جا پان کو چڑھتے سورج کی سرزمین کہا جا تاہے لیکن اگر اس
کو غیر ملکی افرادی قوت کاچڑھتاسورج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا.کیونکہ
گزشتہ آٹھ سالوں میں بڑی خاموشی سے یہاں غیرملکی افرادی قوت کی شرح میں
دگنا اضافہ ہوا ہے۔
دوسرے ممالک کیطرح غیرملکی ہنر مند افرادی قوت کی تعداد بڑھانے کیلئے جاپان
نے نئی ویزہ پالیسی متعارف کروائی ہے. کنیڈا ، آسٹرلیا اور نیوزی لینڈ کے
پوائنٹ بیس سسٹم کی پالیسی کے برعکس جاپان نے دونئی ویزا کٹیگری شروع کی
ہیں۔ جس کو ''گیسٹ ورکر'' اور '' ٹرینی'' کانام دیا گیا ہے۔
حال ہی میں جاپان کے وزیر اعظم (شنزو ایب )Shinzo Abe نے اپنے خیالات کا
اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اسوقت تعمیرات کے شعبے میں ایک بڑی تعداد
میں ورکرز درکار ہیں جو کہ ٹوکیو 2020اولمپک کے سلسلے میں ہو نے والی
تعمیرات اور ساتھ ہی 2011میں آنے والے سونامی کی تباہی کے بعد ہونیوالی
تعمیرات میں اپنا کردار اداکرسکیں۔ اسی سلسلے میں جاپانی حکو مت نے اپنے
''انڈسٹریل ٹرینگ پروگرام'' کا دورانیہ جو کہ غیرملکی ورکرز کے لئے شروع
کیا تھا اُسے تین سال سے بڑھا کر پانچ سال تک کردیاہے۔
جاپانی ''انسانی وسائل ''ادارے کے مطابق مستقبل میں جاپان کو ایک بڑی
تعدادمیں ملازمت کے مواقع فراہم کرنا پڑیں گے جن میں شپ بلڈر ، ہوٹل اور
ریسٹورنٹ اسٹاف، صحت، تعمیراتی ورکر ، فیکٹری ورکر ، انگریزی ٹیچر، ہاوس
کیپنگ وغیرہ شامل ہیں مگر ان تمام افراد کوجاپانی زبان اور اِن کی ثقافت کے
بارے میں معلومات ہونا ضروری ہیں جاپان میں غیرملکی کارکنوں کی تعداد پہلی
بار 1ملین تک جا پہنچی ہے جو گز شتہ سال کے مقابلے میں 20فیصد زیادہ ہے۔
اسوقت جاپان میں بڑی تعدادمیں چینی، ویتنامی اور فلپائنی ورکر کام کررہے
ہیں جن میں ایک بڑی تعدادچینی ورکر زکی ہے جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں
7%کا اضافہ ہوا ہے ، جو اسوقت تقریباََکُل غیر ملکی افرادی قوت کا30%ہیں ۔
جب کہ ویتنامی 16%کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اسی کے ساتھ ساتھ فلپائن بھی
بڑی تیزی سے اپنی افرادی قوت اُوورسیز پروموٹرز کے ذریعے بھیج رہاہے ۔
حکومت پاکستان کو بھی چاہیئے کہ وہ پاکستانی ایمبیسی کو بھی اس سلسلے میں
اہم کردار اداکرنے کوکہے تا کہ ہم اپنی افرادی قوت بہتر طریقے سے اور زیادہ
تعداد میں جاپان بھیج سکیں ۔جاپانی حکومت کے مطابق2040 ء تک جاپان کی
آبادی 127ملین سے کم ہو کر 19ملین تک ہو جائے گی اسی لیے اسوقت جاپان کے
لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ اس خلاء کو پُر کرنے کیلئے غیر ملکی افرادی قوت
کی شرح کو بڑھانے کیلئے ضرور ی اقدامات کرے ۔کیونکہ جاپان 1991ء سے بدترین
افرادی قوت کی کمی شکار ہے جسکی وجہ سے IMFنے بھی جاپان کو مشورہ دیا ہے کہ
وہ اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے غیر ملکی افرادی قوت کی تعداد میں اضافہ
کرے۔
اگر ہم جاپانی معیشت میں غیر ملکی افرادی قوت کی مانگ کے محرّ کات کا جائزہ
لیں تو اس میں سب سے اہم عنصر اس میں جا پان کی سُکڑ تی ہوئی آبادی ہے۔
وہاں پر ریٹائرلوگوں کی تعداد کام کرنے والے لوگوں سے زیادہ ہو تی جا رہی
ہے جو کہ معیشت پر ایک بوجھ کی صو رت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے
اُن کی حکومت ٹیکس کی مد میں آنے والی آمدنی کی کمی کاشکار ہے۔
اس کے برعکس اگر ہم پاکستان کی آبادی کا جائزہ لیں تو اس کا تنا سب نو جوان
طبقے پر زیادہ ہے یعنی کہ جس آبادی کی کمی کا جاپان شکار ہے وہ پاکستان کے
پاس وافر ہے۔ یہاں پر ڈیمانڈ اور سپلائی کا قانون مکمل طور پر نافذ ہوتا
ہوا نظر آتا ہے۔مگر ہماری حکومت کی سُست روی کی وجہ سے پاکستانی افرادی قوت
بیرونِ ملک میں اپنا حصّہ کھوتی جارہی ہے اور اس کے برعکس بنگلادیش، انڈیا
اور دوسرے ممالک اپنی کامیاب خارجہ ڈپلومیسی کے ذریعہ بہت تیزی سے بیرونی
ممالک میں اپنا سکہ جما تے جارہے ہیں۔
حکومت کی اس غیر سنجیدہ خاموشی اور کچھ نہ کرنے کے عزم کی وجہ سے پاکستانی
معیشت میں غیر ملکی ترسیل وہ واحد ستون ہے جو کمزور سے کمزور تر ہو تا
جارہا ہے اور اس وقت پا کستا ن کے غیر ملکی ترسیل کی شرح تیزی سے نیچے آرہی
ہے۔
پاکستا ن کی معیشت کے ساتھ جو دوسرا بڑا طبقہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے
بہران کا شکار ہے وہ ہے پروموٹرزبرادری جو ہر سال لاکھوں ہنر مند افراد کو
قانونی طریقے سے بیرونِ ملک روزگار پر بھیجتے ہیں۔یہ پہلے تواپنے آپ کو
صنعت کادرجہ دلانے کے لئے کوشاں تھے اور اب اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے
مجبور ہیں۔کیا کبھی حکو مت ان کی دادرسی کرسکے گی؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر پروموٹرکی زبان پرہے اور اس سلسلے میں جو بھی
قدم یہ پروموٹرز اُٹھا سکتے تھے وہ اُنھوں نے اُٹھایا اور حکومتی اداروں کو
ہر پلیٹ فارم پرجگایا مگر اِس حکو مت نے اب تک کو ئی سنجیدہ قدم نہیں
اُٹھایا جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔
سعودی عرب کی حا لیہ بیرونی افرادی قوت کی حوصلہ شکنی سے متعلق پالیسیوں
اور اعلانات کے باوجود ہماری حکومت کی عدم دلچسپی سمجھ سے سے بالا تر ہے ۔
حکو مت کو چا ہیے کہ وہ وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہو ئے ہنگامی بنیاد پر
اِن تمام ممالک میں جہاں جہاں بیرونی افرادی قوت کی کھپت کا ذرّہ برابر بھی
موقع ہے وہاں پاکستانی ایمبیسی اور FPCCI کے ذریعے پہلے توMOUسا ئن کئیے
جائیں اور اس کے فوراً بعد مرحلہ وار جاب فیئرمنعقد کیئے جا ئیں جس میں اُن
ممالک کے ایمپلائرز اور پاکستانی پرومو ٹر کی میٹنگ کرائی جائے جس میں
دونوں اپنے آپ کو ایک دوسر ے سے متعارف کروائیں اور آپس میں افرادی قوت سے
متعلق معاہدے کریں۔یہ جب ہی ممکن ہے جب حکو مت اور پروموٹرزکے درمیان جو
فاصلے ہیں اِن کو ختم کیا جائے اور پرومو ٹرز کی تجاویز کو سُنا جائے اور
اس پر عمل کیا جائے ۔حکو مت اور پروموٹر کی مشترکہ کو ششوں سے ہم اپنے ملک
کی معیشت بہتر کر سکتے ہیں اور بیرونی منڈی میں اپنی افرادی قوت بڑھا سکتے
ہیں۔ |