آج کا فنکار ، اور اس کی ذمہ داریاں

سب سے پہلے تو ہمیں ایک فنکار کی تعریف وضع کرنی ہوگی کہ فنکار کسے کہتے ہیں ،کیا وہ جو اپنے فن میں ماہر ہو اور پھر جو چاہے لکھے کسی کے خلاف بھی اپنا قلم اور توانائی اپنے مفاد اور دولت کے لئے خرچ کردے یا فنکار اسے کہیں گے جو ملک ، مذہب ، علاقائی تعصب ، لسانی مسائل ، سماج ، دولت اور مفاد سے بالاتر ہوکر صرف حقائق بیان کرے ۔ اگر ہم آخر الذکر تعریف دیکھیں تو اس پر گنتی کے چند ایک فنکار ہی پورا اترتے ہیں جیسے منٹو ، عصمت چغتائی ،ن میم راشد ، جون ایلیاء غالب ، راپندر ناتھ اشک ، پریم چند ، غلام عباس ، حبیب جالب ،فیض احمد فیض وغیرہ یہ وہ تخلیق کار تھے جنہوں نے ہمیشہ سچ لکھا یہی وجہ تھی کہ ان کا ادب ترقی پسند ، مزاحمتی اور باغیانہ کہلایا ۔

ان میں سے بہت سے عظیم قلمکاروں پر مقدمات بھی بنے انہیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی ، یہاں تک کہ ان کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں ۔ مگر باوجود ان صعوبتوں کے حق اور سچ کے بیان کرنے میں پیچھے نہ ہٹے بلکہ ان کے قدم آگے ہی آگے بڑھے اور یوں ہم سب کے لئے رول ماڈل اور مشعل راہ بنے ۔

کوئی بھی فنکار خواہ وہ میوزیشن ، ڈرامہ آرٹسٹ ، گلوکار ، شاعر ،کالم نگار ، افسانہ نگار، ناول نگار وغیرہ ہو ،امن اور محبت کے سفیر ہوتے ہیں ، چونکہ عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لئے بھی ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے فرائض دیانت داری سے اداکریں گے ۔

موجود ہ دور میں کچھ وہی ماضی کی روش چل رہی ہے ۔ اگر کسی مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دلائی جائے تو عموما اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کر یا ہٹانے کے لئے اسلام دشمن ، ملک دشمن ، غدار جیسے سنگین الزامات و القابات سے نوازا جاتا ہے ۔

پھر اگر اخبارات کی بات کی جائے تو وہ اس قسم کے ہیں کہ ان پر سموسے رکھ کر بھی نہیں کھائے جاسکتے اس قدر سیاہ ہوچکے ہیں ۔ البتہ انہیں کچن کی الماریوں میں ضرور رکھا جاسکتا ہے یا کوڑیوں کے بھاو ، دیئے جاسکتے ہیں ۔

بہت سے کالم نگاروں کا مخصوص نظریات اور رحجانات کی طرف میلان ہوتا ہے اور اسی کے تحت لکھتے ہیں ۔ ان کی اپنی سیاسی مذہبی وابستگیاں ہوتیں ہیں کچھ تو سرکار کے لئے مدح سرائی کرتے ہیں تو کچھ اپوزیشن کے حق میں قلم کے قلم سیاہ کئے جاتے ہیں ، یوں عوام الناس کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ عوام اصل چہرہ پہچاننے سے قاصر ہوتے ہیں ان میں اتنی تعلیم اور حقائق کے جاننے کا شعور نہیں ہوتا پھرسنی سنائی باتوں پر ایمان لانے والوں کی بھی اکثریت ہے ۔ من گھڑت قصے کہانیاں روایات واقعات سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور یوں اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لئے بھی انہیں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

آج کے زمانے کا ادیب بدقسمتی سے انسانیت کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنی ان وابستگیوں کے بارے میں پہلے سوچتا ہے جس سے اس کا اپنا مفاد یا عقیدت جڑی ہوگی ، ایک عرصے تک کشمیر اور انڈیا کو مفاد پرست سیاسی ٹولے مذہبی راہنماوں نے اپنے مفادات اور دولت کے لئے استعمال کیا جہاد کے نام پر ہزاروں روپیہ کمایا اور پھر ان مسائل پر اپنی سیاست بھی خوب چمکائی ۔

پھر ہمارے وہ فنکار جو اینکر پرسن کہلاتے ہیں اگر ان کی بات کی جائے تو یہ بھی سراسر عوام کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ پاکستان ٹی وی چینل انسان دوست نہیں ہیں ۔ دکھاوا ، دوغلی پالیسی ، ظاہر و باطن میں تضاد ڈرامے بازیاں ، جھوٹ پر مبنی جزباتی پروگرام ،اکیسویں صدی میں بھی جنوں بھوتوں پر جاہلانہ پروگرام محض ریٹنگ میں آگے آنے دوڑ کے لئے غیر معیار پروگرام کی تشکیل عام عوام کے لئے ذہنی دباو اور ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں ۔

بنیادی طور پر میڈیا معاشرے کے سدھار میں مثبت کردار ادا کرسکتا تھا ، مگر اسے بھی مذہبی تعصب ، لسانی ، علاقائی جھگڑوں کی نذر کر دیا گیا ۔ قوم اس وقت شدید قسم کے مذہبی تشنج میں مبتلا ہے ۔ جس سے بہت سے ادیب بھی متاثر ہیں ۔

آٹے میں نمک کے برابر چند سچے فنکار موجود ہیں جو درد دل پوری نیت اور خلوص سے حقائق بیان کرتے ہیں ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ کسی خاص طبقے یا فرقے کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ بحثیت مجموعی جسے بھی ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہو اس کے حق میں ببانگ دہل آواز اٹھاتے ہیں ۔ یوں اپنے قلم کی حرمت اور فن کی قدر کا پاس رکھتے ہیں ۔

Maryam Samar
About the Author: Maryam Samar Read More Articles by Maryam Samar: 3 Articles with 1640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.