خط بنام انسانیت

 شروع اپنے نام سے کہ میں جو بڑا مہربان اور با ر بار رحم کرنے والا ہوں ۔
انسانیت پر سلامتی ہو ۔!
اے تمام مذاہب کے ماننے اور نہ ماننے والو! آگاہ رہو کہ میں صرف مسلمانوں کاہی نہیں تمام انسانوں کا رب ہو ں۔
اس سے قبل بھی چند خطوط ارسال کر چکا ہوں ، کہ تم اسے بار بار پڑھو اور سمجھو ، آغاز کے جن خطو ط کو تم سمجھ نہ سکے مزید آسان کرکے ایک آخری خط میری طرف سے بھیجا گیا ۔ مگر تم نے جانتے بوجھتے ہوئے غلط تشریحا ت کیں ،کمزور مخلوق پر مظالم کے پہاڑ توڑے ۔ تمہیں بار بار یہی نصیحت کی کہ میرا تقوی اختیار کرو ، کسی سے مت ڈرو اور بتوں کی پوجا چھوڑ دو ۔ مگر تم نے ان باتوں پر ذرا برابر کان نہ دھرا ۔ ایک بت کی بجائے کئی بت بنا ڈالے شخصیت پرستی بزرگ پرستی کو اپنا شعار بنایااور ایک دوسرے پر لعنت ڈالنا برا بھلا کہنا گالیاں دینا اپنا شیوہ ، خود کو ذات پات حسب نسب میں تقسیم کرتے اور فخر وتکبر کرتے ہو خود کو نجات یافتہ اور دوسروں کو جہنمی اور کافر قرار دے کر جنت کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہو گویا کہ خود خدا بن بیٹھے ۔
ہاں مجھے یہ حق تھا کہ میں ایسا کہتا اس لئے کہ اگر کوئی جانوروں والی خصلتیں اپناتا ہے تو اسے جانور سے ہی تشبہہ دی جاتی ہے اگر کوئی گالیاں بکتا اور گندی زبان استعمال کرتا ہے تو اس سے بھی سخت کلامی سے ہی نبٹا جاتا ہے ہاں مگر بتاو تو سہی کہ تمہیں یہ حق کب دیا کہ تم کسی کو بھی برا بھلا کہو ان کی اس قدر بے عزتی اور لعن طعن کرو کہ وہ پھر مجھ سے ہی متنفر ہوجائیں ۔
کیسے کیسے رسم و رواج دین میں میں داخل کئے اور انہیں ادا کرنے کو ثواب اور میری خوشنودی قرار دیا ، مجھے بھلا ان خرافات سے کیا دلچسپی ہے ۔
بھلا مجھے بتاو تو سہی کہ اپنے سابقہ خطوں میں سے کسی ایک خط میں بھی میں نے ایسا کوئی حکم جاری کیا تھا کہ تم ایسا کرو ؟
اور کان کھول کے سنو
کسی نے خدائی کا دعوی کیایا نبوت کا تم نے اسے بھی برداشت نہ کیا ۔ کیسی عجیب بات ہے ۔؟ تمہاری نظرمیں میری کیا اہمیت اور کیا حیثیت ہے ۔ ؟تم نے تحفظ کے دعوے کئے ۔ کیا میں اپنے دین کی حفاظت نہیں کر سکتا ؟ کیا میں نے واضح نہیں کہا کہ میں ایسے دعوے کرنے والوں کے لئے کافی ہوں کہ اگر کوئی جھوٹا ہو تومیری پکڑ سے کیسے بچ سکتا ہے ، کچھ تو واضح کرو کہ کوئی اگر خود کو مجھ سے منسوب کرتا ہے تو تمہارا کیا جاتا ہے ۔ کیا تم میرے اندر برائیوں کو پاتے ہو یا میری خوبیوں سے گھبراتے ہو ۔ میرے ننانوے نام کی خصوصیات اگر کسی انسان میں پاتے ہو تو کیا یہ برائی ہوئی یا اچھائی ۔ میں رحیم ہوں کریم ہوں غفور ہوں شکور ہوں مالک ہوں مصور ہوں ، میں تو چاہتا ہوں کہ یہ سب خوبیاں تم میں بھی موجود ہوں ۔ مگر تم تو بس خالی خولی دعوے اور دکھاوے کرتے ہو ۔ جس سے میں سخت بیزار ہوں ۔
تم خود تو اتنا نہ کر سکے کہ اخلاقی برائیوں سے نجات پاتے اس کے برعکس ظلم اور جبر کی وہ راہ دکھائی کہ انسانیت بھی اس پر شرمائی ، اور پھر میرا نام لے کر مجھی کو بدنام کرتے ہو ۔ میری توھین تو تم کرتے ہو کہ میرے سات سو حکموں کو ٹالتے ہو اور دکھاوے کی محبت جتاتے ہو معصوموں پر توھین کے الزام لگاتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو ۔ میری محبت کو مشروط کیوں کرتے ہو اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو اور اسے توھین نہیں سمجھتے کیا ہی عجیب یہ بات ہے ۔ کیا خالی محبت کا دعوی کرنا بھی محبت کہلاتی ہے جبکہ تمہارے اعمال میں اس کے برعکس پاتا ہوں ۔
آج مجھے تم سے بہت سے سوال اور ان کے جواب طلب کرنے ہیں ۔ ہاں بتاوں تو سہی کیا اس بات کا جواب ہے تمہارے پاس کہ میں نے جو تمہیں کہا کہ تم میری اصطلاحات کو استعمال کرنے سے دوسروں کو روکو ۔ تم خود تو ان کا ورد کرنے سے رکے رہے اور جو دن رات مجھے یاد کرتے میرے نام کا دم بھرتے تم انہیں روکتے ہو کوئی مجھے برا بھلا کہے میرے بھیجے دیگر پیامبر کو اچھا نہ سمجھے یا ان کی توھین کرے تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ کسی کے کہنے سے ایسا ممکن ہے ۔ کیا ہی تمہاری بیوقوفی اور نادانی ہے۔ تمہیں کس نے کہا کہ تم کسی کو بھی منافق ذندیق اور مرتد کے الزامات لگا کر قتل کرنے کے احکامات صادر کرو ، انہیں روکو کہ وہ اﷲ اکبر نہ کہیں ، سبحان اﷲ نہ کہیں بسم اﷲ کہنے سے رک جائیں ۔ سابقہ خطوط میں سے کسی ایک خط کا حوالہ پیش کرو ۔ تمہاری اپنی زبانوں پر تو یہ الفاظ جاری نہ ہوسکے ۔ اور تم دوسروں کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ دل سے ایسا نہیں کہتے بلکہ زبان سے ان الفاظ کو دہرا کر منافقت کرتے ہیں ۔ یہ دل کا حال تم نے کیسے جانا ۔؟ دلوں کے بھید تو میں جانتا ہوں ۔ یہ علم کب سے میں نے تمہیں سونپا ۔؟ مجھے ایسا تو یاد نہیں پڑتا ۔ ہاں اگر تمہیں یاد ہو تو مجھے بھی بتلاو ۔ میں نے کب اپنی مسندتمہارے حوالے کی کہ تم اسے اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قبضہ جمابیٹھو ۔کب کہا کہ مذہبی اصطلاحات کے کاپی رائیٹ میں نے تمہارے حوالے کر دیئے ہیں ؟
ٓٓاور یہ کیا تم نے میرے دین کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ دین کے تحفظ کے نام پر انسانی جانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے ہو ، کیا تمہیں میرا ذرا بھی خوف نہیں ۔ تم میرا نہیں اپنا خوف میرے بندوں کے دلوں میں بٹھاتے ہو ۔ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہو کہ پھر کہتا ہوں یاد رکھو میں اپنے دین کی حفاظت تم سے بہتر کر سکتا ہو ں میرے بھیجے گئے سب دین زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے یہ دائمی ہیں ۔ تم فانی ہو تم نہیں رہو گے ۔یاد رکھو حفاظت عارضی چیز کی ہوتی ہے مستقل رہنے والی کی نہیں ۔ اس لئے اپنے مفادات کے لئے میرے ، میرے دین کی حفاظت اور میرے بھیجے گئے فرستادہ کی حفاظت کی فکر کرنا چھوڑ دو ۔
کیا کسی کی منافقت کے فیصلے کا اختیار تمہیں دے رکھا ہے ۔ بتاو تو سہی کون سا اختیار میں نے تمہیں دیا ہے ، تم اپنے اعمال پر تو ایک نظر ڈالو ، اورد ل پر ہاتھ رکھ کر بتاو کہ وہ تمام امرو نواہی کہ جن کا حکم دیا گیا ہے اس پر کس حد تک کاربند ہو ۔ کیا جھوٹ سے بکلی نفرت کرتے ہو ۔ کیا سادہ زندگی گزارتے ہو کیا عبادت کے لئے وقت نکالتے ہو کیا ذکر الہی کرتے ہو کیا عورتوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہو ۔
ہاں عورتوں سے یاد آیا کہ یہ کیا تم عورتوں سے سلوک اور رویہ رکھتے ہو کہ ان کی زندگی اجیرن کرتے ہو ۔ کب کہا کہ ان پر اس قدر سختی کرو اور ا نہیں پابندکرو کہ انہیں گھروں میں ہی قید کر دو برقعے کے نام پر ان سے ان کی شناخت بھی چھین لو ، انہیں دنیا سے بالکل لاتعلق اور اور کاٹ کے رکھ دو ۔ کیسے کیسے ظلم تم نے میرے نام پر ان بچاری معصوم مخلوق پر کیا ، میں نے انہیں تمہارے لئے بنایا تاکہ تم ان سے راحت اور تسکین کا سامان پاو اور جواب میں تم بھی ان سے بہتر حسن سلوک کرو مگر تم نے تو انہیں کھلونا ہی سمجھ لیا ، انہیں ہر قسم کی پابندیوں میں جکڑ کر ان سے جینے کا حق چھیننے کا حکم کب تمہیں دیا ۔ میں تمہیں صاف صاف کہتا ہوں کہ عورتوں کے معاملے میں تم نے ان پر سراسر ظلم روا رکھا ، میں نے ایسا کبھی نہ چاہا جیسا تم نے کیا ۔ انہیں اپنی غلامی سے آزاد کرو ۔ انہیں بھی جینے کا حق دو ۔ یہ تو آبگینے ہیں ان کی حفاظت کرو نہ کہ انہیں توڑ کے رکھ دو ۔ یادرکھو عورتوں سے معاملہ کرنے میں تم سے ضرور پوچھو ں گا ۔ اس لئے بار بار تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سب سے بہتر سلوک کر و یہی تمہاری حوریں ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ فرضی حوروں کا تصور لئے تم ناحق بے گناہوں کا خون کرتے ہو ان کا کوئی جسمانی وجود نہیں ہے ۔ اس لئے اس بات کو سمجھو اور جانو
اگر تم مجھے اپنے سے منسوب کرنا چاہتے ہو تو تمہیں ان احکامات کی پیروی کرنا ہوگی جو انسانیت کا سر فخر سے بلند کرے نہ یہ تم میرا نام لے کر مجھے بدنام کرو کہ میں نے ایسا کہا ۔ میں نے ہرگز ایسا نہ کہا جیسا تم نے سمجھا ۔ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا تمہیں سیکھنا ہوگا ۔ ورنہ تم دنیا میں بھی اور آخرت میں ناکام ٹہرو گے ۔ اور میرا غضب تب تم پر یقینا نازل ہوگا ۔
میں نے تو یہ چاہاتھا کہ تم اپنا آپ سنوارتے اپنی ہی طرح کے دوسرے انسانوں سے ہمدردی اور پیار کا تعلق استوار کرتے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمہاری بہت سی نیکیاں جو تمہارے نزدیک نیکی میں شمار ہوتی ہیں میرے نزدیک وہ محض تمہارے نفس کی خواہشات ہیں جن کی تم پیروی کرتے ہو ۔ ان پیری مریدی کے چکروں سے نکل کرخود کی تلاش کرو ، ان عارضی بتوں کو چھوڑ کر میری طرف رجوع کرو کہ میں تمہیں ان بتوں سے اور ان سے جو خود خدا بن بیٹھے ہیں اور میرے نام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں نجات دلاوں گا ۔ لیکن اگر تم نجات کے طالب ہی نہیں تو کیسے بخشش اور جنت کی آس لگائے بیٹھے ہو ۔
اپنے اعمال پر فخر کرنا چھوڑ دو ، میری رحمت طلب کرو کہ جنت کے حصول کا یہی زیعہ ہے ۔ میں چاہوں تو اپنی رحمت سے تمہیں معاف کر سکتا ہوں خواہ تم مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی مجھے اس سے سروکار نہیں ۔ہاں نیکی اور تقوی جو بھی اختیار کرتا ہے میری رحمت سے جنت کا حقدار قرار پاتا ہے ۔ اس لئے مجھے صرف مسلمانوں کا خدا مت سمجھو مجھے تم میں سے ہر وہ انسان پیارا ہے جو اپنے ہی جیسے دوسرے انسان سے مذہب عقیدے اور فرقوں سے بالاتر ہوکر حسن سلوک کرتا ہے ۔
تم با ربار گناہ کرتے ہو میں تمہیں بار بار معاف کرتا ہو ں تم میرے نام پر تجارت کرتے ہو میں پھر بھی خاموش رہتا ہوں ۔ مگر جب تم میرے اور میرے پیاروں کے نام پر قتل کرتے ہو بے گناہوں کا ناحق خون کرتے ہو تو میرا غضب جوش میں آتا ہے ۔ تب میرا عذاب تمہیں پکڑتا ہے ۔ان پر بھی جو ظلم کو دیکھتے ہیں اور بولتے نہیں خاموش رہتے ہیں ، جن کی زبانوں پر تالے آنکھوں پر پردے اور کانوں کی شنووائی سے محروم ہیں ۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں وہ گونگے ہیں بہرے ہیں اندھے ہیں اور ظلم دیکھ کر روکنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور میرے بھیجے گئے عذاب کو الٹا تم ہی ظلم سے تعبیر کرتے ہو اس وقت کیوں بھول جاتے ہو کہ تم نے میری بنائی اس کائنات میں ظلم و بربریت کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں ۔
میں نے اپنے پچھلے خط میں ذکر کیا تھا کہ جب میں تمہاری تخلیق کرنا چاہتا تھا تمہیں زمین میں خلافت کے منصب پر فائز کرنا چاہتا تھا تو فرشتوں نے مجھے اس بات سے روکا اور کہا کہ میں ایسی تخلیق سے باز رہوں کہ جو زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے گی ۔
تو کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ میں نے تمہاری تخلیق میں سراسر غلطی کی اور اس غلطی کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو میرے نام لیو ہیں ۔ جو شریف النفس ہیں جو برائی سے روکتے اور اچھائی کی تلقین کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے بتاو تو سہی کہ کیا یہ عمل جو تم کرتے ہو جبکہ ان کے بارے میں کھول کھول کر میں تحریر کر چکا ہو اس پر عمل نہیں کرتے تو اس میں کس کی غلطی ہے تم جان بوجھ کر ظلم کرتے اور ظالم کا ساتھ دیتے ہو ۔ تم میں سے کتنے ہیں جو راست باز ہیں حق سچ کی بات کرتے ہیں انسانیت کا احترام کرتے ہیں ۔؟
اب میں تمہیں کیا کیا تحریر کروں اور بار بار حوالہ دوں ان باتوں کا جو اس سے پہلے میں بارہا تم سے کر چکا ۔ آخری بھیجے گئے خطوط کو کتابی صورت میں جمع کیا گیا ، تاکہ تم اسے بار بار دیکھو پڑھو اور سمجھو مگر تم نے کب اسے پڑھا اور سمجھا ۔ اور جنہوں نے پڑھا اور سمجھا تم نے اسے ہی حق جانا ،
ذرا بتاو تو سہی کہ کس خط میں یہ تحریر کیا کہ ایک جیتا جاگتا گوشت پوست سے بنا انسان اور جس کی ہڈیاں مرنے کے بعد گل سڑ جاتی ہیں ۔ کیڑ ے اس کی خوراک بن جاتے ہیں اس کا جسم ختم ہوجاتا ہے اور روح میرے حضور حاضری دیتی ہے ۔ آسمان پر دو ہزار سال تک زندہ رہ سکتا ہے ۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار نیک بندے تمہاری طرف آچکے ہیں ۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاو کہ انہوں نے تمہیں جو تعلیم دی جو سکھایا جو بتلایا اس پر تم نے کتنا عمل کیا کہ اب تم منتظر ہو آسمان سے ایک ایسا شخص کے جو مر چکا بالکل اسی طرح جیسا کہ دوسرے انسان ۔تمہارا نجات دہندہ بن کر دوبارہ اس دنیا میں آئے ۔ جبکہ تم خود اپنی نجات کے طالب نہیں ۔
کیا تم نہیں جانتے کہ ہر ایک انسان نے اپنی عمر پائی میری طرف رفع کیا ۔ تم نے نبیوں کی شریعت کی عمر کو ان کی طبعی عمر کیسے جان لیا اور مان لیا کیوں تم شک میں مبتلا ہو کیوں تم ایک انسان کو دوہزار سال سے میرا شریک ٹہراتے ہو ۔ کیوں عقل سے کام نہیں لیتے ۔ کیوں اس بات کو نہیں سمجھتے کہ میرے بھیجے گئے پیغام کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔تاکہ میرے بھیجے گئے پیغٖام کی غلط تشریح کرکے اپنا کاروبار چمکایا جائے
تم جانتے ہو کہ میں نے تم سب کی طرف اپنا ایک برگزیدہ بندہ بھیجا کہ وہ تمہیں نیکی کی تعلیم دے اور برائی سے روکے افسوس کہ اس پر چند لوگ ہی ایمان لائے پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اب تمام قوموں کی طرف ایک ہی اپنا نمائندہ بھیجوں گا جو میرے بندے عیسی کی خصوصیات اور اس کے زمانے کے حالات سے مطابقت رکھے گا ، اس لئے تم سب اس کے انتظار میں رہے ، تم یہ سمجھے کہ ایلیا ، یسوع ، عیسی اور مہدی الگ الگ آسمان سے اتریں گے ، تو بھلا بتاو کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔؟اب یادرکھو اور کان کھول کے سنو کہ اب کوئی نہیں آئے گا نہ آسمان سے نہ زمین سے ۔ تم اب تک بھیجے گئے نبیوں کو انکار کرتے آئے ہو تو کیا اب نہ ایسا کرو گے ۔ اس لئے کسی کے بھی آنے کا انتظار چھوڑ دو ۔ جو کھلی کھلی تعلیم تمہیں دی جاچکی بس اس پر عمل کرو ۔ رسم و رواج اور بت پرستی کے طوق گلے سے اتار پھینکو کہ اسی میں تمہاری نجات ہے ۔
اور ہاں چلتے چلتے ایک آخری بات اگرچہ کہنے کو بہت کچھ ہے ، مگر خط کی طوالت کا خوف دامن گیر ہے ۔ مجھے یہ بتاو کہ کب میں نے یہ کہا کہ گرجا مندر مسجد اور دیگر نام سے میرے لئے بنائے گئے گھروں کی تعزین و آرائش کرو اسے ایسا پرکشش بناو کہ ایک دوسرے پر اس کی دھاک بٹھا و۔ان پر سونے کی ملمع کاری کرو مہنگے ترین کپڑوں سے انہیں سجاو کیا تمہیں میں نے سادگی کی تعلیم نہیں دی تھی ۔ پھر میں خود کیونکر سادگی کو پسند نہ کروں گا ۔ میرے گھر کے نام پر لاکھوں کا چندہ اکھٹا کرنا اور غریب کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا میں نے تو ایسا اپنے کبھی کسی خط میں ذکر نہ کیا ۔ اگر تم مجھے میرے شاندار گھر بنا کر مرعوب کرنا چاہتے ہو تو مجھے اس کی کچھ حاجت نہیں ۔ اور اگر تم اس سے ان کو جنہیں تم غیر سمجھتے ہو دھاک بٹھانا چاہتے ہو تو معاف کرنا مجھے اس سے دور رکھو ۔ اور یقینا میں اس سے دور ہوں ۔خبر دار رہو کہ مجھے ایسی نمود ونمائش اور مہنگے گھروں کی ہرگز ضرورت نہیں ۔ اسے میرے نام پر بنانا بند کرو کہ میں اس سے سخت بیزار ہوں ۔

خط کی طوالت کے خوف سے اب اسے بند کرتا ہوں ۔ اب بھی وقت ہے سنمبھل جاو کہ یہ وقت جو گزر گیا پھر نہ آئے گا اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے گا ۔ قصہ مختصر کہ میری یاد کو اپنے دل میں جگہ دو عارضی بتوں کو جو تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچائیں گے دل سے نکال پھینکو ، میں نے تمہیں آزاد پیدا کیا غلام نہیں ۔ پھر تمہیں کیوں کسی کی غلامی کی حاجت ہے ۔ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرو سب انسانوں سے پیار کرو مخلوق سے ہمدردی کرو کہ یہی میرے ہر خط کا پیغا م ہے ۔ سردست اس کو اتنا ہی جانو ۔ میں زیادہ راضی اس
بات سے ہوں گا کہ میرے تمام خطو ط کا بغور مطالعہ کرو چاہو تو قرآن پڑھو کہ اس میں پچھلے لکھے تمام خطوط کو جمع کر دیا گیا ہے ۔ اس امید پر کہ تم پر میری باتوں کا خاطر خواہ اچھا اثر پڑے گا اجازت چاہوں گا ۔ ہاں مجھ سے ہمکلام رہو کہ میں اب بھی اس سے کلام کرتا اور جواب دیتا ہوں جو مجھے پکارتا ہے ۔ میں تمہاری پکار کا بھی یقینا جواب دوں گا ۔ پس اگر تم مجھی پر بھروسہ رکھو تو یقینا دنیا کی اور آخرت کی نجات تمہارا مقدر ہے ۔ میں اور کیا چاہتا ہوں کہ یہی کہ بنی نوع انسان سے ہمدردی کرو ۔
تم پر سلامتی ہو
تمہارا اپناحقیقی غمگسار دوست
اﷲ میاں

Maryam Samar
About the Author: Maryam Samar Read More Articles by Maryam Samar: 3 Articles with 1901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.