ممالک میں سیکس ویڈیوز کی ڈیمانڈ کم ہونا شروع ہوئی، کیونکہ ایک ہی سین ہر فلم میں دیکھ کر عوام بور ہونے لگی۔ دوسرا بذات خود انکا معاشرہ اتنا آزاد ہوچکا تھا کہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت روز بروز کم ہونے لگی۔اسی صورتحال سے پریشان ہوکر پورن انڈسٹری نے پورن گرافی کی نئے انداز پر کام کرنے کے بارے میں سوچا۔ یوں پورن کیٹیگری پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ اس پورن کیٹیگری پراجیکٹ میں سیکس کو کئی اقسام میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر قسم کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا تھا.! جب کیٹیگری پراجیکٹ یورپی عوام کے سامنے لایا گیا تو دیکھنے والوں کا ازدھام مچ گیا۔ کیونکہ اس دفعہ فحاشی کے مناظر روایتی طریقوں سے ہٹ کر ریکارڈ کیے گئے تھے، یہ پراجیکٹ پورن انڈسٹری کیلئے آب حیات کی صورت اختیار کر گیا۔ یوں ہر شخص کی جنسی خواہش کے مطابق اسے پورن گرافی کا نشہ ملنے لگا..! 1980 میں وی سی آر ٹیکنالوجی برصغیر میں عام ہوئی۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں کمپیوٹر بھی پاکستان میں اکا دکا جلوہ گر ہوچکے تھے۔ لیکن عام لوگ اس سے نا آشنا تھے۔ لہذا لوگ پردہ سکرین سے ہٹ کر وی سی آر کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسی دوران پاکستان فلم انڈسٹری بھی پوری شان سے ابھر کر سامنے آئی۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھوں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہوکر بکنے لگیں 1998 میں یورپی پورن انڈسٹری نامعلوم ہاتھوں میں چلی گئی۔پہلے یہ صرف جنسی کاروبار کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ لیکن پھر اسے پوری دنیا کو جنسی دہشت گردی کیلئے چنا گیا۔ پورن انڈسٹری میں ایک ایسا جنسی طریقہ متعارف کروایا گیا۔ جو براہ راست کینسر، گلوریا اور دیگر تباہ کن بیماریوں کا موجب ہے اوراس طریقہ کار کو اورل سیکس کا نام دیا گیاجو منہ کے کینسر اور بلڈ پرابلمز کو جنم دیتا ہے اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج یہودی لیبارٹریوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ ان بیماریوں کی تمام دوائیاں اسرائیلی کمپنیز سے نہایت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ ان بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کے چہرے بدل جاتے ہیں اور موت سسک سسک کر آتی ہے۔ ہمارے علماء کرام کا خیال ہے کہ پورن ویڈیوز صرف مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔ حقیقتا ایسا نہیں ہے۔ یہودی ایجنسیز کا ٹارگٹ پوری دنیا کے مذاہب ہیں۔ کیونکہ تمام مذاہب ان کے انتہا پسند نظریات کو ہر صورت رد کرتے ہیں..! یہودی نہایت مہارت سے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ جنھیں ون ورلڈ آرڈر کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی دنیا جہاں کسی خدا کا تصور نہ ہو، جہاں کوئی تہذیب نہ ہو، جہاں کوئی قانون نہ ہو۔ بس ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے یہودی غلامی، اس مشن کی تفصیلات بہت چشم کشا اور دل آویز ہیں.! بس اتنا کہوں گا کہ پوری دنیا پر یہودی راج کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے جو آج کی تاریخ میں ممکن ہے۔ لوگوں کو ہر طرف سے جنسی، نفسیاتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی غرض ہر طرف سے پھنسایا جا رہا ہے بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا۔ ایشیا میں ابھی دھندلے معیار کی ویڈیو ٹیکنالوجی کا دور ختم نہیں ہوا تھا۔ جبکہ یورپی ممالک میں HD ٹیکنالوجی منظر عام پر آچکی تھی۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری بے مثال فلمیں پروڈیوس کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی سے بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ جبکہ پاکستان میں پہلی بار انٹرنیٹ سروس 1992 میں آئی۔ اسے ایک یورپی کمپنی برین نیٹ نے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر لانچ کیا تھا۔ اس کے پہلے انجینئر منیر احمد خان تھے۔ جنھوں نے پاکستان میں انٹرنیٹ سرور کو کنٹرول کیا۔ اسکی ابتدائی سپیڈ 128k تھی..! 1995 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ یعنی پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ آل پاکستان کیلئے خرید لیا، سن 2000 میں انٹرنیٹ پاکستانی عوام میں مقبول ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پورن گرافی کا زہر بھی سرحدیں پھلانگتا ہو ا داخل ہوا۔یورپی ممالک میں پہلے پہل پورن گرافی سینما میں دکھا کر یا جنسی تصویروں کے ذریعے پیسہ کمایا جاتا تھا۔ لیکن انٹر نیٹ نے یہ جھنجھٹ ختم کردیا۔ انٹر نیٹ نے باقاعدہ خود آن لائن مارکیٹنگ پروسیس کھول کر پورن گرافی کو بطور پراڈکٹ پیش کیا۔ جسے عوامی طور پر اتنی پزیرائی ملی کہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یورپی پورن انڈسٹریز کو سب سے زیادہ آن لائن ٹریفک ایشیا سے ملی..! 2015 کی گوگل رپورٹ کے مطابق روزانہ نوے لاکھ پاکستانی پورن ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت سے روزانہ چھ کروڑ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں، جس سے پورن انڈسٹری روزانہ کروڑوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح مطلوبہ سائٹس تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ جبکہ گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد پاک و بھارت میں کروڑوں میں ہے..! لہذا دو صدیوں سے پورن گرافی دیکھنے والی عوام اکتا گئی۔ کیونکہ ہر پورن فلم ایک ہی طریقہ کار کے مطابق بنائی ہوئی ہوتی تھی نفسیات کے اس دھارے نے پورن انڈسٹری مالکان کو ایک بار پھر سوچ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ یوں 2014 میں ایک منفرد ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ اس ٹیکنالوجی کو سلیکون سیکس گرل کہتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں سلیکون دھات سے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کا وجود تراشا جاتا ہے۔ پھر اسے اس قدر حقیقی بنایا جاتا ہے کہ اصل وجود اور اس مجسمے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ایسے لگتا ہے جیسے یہ ابھی بول پڑے گی۔ اس کا جسم اتنا نرم و نازک بنایا جاتا ہے کہ زندہ وجود کی نزاکت کو رد کرتا ہے۔ ان کی خوبصورتی، جسم کی نرمی اور بناوٹ کا انداز ایسا ہے کہ بس جان ڈالنے کمی رہ گئی ہے۔ انھیں دیکھ کر آنکھیں بار، بار دھوکہ کھاتی ہیں۔ ان سلیکون گرلز کو جنسی خواہش کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یاد رکھیے....! ان سلیکون جنسی مجسموں میں کچھ ایسے راز بھی چپکے ہیں جو آپکو دائمی جنسی مریض بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ تمام سیکس میڈیسن بھی انھیں مجسموں کے خالق بنا رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ لوگ بیماری لگانے کے بھی پیسے لیتے ہیں۔علاج کے نام پر مستقل گاہک بنا کربھی لوٹتے ہیں..! 2015 میں سلیکون مجسموں کو یورپی مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ جیسے ہی یہ مجسمے مارکیٹ میں آئے تو خریداروں کے ہجوم لگ گئے۔ انھیں مجسموں کی بدولت مرد و عورت کا آپسی جنسی تعلق بھی کمزور ہوگیا۔ جس سے شرح پیدائش میں واضح کمی واقع ہوئی۔ اسی کے ساتھ ورچول رئیلٹی ڈیوائس نے رہی سہی کسر پوری کردی..! یورپی ممالک میں شرح پیدائش تو اٹھارویں صدی سے ہی کمزور پڑ گئی تھی۔ لیکن 2010 کے بعد یہ کمی شدید تر ہوگئی۔ البتہ مسلم کمیونٹی برابر شرح پیدائش پر برقرار رہی۔ اسی صورتحال سے گھبرا کر بعض ممالک میں چلڈرن ہاؤس قائم کردئیے گئے ہیں۔ جہاں عورت و مرد کو بھاری رقم دے کر بچہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بچے کی تمام افزائش چلڈرن ہاؤس کے ذمہ ہوتی ہے۔ ہالینڈ میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کو دس ہزار ڈالر دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ عورتوں نے انکار کیا تو رقم انکی مرضی پر متعین کی گئی۔ہمارے علماء حضرات چاہے جو بھی خیال رکھتے ہوں، لیکن یہ سچ ہے پورن گرافی کا زیادہ نقصان خود انھیں کا ہوا جن کی ایجاد تھی..! آج اگرچہ مسلمان بھی اسکا شکار ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے مذہب،ثقافت اور نسل کو لیے برابر چل رہے ہیں۔ جبکہ مغربی معاشرہ اس قدر ٹوٹ چکا ہے کہ آرٹیفشل بچے پیدا کرنے پر غور کیا جا رہا ہے..! 2013 میں امریکی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ 2050 تک اسلام کی افرادی پاور پورے یورپ پر حاوی ہو جائے گی۔ لہذا اسلام کو ہر طرف سے گھیر کر محدود کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں میں اسلام کیلئے نفرت پیدا کر کے انھیں اپنے آزاد معاشرے کا حصہ بنا یا جائے..! یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں اسلامی شدت پسندی دکھائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ملحد اسلام کو نوچ رہے ہیں۔ سیاست میں بڑے بڑے لبرل داخل کیے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں مسلمانوں کا قتل عام کروایا جارہا ہے۔ کیونکہ دشمن جان چکا ہے کہ اسکا ہتھیار خود اسکی قوم کو ختم کرچکا ہے لیکن جاتے جاتے مسلمان پر آخری وار ضرور کرتے جاؤ..!

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611713 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.