’امن ‘ فاؤنڈیشن کا مطالعاتی دورہ : آنکھوں دیکھا ، کانوں سنا حال

خدمتِ انسانی کا عمل معاشرہ میں بہتری لانے اور اُسے مثالی بنانے میں کلیدی کردار اداکرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے ساتھ نیک اوراچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺکی زندگی مخلوق کی خدمات کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے مخلوق پر رحم کرنے اور انسانوں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنے کی ترغیب دی ہے۔ خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا ، تیمار داری کرنا، طبی سہولیات فراہم کرنا، شدید بیماری کی صورت صورت میں مریض کو اسپتال پہنچانا، سردی سے بچاؤکا انتظام کرنا،غریب کو چھت فراہم کرنا، نادار اور غریب بچوں کو تعلیم کے حصول میں معاونت کرنا، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں ، بے سہارا اور بے یار و مددگار لوگوں کی مشکلات کودور کرنا خدمت ہے۔ اسلام میں عبادات اور اعمالِ صالحہ کی تاکید کی گئی ہے جن کا تعلق بندوں سے ہے۔بات درست ہے کہ انسان کو خدمات خلق کے لیے پیدا کیا گیا بقول شاعر ؂
خدمات خلق کے لیے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

پاکستان میں خدمت خلق کے حوالے سے بے شمار فلاحی ادارے میدان عمل میں ہیں۔ ان میں سے ایک ادارہ ’’امن فاؤنڈیشن ‘‘ ہے۔ امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز جو دیگر اداروں کی ایمبولینسز سے مختلف ہیں کو اکثر سڑکوں پر دوڑتے دیکھا کرتے تھے۔ یہ بھی علم میں تھا کہ امن کی ایمبولینسز میں انسانی جان کو بچانے کی تمام تر تدابیریں یعنی طبی سہولتیں ایمبولینس کے اندر موجود ہوتی ہیں ،یہاں تک کہ اس میں ایک ڈاکٹر بھی مریض کی زندگی کو بچانے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اتفاق کہیے کہ آج تک اسے قریب سے دیکھنے یا اس کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ گزشتہ دنوں کالم نگاروں کی تنظیم ’پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘(PFCC)کی جانب سے یہ پیغام ملا کہ امن فاؤنڈیشن کے مرکزی آفس واقع کورنگی جانا ہے۔ کونسل اس سے پہلے بھی اس قسم کے پروگراموں کا اہتمام کرتی رہی ہے۔ بعض میں شرکت کی بعض میں شرکت نہیں کر سکا۔ جیسے کونسل کے’ تھر ‘ کے دورہ میں شرکت ممکن نہیں تھی، حالانکہ وہ ایک اچھا پروگرام تھا ۔ 3فروری 2018ہفتہ کے روز امن فاؤنڈیشن کا مطالعاتی دورہ طے تھا۔ اس مقصد کے لیے ابتدائی طور پر کورنگی میں واقع اسکول آف جرنلزم کورنگی کراسنگ ، بھٹائی کالونی میں صبح گیارہ بجے جمع ہونا تھا۔ پروگرام کے مطابق مقرہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل نکل کھڑے ہوئے۔ احباب جمع تھے ، کچھ ہمارے بعد میں پہنچے ، طے شدہ ایجنڈے کے مطابق یہاں کونسل کی میٹنگ ہونا تھی ، جو ہوئی اور بہت سے مسائل زیر بحث آئے۔ احباب نے کھلے ذہن اور آزادانہ طور پر کونسل کے امور پر گفتگو کی۔ حاصل یہ کہ اراکین نے کونسل کی تنظیم کو زیادہ فعال ہونے کا مشورہ دیا، مزید تفصیل ذمہ داران ہی فراہم کریں گے۔

پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘(PFCC) کا قافلہ اپنی اپنی گاڑیوں میں امن فاؤنڈیشن کی جانب روانہ ہوا۔ کچھ ہی فاصلے پر ریفائنری کے پاس بڑی سی عمارت میں قافلہ داخل ہوا جہاں امن فاؤنڈیشن کے سی ای او جناب ملک احمد جلال اور مینیجر ایکسٹرنل کمیونی کیشنز مقداد سبطین ، علی فراز اور دیگر عملے نے کونسل کے وفدکو گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ۔ کشادہ بلڈنگ ، کھلا ماحول، صاف ستھری بڑی سے عمارت اپنی خدمات کا اعتراف کرتی نظر آئی۔ ہمارے ذہن میں ابھی تک امن ایمبولینسز اور ان کی طبی خدمات ہی تھیں۔ امن فاؤنڈیشن کے عملے کے حسن اخلاق سے متاثر ہوئے ، محسوس ہوا کہ یہاں خدمات پر معمور احباب خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور ہیں۔ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘ (PFCC) کی ٹیم تیس سے چالیس خواتین و حضرات پر مشتمل تھی۔ اس لیے دو گروپس بنا دیے گئے تاکہ امن فاؤنڈیشن کی خدمات کو سمجھ نے میں آسانی ہو ۔ پہلی بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ امن فاؤنڈیشن صرف ایمبولینسز سروس فراہم ہی نہیں کرتی ، یہ خدمت اس کی بنیاد ضرور ہے لیکن اس کے علاوہ ٹیلی ہیلتھ سروس، اربن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ اور ٹیک پروگرام کے ذریعہ 12مختلف شعبہ جات میں فنی تربیت فراہم کی جارہی ہے۔ امن فاؤنڈیشن کے تحت فراہم کی جانے والی سروسز کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔

ایمبولنس اور ای ایم ایس سروس
امن فاؤنڈیشن نے پاکستان کو بہتر بنانے کی سوچ کے ساتھ ہیلتھ اور تعلیم میں خدمات کا آغاز کیا۔ امن فاؤنڈیشن کی خدمات کا آغاز 2007ء ایمبولینس سروس سے ہوا۔ایمبولینسز میں بھی ایسے ایمبولینسز کا انتخاب کیا گیا جو ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہوتی ہیں۔ امن ایمبولینس سے قبل ہمارے ملک میں ایمبولینس کا جوتصور تھا اور اسے ہم اپنے آنکھوں سے دیکھ بھی رہے تھے کہ ایک چھوٹی سی گاڑی جس میں ایک مریض لیٹ سکے ایمبولینس کے لیے استعمال ہورہی تھی اور اب بھی ہوتی ہے ۔ امن فاؤنڈیشن نے ایسی ایمبولینسز متعارف کرائیں جو ایک معیاری اسپتال کے ایمرجنسی شعبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی امن ایمبو لینس میں ایک ڈاکٹر سے لے کر زندگی بچانے والی وہ تمام ضروری ، جدید سامان ، آلات اور ادویات کی موجودگی کو لازمی بنایا ، علاوہ ازیں انہیں مستقل اپ گریڈیشن اور مینٹیننس کیے جانے کو بھی یقینی بنایا۔ جب کہ دیگر ایمبولینس سروس فراہم کرنے والے اداروں کی صورت حال یہ ہے کہ جو ایمبولینس ایک مرتبہ خریدلی گئی بس وہ رفتہ رفتہ دم توڑتی جائے گی ، اس کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جائے گئی، بعض بعض ایمبولینسز بیچ سڑک پر کھڑی نظر بھی آتی ہیں۔ یا پھر انہیں صدقے کے جانوروں اور دیگر ساز و سامان لانے لے جانے ،میت اسپتال سے گھر یا سرد خانے پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ امن ایمبو لینس سروس نے اس بات کو بھی یقینی بنا یا کہ ایمبولینس کسی بھی مریض تک جلد سے جلد پہنچے، اس لیے کہ ایمبولینس اگر مریض کے طلب کرنے پر فوری نا پہنچے تو اس کی اہمیت صفر ہوجاتی ہے۔ امن ایمبو لینس کا مریض تک پہنچنے کا اوسط وقت 12سے18منٹ کے درمیان ہے۔ امن ایمبو لینس کی ایک ایمبولیس کی قیمت 6.8ملین بتائی گئی ہے جس میں گاڑی کی قیمت، جدید و معیاری طبی سازو ساما ن جیسے کارڈک مونیٹر، بی پی مونیٹر ، ہارٹ ریٹ مونیٹر،الیکٹرک شاک آلہ، آکسیجن سیلنڈر اور دیگر اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ جدید اسٹریچر ، ایمبولینس کا ائر کنڈیشن ہونا وغیرہ ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر امن ایمبو لینسز کو جدید اور معیاری ایمبو لینس کہا جاتا ہے۔ جو معلومات مطالعہ کے دوران دی گئیں ان کے مطابق ایک امن ایمبو لینس اوسطاً 4.5سروس مہیا کرتی ہے اور یوں امن ایمبو لینس کا مکمل فلیٹ یومیہ 280یا 300کے قریب سروس فراہم کرتا ہے، امن فاؤنڈیشن کو آن لائن کال ٹرائی ایچ سسٹم (طبی ترجیحی ڈسپیچ سسٹم) موجودہے، کلیدی پوائنٹس اسپتالوں میں موجود ہیں جہاں عموماًزیادہ کال موصول ہوتی ہیں۔اس وقت کراچی میں امن ایمبو لینس سروس مجموعی ہنگامی حالات کے35فیصد کو رسپانڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس وقت امن فلیٹ میں زندگی بچانے والی80 ایمبولینسز موجود ہیں، آگاہی فراہم کرنے والوں کے مطابق اب تک امن ایمبو لینسز 955,589سروسز فراہم کرچکی ہیں۔ یہ بات بھی قابل بیان ہے کہ صرف خواتین کو امن ایمبو لینس سہولت فراہم کرنے کے دوران اب تک 150سے زائد زچگی کے کیسز ہوچکے یعنی امن ایمبو لینسز میں اب تک 150بچے پیدا ہوچکے ہیں۔ گویا یہ ایمبولینسز اپنے طبی ساز وسامان کے اعتبار سے یہ استطاعت اور سہولت بھی رکھتی ہیں، یہ صورت حال ٹھٹھہ ، سجاول جیسے دور دراز کے علاقوں میں پیش آئے، گویا یہ ’لیبر روم ‘ بھی ہیں۔اکثر یہ صورت حال حاملہ خواتین کو پیش آتی ہے کہ انہیں عین وقت پر کوئی معیاری اسپتال یہ سہولت دینے کو تیار نہیں ہوتا، ایمرجنسی کی صورت میں امن ایمبو لینس میں یہ سہولت حاصل کی ہے۔ اگر یہ کہہ کر کہ ہم اس مقصد کے لیے ایمبولینس حاصل کر نا چاہتے ہیں ،شاید انتظامیہ اس کے لیے تیار نہ ہو البتہ ایمرجنسی ہوجائے تو امن ایمبو لینس میں یہ سہولت حاصل جائے گی۔ ’پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘(PFCC) کے وفد نے ’امن ایمبولینس ‘ کو قریب سے دیکھا ، وہاں موجود امن فاؤنڈیشن کے عملے نے ایمبولینس میں موجود تمام سہولیات، ساز و سامان، آلات ، ان کا فنگشن کرنااور دیگر ضروری باتوں سے آگاہ کیا۔امن ایمبولیس کا کرایہ تین سو سے پانچ سو روپے ہے۔

ٹیلی ہیلتھ سروس
طبی خدمات کے حوالے سے امن فاؤنڈیشن کی ایک ٹیلی ہیلتھ 9123 پرچوبیس گھنٹے چلنے والی مفت میڈیکل ایڈوائس ہیلپ لائن سروس بھی ہے، جو ٹیلی فون پر ضرورت مندوں کو طبی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ سروس اب تک561,582کالر ز کو خدمات فراہم کرچکی ہے جس میں2,582مینٹل ہیلتھ اور 5,008کالز خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تھیں۔ 9123ایک شارٹ کوڈ ہے اور کال کرنے پر کالر کا فوری طور پر رابطہ میڈیکل ہیلتھ کونسلر سے ہوجاتا ہے جہاں کالر کو مفت طبی مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔ بتایا گیا کہ ٹیلی ہیلتھ کیئر ٹرائی ایج سسٹم کے زیر نگرانی فعال ہے جہاں کسی بھی اہم معاملے کو ضرورت پڑنے پر میڈیکل کونسلر کے ذریعے سرٹیفائیڈ ڈاکٹر کو بھی ریفر کیا جاسکتا ہے۔

امن اربن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ
اربن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ آئی ایس او سرٹیفائیڈ تربیتی مرکز ہے ، یہاں امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز میں خدمات انجام دینے والے پیرا میڈیل عملے کو بی ایل ایس ، اے سی ایل ایس اور پی اے ایل ایس کورسیز کرائے جاتے ہیں۔ امن فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز میں خدمات انجام دینے والا تمام عملی اسی تربیتی ادارے کا تربیت یافتہ ہے۔ امن فاؤنڈیشن کا یہ ادارہ کارپوریٹ سیکٹر اور دیگر اداروں کے افراد کو بھی ہیلتھ کورسز کراچکے ہیں جن میں ابتدائی طبی امداد اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کورسیز شامل ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ ادارہ اب تک 28ہزار سے زائد لوگوں کو بی ایل ایس اور 120پیرامیڈیکس کو سرٹیفائیڈ کورس کرائے جاچکے ہیں۔ یہ پروگرام جناح میڈیکل یونیورسٹی اور ڈاؤ اور امیکن ہارٹ ایسو سی ایشن سے وابستہ ہیں۔

امن ٹیکAman Tec
امن ٹیک پروگرام کے تحت فنی تربیت فراہم کی جارہی ہے۔ مطالعاتی دورہ کے دوران امن ٹیک کے مختلف شعبہ جات کے مطالعہ کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ ہم کسی طبی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے میں نہیں بلکہ ایک فنی تربیت کے ادارے میں ہیں اور واقعی ایسا ہی تھا،مختلف گاڑیاں کھڑی ہوئی ان کے گرد تربیت حاصل کرنے والے طلبہ، انجن کھولتے، ٹائر نکالتے، ویلڈنگ کرتے، لیت مشین پر کام کرتے، بینچ پر لوہے کے ٹکڑوں کو ہموار کرتے، پلمبنگ کا کام کرتے طلبہ ہماری توجہ کا مرکز تھے۔ امن فاؤنڈیشن اپنے اس پروگرام کے تحت 12مختلف شعبہ جات میں تربیت دے رہا ہے جس میں آٹو موبائل، ریفریجریشن و ائر کنڈیشنگ، الیکٹریکل اور الیکٹرونکس، مکینیکل(مشینٹ)، فیبرکیشن اور ویلڈنگ، کیڈکیم، کیڈسول، آفسٹ پرنٹنگ، آٹو پینٹ، پلمبنگ، میکاٹرونکس، کمپیوٹر اپلیکیشن اور آفس پروفیشنل شامل ہیں۔ یہاں تربیت حاصل کرتے طلباء کم تعلیم یافتہ تھے، اس لیے کہ ان کورسیز میں داخلہ کے لیے میٹرک کلیدی معیار ہے۔ امن کی یہ سوچ کہ کم تعلیم یافتہ بچوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کردینا اور انہیں ملازمت میں بھی معاونت کرنا قابل تعریف عمل ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک10,236طلباء کو تربیت دی جاچکی ہے۔ کہا گیا کہ ان میں ملازمت حاصل کرنے والے طلباء کاتناسب69فیصد ہے ، امن ٹیک کے207گریجویٹس اس وقت بیرون ملک جب کہ 2628ملک میں مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امن ٹیک سے525خواتین بھی ہنر مندافرادی تربیت حاصل کرچکی ہیں۔

امن فاؤنڈیشن کے امن ٹیک ورکشاپ میں داخل ہوتے ہی جو سوال ذہن میں آیا یہ تھا کہ امن ایمبولینس سروس کے تحت طبی سہولیات کے دیگر اداروں کا قیام سمجھ میں آتا ہے لیکن میڈیکل کی سہولیات کے ساتھ خالص فنی تربیت دونوں کا کوئی موازنہ نہیں۔ یہ سوال وہاں موجود ماہرین سے کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امن فاؤنڈیشن کراچی بیس ادارہ ہے، خدمات کا دائرہ کراچی اور گرد و نواح تک محدود ہے۔ امن فاؤنڈیشن نے کم تعلیم یافتہ افرادی قوت کو ھنرمند کرنے کے خیال کے پیش نظر اس پروگرام کا آغاز کیا۔ امن ٹیک کے کامیابی سے چلنے پر ان کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ امن فاؤنڈیشن کورنگی میں قائم ہے لیکن یہاں کراچی کے دور دراز کے علاقوں جیسے اورنگی ٹاؤن، لیاری، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی، نیو کراچی، بلدیہ، شیرشاہ جیسے علاقوں سے بھی طلباء داخلہ لیتے ہیں، یہ صبح اور ویک اینڈ کورسز ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سہو لت بھی دستیاب ہے۔ امن فاؤنڈیشن بھی دیگر فلاحی اداروں کی طرح ڈونیشن پر چل رہا ہے۔ لوگ اس کی مدد کرتے ہیں۔ امن فاؤنڈیشن نے بہت سے پروگرام دیگر اداروں کے تعاون سے بھی کیے۔ مطالعاتی دورہ کے دوران وفد کو بریفنگ بھی دی گئی فاؤنڈیشن کے سی ای او ملک احمد جلال نے فاؤنڈیشن کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا، سلائڈس کی مدد سے اعداد و شمار بھی بیان کیے،سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں وفد کے اراکین نے سوالا ت بھی کیے ۔ ایک اہم سوال فاؤنڈیشن کو موصول ہونے والی امداد اور اس میں شفافیت کے حوالے سے بھی تھا۔ ایمبولیسز کو کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل کے پیش نظر جو مشکلات پیش آرہی ہیں ان کا ذکر بھی ہوا ۔ اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا امن فاؤنڈیشن مستقبل قریب میں ائر ایمبولیس متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک جلال نے ایک ایمبولینس پر آنے والے اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں ٹریفک کی صورت حال کے پیش نظر ائر ایمبولینس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اس میں بے شمار مشکلات بشمول مالی مشکلات ہیں ، پھر بھی امن فاؤنڈیشن اس اہم ضرورت کو اپنے مقاصد میں شامل کرے گا۔ یہاں ایدھی ائر ایمبولینس کا ذکر بھی آیا ، جس کو اب استعمال نہیں کیا جارہا لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کو ائر ایمبولینس کبھی ملی تھی۔ اُسے فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

امن فاؤنڈیشن جس کا بنیادی نعرہ انسانیت کی خدمت ہے کے لیے رات دن سرگرم عمل ہے۔ غریبوں کو کھانا کھلانے ، زندگی بچانے، فنی تعلیم سے کم پڑھے طلباء کو ھنر مند بنانے تک کے منصوبوں پر کامیابی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے مستقبل میں خدمت کے شعبے میں نت نئے منصوبے تشکیل دینے کی پالیسی اپنا رہی ہے۔ اس مطالعاتی دورہ کا اختتام ’پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘ (PFCC)کے وفد کے اعزاز میں لنچ تھا اسی پر اس مطالعاتی دورے کا اختتام ہوا، آخر میں فوٹو سیشن ہو اور واپس اسکول آف جرنلزم کورنگی کراسنگ پر ساتھیوں کو اتارکر اپنے گھر لو ٹے۔امن فاؤنڈیشن کا یہ مطالعاتی دورہ ہر اعتبار سے کامیاب و معلوماتی رہا۔ ایسی باتیں جو کم از کم میرے علم میں نہیں تھیں ان سے آگئی ہوئی۔ اس حوالے سے پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ کے عہدیداران بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کراچی کے ایک ایسے فلاحی ادارے کو مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا جو ہر اعتبار سے اراکین کے لیے اور ان کے توسط سے عام لوگوں کے مفید ثابت ہوا۔ (8فروی 201)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437717 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More