بھائی پھول لے لے، میرے بچے بھوکے ہیں کھانا کا کر تجھے
دعائیں دیں گے۔ کتنے کا ہے پھول؟ سگنل کھلنے کا انتظار کرتے موٹر سائیکل
سوار نے پھول فروش سے سوال کیا، بھائی تین سو روپے کا لے لو ہے تو پانچ سو
کا۔
ہائے افسوس، محبت کی علامت بھی اس زمانے میں مہنگی ہوگئی۔ موٹر سائیکل کی
پچھلی جانب بیٹھے شخص نے یہ کہتے ہوئے اپنے بھائی سے چلنے کا کہا۔
چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کی تابعداری کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو کک لگائی
اور سگنل کھلتے ہی دونوں پھول فروش کے پاس سے بغیر پھول لئے روانہ ہوگئے۔
تھوڑا دور گئے تو بڑے بھائی سے چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی لے لیتے اس
غریب کا بھلا ہوجاتا اور آپ جاکر بھابھی کو یہ پھول دے دیتے اور وہ بھی
خوش ہوجاتیں۔
اڑے چھوٹے، ایک تو وہ پھول پچاس کا تھا، جو وہ ڈھائی سو روپے مہنگا دے رہا
تھا دوسرا میں انفرادی طور پر ایسی چیز کو فروغ کیوں دوں جو ہماری ثقافت سے
دور دور تک تعلق ہی نہیں رکھتی۔
اچھا بھائی پھر تو مہندی، جہیز، ناچ گانا اور لڑکی والوں کے ہاں باراتی لے
کر جانا بھی ہماری ثقافت کا حصہ نہیں۔ یہ رسم و رواج بھی تو غیر سے لئے گئے
ہیں۔
میرے چھوٹے بھائی ایسے تو تم یہ بھی کہو گے معاشرے کیاکثریت سالگرہ تو
مناتیہےعقیقہ کیوں نہیں کرتی؟ پہلے مساجد کچی ہوا کرتی تھیں اب پکی کیوں
ہیں؟ پہلے چٹائی پر نماز پڑھی جاتی تھی اب دریوں اور کارپیٹ پر کیوں ؟ پہلے
تو جنگ تلواروں سے لڑی جاتی تھی اب بندوقوں اور گولہ بارود سے کیوں؟
میرے ننھے بھائی بات یہ ہے کہ ہمیں ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا
پھر فیصلہ کرنا ہے آیا ہمیں اسے لینا چاہیئے یا نہیں۔
ویلنٹائن یورپ میں اس وقت کا مجنو تھا جب صنعتی انقلاب نے وہاں بھی جنم
نہیں لیا تھا اور اس وقت کے دور میں وہاں بھی لڑکیوں کو والدین اور رشتے
داروں کی رضامندی کے بغیر شادی کرنا منع تھا۔
ایسے میں محبت کی ناکامی پر ویلنٹائن نیم پاگل سی کیفیت میں چلا گیا اور
برہنہ ہو کر گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر گھومنے لگا۔ آزاد خیال عورتوں نے
جب ویلنٹائن کے اس عمل کی حقیقت کو جانا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔
وسیع ذہن کی مالک عورتوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ویلنٹائن کے اس محبت کے پیغام
کو اپنے علاقے سے شروع کرتے ہوئے دور تک لے کر جائیں گی۔
مہم کے آغاز میں عورتوں نے چھپ چھپا کر پہلے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی
ذہن سازی کی۔
تھوڑے عرصے بعد چودہ فروری کے روز محبت کرنے والے جوڑوں نے برہنہ اور نیم
برہنہ حالت میں اپنے اپنے علاقوں میں گھومنا شروع کیا تاکہ ویلنٹائن سے
شفقت کا اظہار کیا جائے اور اس کی یادیں بھی محبت کرنے والوں میں زندہ
رہیں۔
آہستہ آہستہ قدم جماتے ہوئے ویلنٹائن ڈے یورپ سے باہر نکلا اور پڑوسی
ممالک سے ہوتا ہوا اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔
اچھا! بڑے بھائی آپ کی تاریخ کو اگر ایک منٹ کیلئے سچ مان بھی لیا جائے
لیکن پاکستان بھی تو ایک روشن خیال ملک ہے، یہاں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں
بھی چاہتے ہیں کہ وہ ویلنٹائن ڈے کو منائیں جبکہ یہاں تو یہ سلسلہ صرف پھول
اور تحفے تحائف دینے تک محدود ہے اور برہنہ ہوکر گھومنے والا معاملہ بھی
نہیں ہے جس سے ہمارے اقدار کو ٹھیس پہنچتی ہو۔
چھوٹے بھائی پہلے ان کا معاملہ بھی پھول اور تحائف بانٹنے سے ہی شروع ہوا
تھا اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ایک سمجھدار
اور دنیا پر گہری نظر رکھنے والے انسان ہیں وہ کھی بھی چینلز کو پیمرا کے
ذریعےویلنٹائن ڈے کینشریات پر ممانعت کا حکم نہ دیتے اگر اسکی ثقافت میں
پچاس فیصد بھی ایسی چیزیں شامل ہوتیں جو ہمارے معاشرے کیلئے سود مند ہوں۔
بھئی آپ کی باتیں مجھے الجھا رہی ہیں میں تو آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں۔
مجھے تو فلاں این جی او والی میم (میڈم) نے جہاں میں کام بھی کرتا ہوں، کچھ
اور ہی بتایا ہے جو مجھے فائدہ مند لگتی ہے اور اس میں تو مجھے مکمل طور پر
صرف محبت، امن اور دو دلوں کو ملانے والی بات معلوم ہوتی ہے۔
ٹھیک ہے بھائی تم وہ ہی کرو جو تمہیں ٹھیک لگے مگر دوسروں کی باتوں کو لینے
سے پہلے مشورہ ہے کہ اس سے متعلق تھوڑا پڑھ بھی لوتو بہتر ہے۔ |