آپ رحمتہ اللہ علیہ شریعت و طریقت میں کامل اور علوم
رسالت کے وارث تھے جس کی وجہ سے عوام نے آپ کو امیرالمومنین کا خطاب دیا
تھا اور علوم ظاہری و باطنی پر آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی ۔ بہت سے مشائخین
آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم نے آپ کو سماعت حدیث
کی دعوت دی اور جب آپ وہاں پہنچ گئے تو فرمایا کہ مجھ کو تو صرف آپ کے
اخلاق کا امتحان مقصود تھا ورنہ در حقیقت کسی کام کی غرض سے نہیں بلایا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ پیدائشی متقی تھے حتی کہ ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ
کی والدہ نے ایام حمل میں ہمسایہ کی کوئی چیز بلا اجازت منہ پر رکھ لی تو
آپ نے پیٹ میں تڑپنا شروع کر دیا اور جب تک انہوں نے ہمسایہ سے معذرت طلب
نہ کی آپ کا اضطرار ختم نہ ہوا اور آپ کے تائب ہونے کاواقعہ یہ ہے کہ آپ
ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے الٹا پاؤں مسجد میں رکھ دیا جس کے
بعد ہی یہ ندا آئی کہ اے ثوری مسجد کے حق میں یہ گستاخی اچھی نہیں بس اسی
دن سے آپ کا نام ثوری پڑگیا بہر حال یہ ندا سن کر خوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ
غش کھا کر گر پڑے اور ہوش آنے کے بعد اپنے منہ پر طمانچے لگاتے ہوئے کہنے
لگے کہ بے ادبی کی ایسی سزا ملی کہ میرا نام ہی دفتر انسانیت سے خارج کر
دیا گیا۔ لہذا اے نفس ۔ اب ایسی بے ادبی کی جرات کبھی نہ کرنا۔
ایک مرتبہ کسی کے کھیت میں آپ کا قدم پڑ گیا تو فورا ندا آئی کہ اے ثور
دیکھ بھال کر قدم رکھ ۔ حضرت مصنف فرماتے ہیں کہ جس پر خدا کا اتنا بڑا کرم
ہو کہ صرف ایک قدم غلط پڑنے پر توبیخ فرمائی گئی تو اس کی باطنی کیفیت کیا
ہو گی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے جس قدر بھی اقوال سنے ان پر عمل پیرا رہا۔ اور آپ کا یہ
مقولہ تھا کہ محدثین کو زکوت ادا کرنی چاہئے یعنی دو سو احادیث میں سے کم
از کم پانچ احادیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ایک مرتبہ حالت نماز میں خلیفہ وقت نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر لیا تو آپ
نے فرمایا کہ ایسی نماز قطعی بے حقیقت ہے اور قیامت میں تیری نماز گیند کی
طرح تیرے منہ پر مار دی جائے گی خلیفہ نے جھڑک کر کہا کہ خاموش رہو آپ نے
فرمایا کہ حق گوئی میں خموشی کیسی یہ سنتے ہی خلیفہ نے غضب ناک ہو کر حکم
دیا کہ اس کو پھانسی دے دو اور دوسرے دن ٹھیک پھانسی کے وقت آپ ایک بزرگ
حضرت سفیان عیینہ کے زانو پر سر رکھے ہوئے پیر پھلائے آنکھیں بند کئے لیٹے
ہوئے تھے اور لوگوں نے کہا کہ پھانسی کا وقت قریب ہے تو فرمایا کہ مجھے اس
کا ذرہ برابر خوف نہیں لیکن حق گوئی سے کبھی باز نہ آؤں گا پھر اللہ تعالی
سے عرض کیا کہ اے اللہ ! خلیفہ مجھے بے قصور پھانسی دینا چاہتا ہے اس لئے
اس کو بدلہ ملنا چاہیے۔ اس دعا کے ساتھ ہی ایک دھماکے کے ساتھ ہی زمین شق
ہوئی اور خلیفہ وزراء سمیت اس میں دھنستا چلا گیا اور جب لوگوں نے عرض کیا
کہ اتنی زود اثر دعا ہم نے کبھی نہیں دیکھی تو فرمایا کہ میرے اظہار حق کی
وجہ سے دعا زود اثر بن گئی پھر جب دوسرا خلیفہ پہلے خلیفہ کا قائم مقام ہوا
تو آپ کے عقیدت مندوں میں رہا۔ چنانچہ جب آپ بیمار ہوئے تو بغرض علاج اس نے
ایک طبیب حاذق کو معالجہ کے لئے بھیجا لیکن وہ آتش پرست تھا اور اس نے آپ
کے قارورے کی جانچ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کا جگر خوف الہی سے پاش پاش ہو
چکا ہے اور اس کے ریزے پیشاب میں آ رہے ہیں پھر اس نے کہا کہ جس مذہب میں
ایسےایسے افراد ہوں وہ مذہب کبھی باطل نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر خلوص نیت سے
وہ مسلمان ہو گیا اور یہ واقعہ خلیفہ نے سنا تو کہا کہ میں نے تو طبیب کو
مریض کے پاس بھیجا تھا لیکن اب محسوس ہوا کہ مریض طبیب کے پاس پہنچ گیا۔
آپ عہد شباب میں ہی کبڑے ہو گئے تھے اور لوگوں کو بے حد اصرار پر بتایا کہ
مرتے دم میرے استاد نے فرمایا کہ میں نے ہدایت و عبادت میں پچاس سال صرف
کئے لیکن مجھے یہ حکم ملا کہ تو ہماری بارگاہ کے قابل نہیں ہے اور بعض نے
اسی واقعہ کو اس طرح تحریر کیا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ میرے تین اساتذہ
جو بہت زیادہ عابد و زاہد تھے ۔ موت سے قبل تینوں یہودی نصرانی اور آتش
پرست ہو گئے اور اس واقعہ سے متاثر ہو کر مجھ پر خوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ
میری کمر جھک گئی اور ہمہ وقت خدا سے سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہتا ہوں۔
کسی نے اشرفیوں کی دو تھیلیاں ارسال کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں یہ پیغام
بھیجا کہ چونکہ آپ میرے والد کے دوست ہیں اور اب وہ فوت ہو چکے ہیں لیکن ان
کی پاکیزہ کمائی میں سے یہ تھیلیاں ارسال خدمت ہیں۔ آپ ان کو اپنے اخراجات
کے لئے قبول فرما لیں لیکن آپ نے وہ تھیلیاں واپس کرتے ہوئےپیغام بھیجا کہ
تمہارے والد سے میرے تعلقات صرف دین کے لئے تھے نہ کہ دنیا کے لئے۔ اس
واقعہ کی اطلاع جب آپ کے صاجزادے کو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نادار
اور عیال دار ہوں اگر یہ رقم آپ مجھے دے دیتے تو میرے بہت کام نکل سکتے
تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں دینی تعلقات کو دنیاوی معاوضہ میں فروخت نہیں کر
سکتا۔ البتہ اگر وہ شخص خود تم کو دے دے تو تم خرچ کر سکتے ہو۔
آپ کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے اور ایک شخص نے جب آپ کی خدمت میں کوئی تخفہ
پیش کیا تو آپ نے قبول نہیں فرمایا اور جب اس شخص نے عرض کیا کہ آپ نے تو
کبھی مجھ کو کوئی نصیحت تک نہیں کی جو یہ سمجھ لیا جائے کہ میں اس کا
معاوضہ دے رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایاکہ میں نے تمہارے دوسرے مسلمان بھائیوں کو
تو راستہ دکھایا ہے اور اگر میں تمہارا تخفہ قبول کر لوں تو ہو سکتا ہے کہ
میرے قلب میں تمہاری رغبت پیدا ہو جائے اور اسی کا نام دنیا ہے۔ لہذا میں
خدا کے سوا کسی اور جانب نہیں ہونا چاہتا۔
آپ کو ایک شخص کے ہمراہ کسی رئیس کے محل کے نزدیک سے گزرے تو آپ کے ساتھ
والے شخص نے محل کو غور سے دیکھا ۔ آپ نے اس کو منع کرتے ہوئے فرمایا کہ
دولت مند تعمیر مکان میں بہت فضول خرچی سے کام لیتے ہیں اس لئے اس کا
دیکھنے والا بھی گناہگار ہو جاتا ہے۔
آپ اپنے ایک ہمسایہ کے جنازے میں شریک ہوئے تو اس وقت تمام لوگ مرحوم کی
تعریف کر رہے تھے لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ تو منافق تھا اگر مجھے پہلے سے
علم ہوتا تو میں جنازے میں کبھی شریک نہ ہوتا اور اس کی منافقت کی دلیل یہ
ہے کہ اہل دنیا اس کی تعریفں کر رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل دنیا سے
بہت گہرا تعلق تھا اور یہی چیز اس کی منافقت پر دلالت کرتی ہے ایک مرتبہ آپ
نے الٹا کرتہ پہن لیا اور جب لوگوں نے سیدھا کرنے کے لئے کہا تو فرمایا کہ
میں نے تو خدا کے لئے پہنا ہے پھر مخلوق کے کہنے سے کیسے سیدھا کر لوں۔
ایک نوجوان نے حج سے محروم رہ جانے پر سرد آہ کھینچی تو آپ نے فرمایا کہ
میں نے چار حج کیے ہیں اور ان کا اجر میں اس شرط پر تجھے دینے کو تیار ہوں
کہ توں اپنی آہ کا اجر مجھے دے دے چنانچہ جب اس نے شرط منظور کر لی تو آپ
نے خندہ پیشانی سے اپنے تمام حجوں کا ثواب اس کو منتقل کر دیا پھر آپ نے
خواب دیکھا کہ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے ایک آہ خرید کر وہ نفع حاصل کر
لیا ہے کہ اگر اس نفع کو اہل عرفات پر تقسیم کیا جائے تو سب مالا مال ہو
جائیں۔
ایک حمام میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک نو عمر حسین لڑکا وہاں موجود ہے آپ
نے لوگوں سے فرمایا کہ اس کو فورا یہاں سے نکال دو کیوں کہ عورت کے ہمراہ
تو صرف ایک ہی شیطان رہتا ہے لیکن نو خیزوحسین لڑکے کے ہمراہ اٹھارہ شیطان
ہوتے ہیں تاکہ دیکھنےوالے کے سامنے لڑکےکو آراستہ کرکے پیش کریں۔ (جاری) |