مساجد کی تعمیرات، اُن کی صفائی ستھرائی، اُن کی آبادی و
شادابی اور اُن کی طرف پیدل چل کر جانے کا بہت زیادہ ثواب قرآنِ مجید اور
احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ: ’’ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
ہے کہ: ’’جو شخص اﷲ تعالیٰ (کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے) کے لئے مسجد
بناتا ہے تو اﷲ تعالیٰ (بھی) اُس شخص کے لئے اُسی جیسا گھر جنت میں تیار
فرماتے ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں آتا ہے، نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ: ’’جو شخص اﷲ تعالیٰ (کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے) کے لئے مسجد
بناتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس شخص کے لئے اُس سے (بھی) زیادہ وسیع گھر تیار
فرماتے ہیں۔‘‘ ایک حدیث میں آتا ہے ، حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے مروی
ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اﷲ تعالیٰ
(کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے) کے لئے مسجد بناتا ہے، اگرچہ وہ پرندے کے
گھونسلے جتنی (بہت ہی چھوٹی) ہی کیوں نہ ہو،تو اﷲ تعالیٰ اُس شخص کے لئے
جنت میں گھر تیار فرماتے ہیں۔‘‘
حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک صحابی
سے یہ نقل کرتے ہیں کہ: ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں اپنے محلوں میں
مسجدیں تعمیر کرنے اور اُنہیں اچھی طرح بنانے اور اُنہیں پاک رکھنے کا حکم
دیتے تھے۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اِس بات کا حکم دیا کہ: ’’ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور
اُن کی صفائی کی جائے اور اُنہیں معطر رکھا جائے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ
عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’ایک عورت مسجد میں سے کوڑا وغیر ہ اُٹھایا کرتی
تھی، پھر اُس کا انتقال ہوگیا ، اور اُس کے دفن ہونے کی حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کو خبر نہ ہوئی ( جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو) آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مرجایا کرے توتم مجھے اُس کی خبر
کیا کرو!۔‘‘ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور
فرمایا کہ: ’’میں نے اُسے جنت میں دیکھا کہ وہ مسجد میں سے کوڑا وغیرہ
اُٹھا رہی ہے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ ہر جمعہ کے دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کو خوش بو کی دھونی
دیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں ایک مرتبہ نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ ہم نماز کے لئے (مسجد) جارہے تھے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم چھوٹے چھوٹے قدم رکھ رہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا : ’’تم جانتے ہو کہ میں کیوں چھوٹے چھوٹے قدم رکھ رہا ہوں؟۔‘‘
میں نے عرض کیا : ’’اﷲ اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا: ’’جب تک آدمی نماز کی کوشش میں لگا رہتا ہے وہ نماز ہی میں
شمار ہوتا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ’’میں ایسا اِس لئے کر رہا ہوں تاکہ نماز کی کوشش میں میرے قدم
زیادہ ہوجائیں۔‘‘حضرت ثابت رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ میں حضرت
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کے ساتھ (بصرہ کے قریب) ’’زاویہ‘‘ نامی بستی میں
چلا جارہا تھا کہ اتنے میں اُنہوں نے آذان کی آواز سنی تو آواز سنتے ہی
چھوٹے چھوٹے قدم رکھنے شروع کردیئے ، یہا ں تک میں (اُن کے ساتھ) مسجد میں
داخل ہوگیا۔ پھر فرمایا:’’ اے ثابت! کیا تم جانتے ہو کہ میں اِس طرح کیوں
چلا؟ ۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ اﷲ اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ حضرت
انس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’تاکہ نماز کی تلاش میں میرے قدم زیادہ
ہوجائیں۔‘‘قبیلہ بنو طے کے ایک صاحب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن
مسعود رضی اﷲ عنہما مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلے اور تیز تیز چلنے لگے ،
تو کسی نے اُن سے کہا کہ: ’’آپ تو اِس طرح چلنے سے منع فرماتے ہیں اور خود
اِس طرح چل رہے ہیں؟۔‘‘ اُنہوں نے فرمایا: ’’ میں چاہتا ہوں کہ مجھے نماز
کا ابتدائی کنارہ یعنی ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ مل جائے۔‘‘ (معجم کبیرللطبرانی)
حضرت سلمہ بن کہیل رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ: ’’حضرت ابن مسعود رضی اﷲ
عنہما نماز کے لئے تیزی سے چل رہے تھے ، کسی سے اُن سے اِس کی وجہ پوچھی تو
فرمایا: ’’جن چیزوں کی طرف تم تیزی سے چلتے ہو کیا اُن میں سے نماز اِس کی
سب سے زیادہ حق دار نہیں ہے؟۔‘‘ حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک مرتبہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ
اتنے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کچھ لوگوں کا شور سنا، جب آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پوری کرچکے تو فرمایا: ’’تمہیں کیا ہوا؟۔‘‘ اُن
لوگوں نے عرض کیاکہ: ’’ہم نماز کے لئے تیزی سے چل کر آرہے تھے۔‘‘ حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسا نہ کرو بلکہ آرام سے چلو اور جتنی نماز مل
جائے اُسے پڑھ لواور جتنی رہ جائے اُسے قضا کرلو!۔‘‘
حضرت حسن مجتبیٰ رضی اﷲ عنہ سے مسجد میں دوپہر کو آرام کرنے کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایاکہ: ’’میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کو
زمانہ خلافت میں مسجد میں دوپہر کو آرام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘(سنن
بیہقی)حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’ہم چند نوجوان حضورِا
قدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں رات کو مسجد میں سویا کرتے تھے۔‘‘امام
زہری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
کہ: ’’ جب کوئی آدمی زیادہ دیر تک مسجد میں بیٹھے تو اُس کے لئے کمر سیدھی
کرنے کے لئے لیٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ اِس طرح لیٹنے سے اُس کا
دِل نہیں اُکتائے گا۔‘‘ حضرت عطاء رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ: ’’حضرت یعلیٰ
بن اُمیہ رضی اﷲ عنہ کو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ، وہ
جب تھوڑی دیر کے لئے بھی مسجد میں بیٹھا کرتے تو اعتکاف کی نیت کرلیا کرتے
۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’جب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ
وسلم ’’خیبر‘‘ فتح کرچکے تو لوگ لہسن پر ٹوٹ پڑے اور اُسے خوب کھانے لگے ،
اِس پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو یہ بودار سبزی کھائے وہ ہرگز
ہماری مسجد کے قریب نہ آئے!۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ جمعہ
کا خطبہ دے رہے تھے تو آپؓ نے خطبہ میں فرمایا: ’’اے لوگو! تم یہ دو
بدبودار چیزیں پیاز اور لہسن کھاتے ہو، حالاں کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ
علیہ کو دیکھا ہے کہ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مسجد میں کسی سے اِن
دونوں کی بو محسوس ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمانے پر اُسے ’’بقیع‘‘
کی طرف نکال دیا جاتا ، لہٰذا جو اِنہیں کھا نا چاہتا ہے وہ اِنہیں پکاکر
اِن کی بو ختم کرلے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’ حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ جب بھی مسجد تشریف لے جاتے تو اُونچی آواز سے یہ اعلان
فرماتے : ’’مسجد میں شور کرنے سے بچو!۔‘‘ دوسری روایت میں یہ ہے کہ: ’’حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ بلند آواز سے فرماتے: ’’مسجد میں بیکار باتوں سے
بچو!۔‘‘حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے
مسجد میں شور کرنے سے منع فرمایا ، اور فرمایا کہ: ’’ہماری اِس مسجد میں
آواز بلند نہ کی جائے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ جس طرح مساجد کی تعمیرو بناء کرنا، اُن کو آبادو شاداب رکھنا
،اُن کی صفائی و ستھرائی کا خیال کرنا ، اُن میں خوش بوؤں کی دھونی دینا،
اپنے اندر عظیم ثواب اور خوش قسمتی رکھتا ہے تو اسی طرح مساجد کی خستہ حالی
و بدحالی سے صرفِ نظر کرنا، اُن کی ویرانی و سنسانی سے پہلو تہی برتنا، اُن
کی طہارت و نظافت سے لاپرواہی اختیار کرنا، اُن کی فضاؤں کو بدبودار چیزوں
سے آلودہ کرنا بھی اپنے اندر بڑا گناہ اور بدبختی رکھتا ہے۔ |