دریائے سوات کی بربادی کا ذمہ دار کرش مافیا یا دیگر عوامل؟

دریائے سوات کا قدرتی بہاؤ انسانی غفلت کی وجہ سے ختم ہوکر ایک نالہ کی شکل اختیار کر رہا ہے، اگر صرف کرش مافیا کو ہٹا دیا جائے تو سوات کی جنتی خوبصورتی واپس آ سکتی ہے! اس کیلئے اداروں کا کردار ناگزیر ہوچکا ہے ۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
وادیٔ سوات، جو قدرت کی صناعی کا ایک بے مثال نمونہ ہے، اپنی دلفریب فطری مناظر، سرسبز پہاڑوں، بہتے جھرنوں اور خوشگوار موسم کے باعث پاکستان بھر میں ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔ اس وادی کے بیچوں بیچ بہنے والا دریائے سوات اس علاقے کا قلب اور روح تصور کیا جاتا ہے۔ یہی دریا برسوں سے نہ صرف یہاں کے قدرتی حسن کو جِلا بخشتا رہا ہے بلکہ زرعی، معاشی اور سیاحتی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا ہے۔
مگر افسوس! آج وہی دریا بے رحم اور لالچی عناصر کے ہاتھوں اجڑ رہا ہے۔ جس دریا کے کناروں پر کبھی قدرت کا کمال دکھائی دیتا تھا، آج وہاں کرش مافیا کی مشینیں، دھول، شور، اور تباہی کا منظر عام ہے۔ اگر صرف ان ظالم مشینوں اور ان کے پیچھے موجود طاقتور مافیا کو ہٹا دیا جائے تو دریا کی پرانی خوبصورتی ، فطری روانی اور مقامی زندگی کی رعنائی واپس آ سکتی ہے۔
دریائے سوات ایک قدرتی خزانہ ہے جو اس وقت بربادی کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے، دریائے سوات صرف ایک پانی کی گزرگاہ نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانی تہذیب، تمدن اور قدرتی ماحول کا امین ہے۔ اس کے پانی سے لاکھوں افراد کی روزی جڑی ہوئی ہے۔ سوات کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں پانی کی فراہمی، کھیتوں کی سیرابی، سیاحت کی سرگرمیوں، حتیٰ کہ درختوں اور جنگلی حیات کی بقا بھی اسی دریا پر منحصر ہے۔
لیکن اب یہی دریا چیخ چیخ کر انسان کی بےحسی اور خودغرضی کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ کرش مشینوں کی لگاتار کھدائی، پتھروں اور بجری کے حصول کے لیے اس کی تہہ میں بےدریغ کھدائی، دریا کے قدرتی بہاؤ کو روکنے والے غیرقانونی بند، اور درختوں کی کٹائی جیسے عوامل سےاس قدرتی خزانے کو روز بروز سکڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کرش مافیا وہ بدنام گروہ ہے جو صرف منافع کمانے کی لالچ میں قدرت کے اس انمول تحفے کو برباد کر رہا ہے۔ یہ گروہ جدید اور بھاری مشینوں کی مدد سے دریائے سوات کی تہہ سے پتھر، ریت اور بجری نکالتا ہے اور انہیں سستے داموں فروخت کر کے اربوں روپے کما رہا ہے۔ ان مشینوں کی آوازوں نے پرندوں کی چہچہاہٹ اور پانی کے بہتے شور کو دبا دیا ہے۔ یہ صرف دریا کے حسن کو نقصان نہیں پہنچا رہے، بلکہ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے، کیونکہ دریا کے بہاؤ اور پانی کے جمع ہونے کا قدرتی نظام متاثر ہو چکا ہے۔
زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے کیونکہ پتھروں کی تہہ ہٹانے سے مٹی کی مضبوطی ختم ہو چکی ہے۔درختوں کی جڑیں کمزور ہو چکی ہیں اور کناروں پر موجود درخت ختم ہونے لگے ہیں۔
سیلاب کے خطرات بڑھ چکے ہیں کیونکہ دریا میں پانی جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔
اگر صرف کرش مافیا کو ہٹا دیا جائے تو اس نقصان پر قابو پایا جاسکتا ہے، اگر حکومت، عدلیہ اور مقامی ادارے صرف اس بات پر مکمل عملدرآمد کر لیں کہ کرش مافیا کو دریائے سوات سے نکال دیا جائے، تو درج ذیل مثبت اثرات فوری طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
قدرتی بہاؤ بحال ہوگا، اور دریا کا حسن دوبارہ لوٹ آئے گا۔ زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہوگی، جس سے پینے اور زرعی پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔دھماکہ خیز مشینوں کی آلودگی سے نجات ملے گی اور ماحول صاف ہو گا۔
سیاحوں کی واپسی ممکن ہو گی، جو ایک عرصے سے دریا کی بربادی دیکھ کر ادھر کا رُخ کم کر چکے ہیں۔
مقامی کسانوں کو دوبارہ سیراب کھیت میسر آئیں گے۔ ماحولیاتی نظام میں توازن بحال ہو گا۔ اس کے علاوہ شجرکاری نئی زندگی کی امید ہے، دریا کے دونوں کناروں پر اگر منظم، مسلسل اور جامع شجرکاری کی جائے، تو کئی ماحولیاتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ درخت اُگانے سے زمینی کٹاؤ کا خاتمہ ہوگا ۔بارش کے پانی کو جزب کرنے میں مدد ملے گی ۔کناروں کو مضبوط کر کے سیلاب کا زور کم ہوگا ۔
دریا کے دونوں کناروں پر شجرکاری پرندوں، حشرات اور جنگلی حیات کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔فضاء کو صاف کرتے ہیں اور ماحول کو معتدل رکھتے ہیں۔درختوں کے ذریعے دریا کی بقا کو طویل مدتی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے قانون کا سہارا لینا پڑے گا، قانون تو ہے مگر عملدرآمد کہاں ہے؟ پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق قوانین موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے ان پر عملدرآمد نہایت کمزور ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے دریا کے کناروں پر کرش مشینوں کے استعمال پر متعدد بار پابندی عائد کی، مگر یہ پابندیاں زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیں۔
انتظامیہ پر سیاسی دباؤ، کرپشن، اور کرش مافیا کی طاقت نے قانون کو مفلوج کر دیا ہے۔ اگر یہ صورتحال بدلی نہ گئی، تو بہت جلد دریائے سوات ایک سوکھا ہوا نالہ بن کر رہ جائے گا۔
دریائے سوات کی بقا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر فرد کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ عوامی سطح پر بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے "ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دریا کیسے سکڑتا جا رہا ہے۔ پہلے یہاں مچھلیاں تیرتی تھیں، بچے نہاتے تھے، اب صرف مشینوں کی آواز آتی ہے۔ اگر اب بھی ہم خاموش رہے، تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔"
اس حوالے سے کچھ تجاویز اور حل ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے دریا کی پرانی حالت بحال کی جاسکتی ہے
1. کرش مافیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے، اور دریا کے قریب تمام مشینیں فوری طور پر ضبط کی جائیں۔
2. دریا کو سیاحتی مقام قرار دے کر ہر قسم کی تجارتی کھدائی پر پابندی لگائی جائے۔
3. شجرکاری مہمات کو ترجیح دی جائے اور اسکول، کالج، یونیورسٹی سطح پر اس میں شمولیت کو لازمی بنایا جائے۔
4. مقامی میڈیا اور ریڈیو چینلز کے ذریعے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔
5. رضاکار گروپس بنائے جائیں جو دریا کی نگرانی کریں اور خلاف ورزی کی صورت میں رپورٹ کریں۔
دریائے سوات صرف پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی کہانی ہے، فطرت، زندگی، زرخیزی، حسن اور تہذیب کی کہانی۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو یہ کہانی جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔
لیکن اگر ہم نے متحد ہو کر، مضبوط ارادے کے ساتھ صرف ایک قدم اٹھایا یعنی کرش مافیا کو ہٹا دیا تو ہم نہ صرف دریا کو بچا سکتے ہیں بلکہ پورے سوات کو دوبارہ اس کی جنتی شکل میں واپس لا سکتے ہیں۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 117 Articles with 78365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.