تنکوں سے تاروں تک پرندوں کا گھونسلا ! انسان خود اپنی تباہی کا معمار

ترقی کے نام پر فطرت کے خلاف اقدامات سے انسان خود اپنی تباہی کو دعوت دے رہا ہے، تصویر کہانی میں ایک ہوش ربا حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اب
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
کبھی وہ وقت بھی تھا جب صبح کے وقت درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ سے دن کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ ہوا میں قدرت کی خوشبو بسی ہوتی تھی، گھروں کے آنگن میں مختلف قسم کے پرندے اپنے گھونسلے بناتی تھیں، کھیتوں میں کوے، مینا، بلبل، فاختہ اور دیگر پرندے فصلوں کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ گھنے درختوں کی شاخوں میں پرندوں کے تنکوں سے بنے نرم و نازک گھونسلے قدرت کے ایک خاموش مگر خوبصورت توازن کا ثبوت تھے۔
لیکن آج ہم ایک ایسی تصویر کے سامنے کھڑے ہیں جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے، بجلی کی الجھی ہوئی رنگ برنگی تاروں سے بنا گھونسلا، جس میں دو سفید انڈے رکھے ہیں۔ یہ تصویر کسی "تخلیقی پرندے" کی ذہانت کی مثال نہیں بلکہ انسان کی بے حسی، ماحول سے لاپرواہی اور فطرت پر جبر کی علامت ہے۔
یہ گھونسلا ایک المناک سچائی کو بے نقاب کر رہا ہے کہ اب اس زمین پر پرندوں کو گھونسلہ بنانے کے لیے تنکے بھی دستیاب نہیں۔ وہ تنکے جو کبھی زمین پر بکھرے رہتے تھے، جو ہر جھاڑی، درخت اور کھیت کے کنارے فطری طور پر مل جاتے تھے، اب ناپید ہو چکے ہیں۔ بجائے تنکوں کے، اب پرندے انسانی ترقی کے باقیات بجلی کے تار، پلاسٹک، ربڑ اور مصنوعی چیزوں کو گھونسلا بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے، لیکن جب ہماری کامیابی کا راستہ دوسروں کی زندگی روندتا ہوا گزرے، جب ہم اپنے مفاد کی خاطر سینکڑوں جانداروں کا حق چھین لیں، تو یہ ترقی نہیں، ایک اجتماعی تباہی ہے جس کے مجرم ہم سب ہیں۔
ہم نے کھیتوں کو "بہتر پیداوار" کے نام پر زہریلے سپرے سے لبریز کر دیا ہے۔ ان اسپرے کیمیکلز نے نہ صرف نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کو مارا بلکہ بے شمار فائدہ مند حشرات، مکھیوں، تتلیوں، اور پرندوں کو بھی نگل لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب پرندے فصلوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔
ان فصلوں کے بچ جانے والے بقایا جات کو جلانے کا عمل مزید تباہی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ یہ جلانے سے زمین کی زرخیزی ختم ہوتی ہے، جھاڑیاں، گھاس، اور کیڑے مکوڑے مر جاتے ہیں جو زمین کی صحت کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔
کبھی قدرتی چراگاہیں تھیں، درختوں کی لمبی قطاریں تھیں، لیکن آج ہر جگہ سیمنٹ، کنکریٹ، اور لوہے کا راج ہے۔ زمین یا تو رہائشی اسکیموں کی نذر ہو چکی ہے یا بے کار چھوڑ دی گئی ہے۔ نہ کوئی گھاس ہے، نہ جھاڑی، نہ درخت، اور نہ ہی وہ فطری زندگی جو کسی زمانے میں ہر ذی روح کا حق تھی۔
پرندے، مکھی، تتلیاں، چھپکلیاں، مینڈک، سانپ، اور دیگر چھوٹے جاندار جو کسی نہ کسی طور ہماری فطری زندگی کے توازن کا حصہ تھے، اب آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع (Bio-Diversity) تباہی کے دہانے پر ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیں اس کی خبر تک نہیں۔
ہم نے قدرت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی جو ضد پکڑی ہے، اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سب کچھ لیبارٹری سے تیار ہوگا، خوراک، پانی، ہوا، روشنی، ہر چیز۔ لیکن اس کے باوجود ہم خوش نہیں ہوں گے، کیونکہ فطرت کی اصل خوشبو، ذائقہ اور سکون مصنوعی طریقے سے ممکن ہی نہیں۔
کیا ہم واقعی ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں پرندے مصنوعی گھونسلے بنائیں، جہاں درخت صرف پارکوں میں نمائش کے لیے ہوں، جہاں پھول صرف سجاوٹ کے کام آئیں، اور جہاں فصلیں صرف زہریلی کھاد اور اسپرے سے اگائی جائیں؟ کیا یہ وہ ترقی ہے جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے؟ یا یہ وہ المیہ ہے جس پر ماتم ہونا چاہیے؟
اب بھی وقت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا، سمجھنا ہوگا، اور عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں قدرت کو اس کا حق واپس دینا ہوگا، فصلوں کو زہریلے کیمیکل سے بچانا ہوگا، زمین کو سانس لینے دینا ہوگا، اور ان چھوٹے مگر اہم جانداروں کے لیے جگہ بنانی ہوگی جن کے بغیر زندگی کا پہیہ رک جائے گا۔
ورنہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہمارے بچے یہ سوال کریں گے:
"ابا، یہ پرندے صرف تصویروں میں کیوں نظر آتے ہیں؟"

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 119 Articles with 78774 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.