حسد دل کی بیماری ہے۔انسان کاقلب مختلف قسم کے خیالات
کی آماجگاہ ہے،اس کے بزم دل میں تخیلات کی ایک انجمن آبادہوتی ہے، انسان کو
چاہیے کہ وہ ان تخیلات پرقابوپائے جواس کوغلط راہ پرلے جاتے ہیں اورخداسے
بغاوت وسرکشی پرابھارتے ہیں،اس طرح سے اول مرحلہ ہی میں انسان حسدکی لعنت
سے بچ جائے گا،پریشانی تواس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان ان تخیلات کواپنے دل
کے نہاں خانہ میں جگہ دیتاہے،اورباربارسوچ کران کی آبیاری کرتاہے۔امام
غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ’’حسد ‘‘اسے کہتے ہیں کہ کسی کو کوئی نعمت
ملے اور تجھے برا معلوم ہو اور تو چاہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے۔یعنی کہ
آدمی دوسرے کی کوئی بھی نعمت ،خوشحالی اور ترقی وغیرہ دیکھ کر اپنے دل میں
تنگی محسوس کرے اور اﷲ کی عطاکردہ اس نعمت سے اسے خوشی حاصل نہ ہو بلکہ اس
کی تمنا یہ ہو کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور بسااوقات خود بھی اس سے چھین
لینے یا زائل کرنے کی کوشش کرے۔ حسد کو حرام قرار دیا گیا ہے کیوں کہ کسی
کی نعمتوں سے حسد کرنا حکم الٰہی سے ناراضی اور خبث باطنی ہے۔ حسد شیطان کے
انسانی دل میں داخل ہونے کا ایک راستہ ہے، حسد ہی کے سبب ابلیس مرکز لعنت
بنا اوراسے دھتکاردیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حسد کی مذمت فرمائی
اور اس کے ارتکاب پر سخت سزا کا اعلان فرمایا، اس لیے کہ حاسد اﷲ تعالیٰ کی
اپنے بندوں کے لیے مقدر کردہ اشیاء پر اعتراض کرنے والا ہوتا ہے، حاسد کے
احساسات اور جذبات سے بیوقوفی اور دیوانگی کا مظاہرہ ہونے لگتا ہے اور وہ
ہر چھوٹی بڑی چیز پر اعتراض کرنے کا رسیا بن جاتا ہے، اب اسے دوسروں کی
نعمتوں کے زوال کی ہی فکر لگی رہتی ہے، اﷲ تعالیٰ نے جو اسے عطا کیا ہے وہ
اس پر بھی مطمئن نہیں رہتا اور اسے دوسروں کی نعمتوں پر بھی خوشی نہیں
ہوتی۔رفتہ رفتہ حاسد کے کینہ کپٹ میں اضافہ ہوتاجاتا ہے اور ایسا شخص
محفلوں اور مجالس میں اپنے محسود کی چغلیاں اور غیبتیں کرتا ہے، اس کی عزت
پر حملے کرتا ہے اور اسے گالیاں دینے پر بھی اتر آتا ہے۔
حسد کی اہم اور بنیادی وجوہات یہ ہیں :دشمنی اور آپسی بغض کے نتیجے میں
حاسد کو محسود کی ترقی شاق گذرتی ہے، دوسری وجہ فخروتکبرہے،حاسد کو اپنے
علاوہ اﷲ کے بندے حقیر اور ناقص نظر آنے لگتے ہیں، اس لیے کہ وہ لوگ وہ چیز
حاصل کرچکے ہوتے ہیں جس کے حاصل کرنے میں حاسد ناکام رہا، حسد کی وجوہات
میں سیادت وقیادت،عزت وجاہ اور تعریف وثناخوانی کا نشہ بھی شامل ہے، بعض
لوگ مجلسوں اور محفلوں میں اپنی ثناء خوانی کے خواہش مند ہوتے ہیں، انہیں
اس کرسی پر جلوہ افروز ہونے کی دلی تمنا رہتی ہے جس کی خواہش میں سیکڑوں
افرادکے منہ کو پانی آتا ہے۔حسد کی وجوہات میں نفس کی شرارت، برائی سے محبت
اور خیر کے کاموں میں بخل بھی شامل ہیں، حاسد کے سامنے کسی فرد کی تعریف
وستائش کی جاتی ہے تو اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے، اس کا دل تنگ ہوجاتا
ہے، اورزمین اپنی کشادگی کے باوجود اسے تنگ نظر آنے لگتی ہے۔ دوسری جانب
اگرحاسد کے سامنے کسی ایسے فرد کا ذکر چھیڑا جائے جو مشکلات، آزمائش اور
مصائب کا شکار ہے تو پھر اس کا چہرہ کھل اٹھتا ہے، اور وہ در در پھر کر اس
کی پریشانیوں کا تذکرہ کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھی اپنے محسود کی پریشانیوں
کے تذکرے کو بظاہر رحمدلی کے جذبات کے ساتھ بھی پھیلاتا ہوانظرآتاہے۔ لیکن
حاسد کی یہ حرکتیں اور یہ ادائیں بدترین فطرت اور ذلیل عادتوں کی پیداوار
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حسد کے اس خبیث عنصر کا علاج بہت مشکل ہے،اس لیے کہ
حاسد میں عظیم ظالم اور عظیم جاہل کی صفتیں جمع ہوجاتی ہیں، اس کے دل کو
دوسروں کی نعمت کے زوال پر ہی سکون وراحت ملتی ہے، لہٰذا ایسے وقت دواء بھی
اپنا کام بند کردیتی ہے۔
حسد کے نقصانات میں یہ بھی شامل ہے کہ حاسد محسود کی نعمتوں کے ازالے کے
لیے ہر ممکن کوشش میں لگا رہتا ہے، بسا اوقات حسد کے نتیجے میں وہ محسود کے
قتل کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی
مثال ہمارے سامنے ہے، جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا۔حسد حاسد کو
حق بات کے قبول کرنے سے باز رکھتا ہے،اور جب محسود کے ذریعے حق بات پہنچتی
ہے تو اس سلسلے میں حاسد مزید سرکشی پر اتر آتا ہے، حسد اسے باطل پر ہی
قائم رکھتا ہے جس میں کہ اس کی ہلاکت وبربادی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ حسد حاسد
کو غیبت، چغل خوری اور بہتان تراشی جیسے گناہوں پر آمادہ کرتا ہے لیکن یاد
رہنا چاہیے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔حسد حاسد کو اپنے بھائی کے حقوق کو پامال
کرنے پر آمادہ کرتا ہے، وہ اﷲ کے بندوں پر اس کے فضل وانعام کو دیکھ دیکھ
کر بے چین ورنجیدہ خاطر رہتا ہے حالاں کہ حاسد میں ان انعامات اور فضل
الٰہی کو روکنے کی کوئی طاقت وقوت نہیں ہوتی ،نتیجتاً اسے افسردگی اور بے
چینی کے علاوہ کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔حسد کے نتیجے میں انسان لغزشوں
اورعیوب کا شکار ہوتا جاتا ہے،حدیث میں ہے: جو اپنے بھائی کے عیوب کے پیچھے
پڑتا ہے،اﷲ تعالیٰ اس کے عیوب کو ظاہر کرتاہے اور جس کے عیوب کو اﷲ تعالیٰ
ظاہر فرمادے، تو وہ رسوا ہوجاتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کی چہار دیواری میں
ہی کیوں نہ ہو۔[ترمذی، ابوداؤد]
حاسد کا حسد سے بچنے کا آخری علاج یہی ہے کہ وہ سمجھ لے اس کی حرکتوں کا
نقصان محسود کو نہیں پہنچتا بلکہ اس کی ذات کو ہی نقصان پہنچتا ہے کیوں کہ
حسد کے ذریعہ کسی کی نعمت زائل نہیں ہوتی۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: بدگمانی سے پر ہیز کرو،کیوں کہ بدگمانی بہت بری بات ہے،نہ تم کسی
کا عیب سننے کے لیے پیچھے پڑو،نہ جاسوسی کرو،نہ کسی سے حسد کرو، نہ کسی سے
بغض رکھواور نہ ہی کسی کے خلاف سازش کر و، اﷲ کے بندو! تم ایک دوسرے کے بھا
ئی بھا ئی بن جاؤ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے،ایک مسلمان دوسرے
مسلمان کا بھا ئی ہو تا ہے،نہ تو اس پر ظلم کر تا ہے،نہ اسے ذلیل کر تا ہے
اور نہ ہی اسے حقیر جانتا ہے،تقوی یہاں ہے، تقوی یہاں ہے،تقوی یہاں ہے۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ آدمی کے گناہ
گار ہو نے کے لیے یہی کا فی ہے کہ و ہ اپنے مسلمان بھا ئی کو حقارت آمیز
نگاہ سے دیکھے، ہر مسلمان کا خون، اس کی عزت وآبرو اور اس کی دولت وجائیداد
دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (مسلم وبخاری) |