ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔۔کھلی بے حیائی

قرآن کے فلسفے کے مطابق جس امر سے منع فرمایا گیا اس کی بابت کہا گیا "لا تقربا "قریب بھی مت جاؤ۔یعنی اس سے اجتناب کا بہترین طریقہ جو سکھایا گیا وہ یہی ہے کہ قریب بھی مت جاؤ اگر قریب گئے تو کر بھی گذرو گے۔دور رہو گے تو اس گناہ سے بچنے میں سہولت رہے گی۔اگر اس فلسفہ کو مدنظر رکھ کر معاملات کو ترتیب دیا جائے تو کردار کو شفاف اور سیرت کو نکھارا جا سکتا ہے اور گناہوں کی آلائشوں سے دامن کو داغدار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور جبکہ یہ آسانی خود پروردگار کی طرف سے تفویض کردہ ہے تو اس میں منفعت ہی منفعت ہے۔کمزور اور ذہنی غلام قوموں کے اوپر سب سے بڑے عذاب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ان کی سماجی،سیاسی،ثقافتی،نفسیاتی،تمدنی اور مذہبی قدریں طاقتور اور غالب قوموں کے زیر اثر آ کر اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔اور ان کی صورت حقیقی مسخ ہو جاتی ہے۔وہ اپنی دلکشی اور رعنائی سے ہاتھ دھو کر بد تہذیبی کے بد نما دھبوں سے اپنے خال و خد کو بگاڑ لیتی ہیں۔ وہ اپنی ساکھ گنوا کر غلامی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ وہ ان بیگانی روایات،رسومات اور تہوا روں کو شعوری و غیر شعوری طور پر ماننا اور منانا شروع کر دیتی ہیں اور ایسا کرنا اپنی تہذیب کو اپنے ہاتھوں زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔جو کسی بھی باشعور قوم کو زیب نہیں دیتا۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ من حیث القوم ہمارا اپنا حال بھی ایسی صورتحال سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔مغربی اورہندوانہ تہذیب نے ہم سب کو اور بالخصوص ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کر دیا ہے۔ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون مسلم کی حرارت وفشار کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آج دل خون کے آنسو روتا ہے جب نوجوان نسل گمراہ ثقافت کی غلیظ پیداوار کو اپنا آئیڈیل بتاتے ہیں۔ان کے مکر و فریب کے بُنے ہوئے مکروہ جال میں پھنس کر جذبہ قومیت و دو قومی نظریہ کی اساس سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اور ہم سب کی یہ مجموعی صورتحال میرزا غالبؔ کے اس سوال کا جواب ہے جو انہوں نے کچھ یوں پوچھا تھا
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

ہم الحمدﷲ دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے دنیا کے لئے ہم ناقابل تسخیر ہیں۔بلاشبہ یہ بات باعث تسکین و افتخار ہے لیکن یہ بات کون سوچے گا کہ اپنے فوجی بھائیوں کی چاک و چوبندتعیناتی سے ہم نے جغرافیائی سرحدوں کو تو ناقابل عبور بنا دیا ہے لیکن ہماری بنیادی نظریاتی حدیں بری طرح سے دشمن کی ناپاک منصوبہ بندی کا شکار ہو گئی ہیں اور یہ نقصان تا حال ناقابل تلافی نظر آ رہا ہے۔ماں ، باپ اور استاد جیسی عظیم ہستیوں کے مقام احترام کو ایک دن میں مقید کرنے والے کھوکھلے سماج نے ویلنٹائن ڈے کے نام سے بے حیائی اور برائی کے وہ نشتر ہماری پیٹھ میں گھونپے ہیں کہ جس کے گھاؤ نے روح تک کو زخمی کر دیا ہے۔اور صد حیف کہ ہم اب بھی "کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا"کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کس نحوست کا نام ہے جس نے ہمارے پاکیزہ معاشرے کو آلودہ کر دیا ہے ذرا یہ دیکھتے ہیں اس کے بعد یہ سمجھنے میں ذرا برابر بھی دقت نہیں ہو گی کہ ہماری تہذیب و تربیت میں ا س غلاظت کی رتی بھر جگہ بھی نہیں بنتی۔اس حوالے سے عام طور پر بیان کی جانے والی کہانی تو مشہور زمانہ سینٹ ویلنٹائن کی ہے اور اس کا آغاز رومی تہذیب سے ہوا۔قدیم روم میں 14فروری شادیوں اور عورتوں کی مخصوص دیوی "جیونو" کادن تھا۔اس دن اسی مماثلت سے عورتوں کے نام پرچیوں پر لکھ کر قرعہ اندازی کی جاتی اور تہوار میں موجود مردوں کے نام وہ قرعے نکالے جاتے۔ایک اور روایت کے مطابق رومی بادشاہ "کلوڈئیس" نے فوج میں نوجوانوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے شادی کرنے پر پابندی عائد کر دی تاہم ایک مقامی پادری سینٹ ویلنٹائن بادشاہ سے چھپ کر شادیاں کرواتا۔بادشاہ کو اس حقیقت کا علم ہوا تو اس نے اسے قید کروا دیاوہاں جیلر کی بیٹی سے اس کا معاشقہ شروع ہوا۔ بعد ازاں14 فروری 279ء کو اسے موت کی سزا دے دی گئی۔داستان لکھنے والوں نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اس میں رومانویت کے عناصر کی کچھ یوں آمیزش کی کہ یہ واقعہ محبت کی اعلی مثال میں شمار ہونے لگا۔اسی برس مشہور زمانہ شاعر جیفری چوسر نے شاہ انگلستان رچرڈ دوئم کی بوہیمیا کی شہزادی این سے منگنی کو ایک برس مکمل ہونے پر نظم تحریر کی جس میں ویلنٹائن ڈے کو رومانویت سے منسوب کیا گیا۔تاریخی دستاویزات میں اس دن اور محبت کے مابین تعلق کی قدیم مماثلت فقط اتنی سی ہے۔

حضرت ابو سعید خذریؓ سے مروی ہے کہ محبوبؐ نے ارشاد فرمایا۔"تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں (یہود و نصاری) کی قدم بقدم پیروی کرو گے۔اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔محبوبؐ سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپؐ کی مراد یہود و نصاری ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا پھراور کون؟"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی اساس اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسی تمام خرافات کو حکومتی سطح پر روکا جاناچاہیے اور میڈیا سے بھی التماس ہے کہ ا سطرح کے ایونٹ کو پروموٹ کرنے کی بجائے اس کے خلاف شعوری مہم چلائی جائے تا کہ نو جوانوں کو مزید بھٹکنے سے بچایا جا سکے جو یقیناً آج کے اس پر فتن دور میں جہاد سے کم نہیں ہو گا اورہمارے لئے اپنی اولادوں کی اسلامی نظریاتی نہج پر تربیت کرنا ،اسلامی شعار سے آگاہ کرنا،دین اوردینی مسائل کی طرف انکی رغبت بڑھانااور انہیں خرافات ،توہمات ،بے راہ روی اورلغویات سے بچانا اولین ذمہ داری ہے اور اس سے رو گردانی دنیا و آخرت میں باعث ادبار و ماندگی ہے۔آج ضرورت اس امر کو سمجھنے کی ہے کہ اگر کسی باطل کے ساتھ ذیادہ لوگ وابستہ ہو جائیں تو کثرت ہجوم کی وجہ سے باطل کو حق نہیں گردانا جا سکتا۔عزتوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عقل سلیم اور چشم بینا عطا ہونے کی دعا ہے۔

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 34793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.