سپریم کورٹ میں یو بی ایل اور پی ٹی سی ایل ملازمین کی
پنشن کے متفرق مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا
عدالت کو بتایا جائے کہ خوشحال بی بی 570 روپے میں کیسے گزرا کرسکتی ہے ۔بنک
کے وکیل نے کہا اب بنک کی جانب سے پنشن کی حد 5250 مقرر کی جا رہی ہے ۔چیف
جسٹس نے اس رقم پر بھی عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا بنک سمیت تمام
ادارے اپنے پنشنرز کو اتنی پنشن ضرور دیں جس سے مہنگائی کے اس دور میں وہ
زندہ رہ سکیں ۔اسی حوالے سے میں قابل احترام چیف جسٹس کے روبرو چنداہم
حقائق گوش گزار کرنا چاہتاہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پنشن کی سہولت صرف
سرکاری اداروں اور چند بنکوں تک محدود کیوں ہے ؟ آدھے سے زیادہ بنک ریٹائر
ملازمین کو پنشن دینا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ تمام مالی مراعات حاضر سروس
ملازمین کے لیے ہیں ۔ سوئی گیس ایسا محکمہ ہے جو اپنے ریٹائر ملازمین کو
مجموعی تنخواہ کا 75 فیصدبطور پنشن دیتا ہے جبکہ ریٹائر ملازمین کے لیے
مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی تاحیات سہولت بھی فراہم کرتا
ہے ۔ پاکستان میں سوائے سرکاری ملازمین کے کسی اور ادارے کے ریٹائر ملازمین
کو یہ سہولت حاصل نہیں ۔ ایک ہی ملک میں رہنے والوں کے ساتھ یہ زیادتی کیوں
۔؟فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کونہ صرف مقررہ تنخواہ سے آدھی
تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ انہیں ریٹائر منٹ کے بعد اولڈ ایج بینیفٹ( جوکرپشن
کاگڑھ بن چکا ہے) کی جانب سے معمولی رقم ماہانہ گزارا الاؤنس کے طور پر ادا
کی جاتی ہے ۔ جس سے بیمار شخص اپنی ادویات بھی نہیں خرید سکتا۔ وہ روٹی
کہاں سے کھائے گا ۔ خیبر پختون خوا حکومت نے حال ہی میں اپنے صوبے کے تمام
امام مسجدوں کو ماہانہ دس ہزار روپے سپیشل الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے جس
کی ادائیگی بھی شاید جنوری 2018ء سے شروع ہوچکی ہے ۔ چیف جسٹس کی خدمت میں
عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سہولت ملک کے باقی صوبوں کے آئمہ کرام کو
کیوں نہیں مل سکتی ۔ یادرہے کہ لاہور جیسے شہر میں بھی کتنے امام مسجدوں کو
ماہانہ اعزازیہ 13 سے 15 ہزار روپے ملتا ہے جبکہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام
کی تنخواہیں اس سے بھی کم تر ہیں ۔میں نے ایک معروف دینی مدرسے کے سینئر
ترین استاد سے ان کی تنخواہ پوچھی تو انہوں نے 10 ہزار روپے بتایا ۔ چیف
جسٹس صاحب جن انگلش میڈیم اور دیگر پرائیویٹ سکولوں میں پہلی جماعت کے بچوں
سے ماہانہ فیس دو ہزار روپے وصول کی جاتی ہے انہی سکولوں میں تدریسی فرائض
انجام دینے والی ٹیچرز کو بمشکل چار سے پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جارہی ہے
۔ یہ سب کچھ محکمہ ایجوکیشن کے علم میں ہے لیکن سب نے آنکھوں پر پٹی باندھ
رکھی ہے ۔محکمہ سوئی گیس اپنے ملازمین کومفت گیس اور بجلی کے محکمے مفت
بجلی فراہم کرتے ہیں لیکن بنک ملازمین کو مارک اپ کے بغیر قرض دینا گناہ
عظیم تصور کیاجاتا ہے ۔ حتی کہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی قرضے پر مارک اپ معاف
نہیں کیا جاتا ۔ جبکہ بنک اپنے ڈیفالٹر کو اربوں روپے کا مارک اپ معاف
کردیتے ہیں ۔ جناب چیف جسٹس آپ کو پٹرول پمپ اور آٹو ورکشاپوں پر کام کرنے
والے ملازمین کی حالت زار کابھی شایدعلم نہیں ۔ جن کی مزدوری 30 روپے
دیہاڑی ے شروع ہو کر 100 روپے تک پہنچتی ہے ۔ بیمار ہوجائیں یا جسمانی طور
پر معذورہوجائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ کیایہ ظلم نہیں ہے ۔آپ
دور حاضر کے قاضی ہیں اگر حکمرانوں کو خوف خدا نہیں ہے توانہیں ان باتوں
کااحساس کروانا یقینا آپ کی ذمہ داری ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی
جانب سے صحت کارڈ کا ڈھونڈا پیٹا جارہا ہے جس کے تحت موذی بیماریوں میں
مبتلا افراد کو اڑھائی لاکھ روپے سالانہ اور چھوٹے امراض کے لیے پچاس ہزار
روپے سالانہ علاج کے لیے فی خاندان دیئے جاتے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں دل
کے مریضوں کی تعداد چار کروڑ ہے ۔2 لاکھ سالانہ اضافہ ہورہاہے ۔ ہر دسواں
شخص ہیپاٹائٹس کا مریض ہے۔ دو کروڑ افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔پانچ
لاکھ افراد ہر سال اسی بیماری کا شکار ہوکر موت کی وادی میں جا سوتے ہیں ۔
ہر سال پانچ لاکھ مریضوں کا اضافہ ہورہاہے ۔اڑھائی کروڑ افراد گردوں کے
موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ ایک ڈیلسز پر چار ہزار خرچ ہوتاہے ہفتے میں تین
بار ڈیلسز کروانا پڑتا ہے اور اگر گردہ تبدیل بھی کروالیاجائے تو تاحیات دس
ہزار روپے ہفتے کی میڈیسن کھانی پڑتی ہے ۔ شوگر کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ
چالیس لاکھ ہے ۔ جنا ب چیف جسٹس آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کی
آدھی آبادی موذی بیماریوں میں مبتلاہے اتنی بڑی تعداد میں بیماروں کے لیے
علاج معالجے کی سہولتیں ٗ فنڈ اور ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ حکومت صحت
کارڈکا فخریہ اعلان کرتی ہے لیکن یہاں تو ہر دوسرا تیسرا شخص کسی نہ کسی
موذی بیماری کا شکار ہوکر زندگی سے نجات کی دعائیں مانگ رہا ہے ۔نابینا لوگ
اپنے حقوق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں اور پولیس کی مار کا سامنا کررہے ہیں
اگر حکومت تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو حکم دے کہ وہ اپنے ہاں دو
تین نابینا افراد کو ملازم رکھ کر انہیں بغیرکام کیے تنخواہ اداکریں تو
آسمان نہیں ٹوٹ جائے گا۔بیماری اور معذوری کسی کو بھی آسکتی ہے ۔یہ وہ
حقائق ہیں جن کا شاید آپ کو علم نہیں ۔ یہی ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے
۔ اگر سرکاری ملازمین کوریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور تاحیات علاج کی ضرورت ہے
تو کیا دوسرے اداروں سے ریٹائر ہونے والے بھی انہی مراعات کے حقدار ہیں ۔اگر
سرکاری ملازمین انسان ہیں تو کیا باقی سب حیوان ہیں ۔مختصر بات تو یہ کہ
علاج معالجے کی سہولت ہو ٗ پنشن کی بات ہو ٗ پاکستان کے تمام شہریوں کو
فراہم کرنا حکومت کااولین فرض ہونا چاہیئے ۔ سپریم کورٹ حکم دے گا تو
حکمران غفلت کی نیند سے بیدار ہوں گے وگرنہ اسی طرح سرکاری ملازمین
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی موجیں کرتے رہیں گے اور باقی اداروں کے ریٹائر
ملازمین بھوکے پیاسے مرتے رہیں گے ۔ حکومت کایہ فرض ہے کہ وہ تمام اداروں
جن میں دس سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں ان کو پنشن اور تاحیات علاج کی
سہولت فراہم کرے اور جو ادارے پنشن دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں ان کی جگہ
حکومت بیت المال سے ان ملازمین کو کم ازکم دس ہزار روپے مہینہ گزارا الاؤنس
دے ۔سپریم کورٹ پابندی لگا ئے کہ بیت المال اور اولڈ ایج بینیفٹ کے فنڈکسی
اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیے جاسکیں ۔ |