اسلام دنیا میں غالب ہونے اور نظام کائنات اللہ تعالی کے
احکامات کی روشنی میں چلانے کے لیے نازل ہوا ہے۔کائنات کا نظام تو ویسے بھی
اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی چل رہا ہے۔ دن اور رات کی تبدیلی، بارش اور
دھوپ، موسم کا تغیر و تبدل اور انسانوں کا پیدا ہونا اور مرنا۔ زلزلے،
حادثات اور مہلت عمل سب ہی کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی
ہو رہا ہے۔ کچھ امور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اختیار میں دے کر انہیں
آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی مرضی و منشا کے مطابق انفرادی
اور اجتماعی زندگی بسر کریں، چاہیں تو اپنے میں سے کسی فرد یا ادارے کو خدا
بنا کر حلا ل و حرام کا اختیار اسے دے دیں ، چاہیں تو اپنے مالک اور خالق
حقیقی کے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی
بسر کریں۔
آج کی دنیا میں تین طرح کے لوگ آباد ہیں، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے وجود سے
انکاری ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کائنات ازخود وجود میں آئی ہے اور اسی طرح چلتی
رہے گی۔ اس کا کوئی مالک اور خالق نہیں۔ اس لیے وہ اپنا نظام حیات انفرادی
اور اجتماعی از خود طے کرتے ہیں۔ ان میں سوشلسٹ اور ان کے ہمنوا لوگ ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ہندو ،
بدھ مت ، سکھ اور اسی طرح کے کچھ دیگر مذاہب ہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی
صرف پوجا کرنے کے قائل ہیں، کچھ نے اللہ تعالیٰ کی شبیہ بھی بنا رکھی ہیں
اور کچھ نے اللہ تعالیٰ کے نائبین اور مقربین کے بت بنارکھے ہیں، وہ ان کو
سجدہ کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں بھی زندگی گزارنے کے طور طریقے اپنی ہی گھڑے
ہوئے ہیں۔ کچھ کے ہاں مقربین کے طے شدہ طور طریقے نظام حیات کے طور پر قبول
کیے جاتے ہیں، البتہ جمہوریت کے غلبے کے بعد وہ بھی اکثریت کی رائے پر چل
نکلے ہیں۔
تیسر طبقہ الہامی مذاہب پر مشتمل ہے، جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل
ہیں۔ عیسائی اور یہودی اللہ تعالیٰ کو تو اپنا رب مانتے ہیں لیکن حضور نبی
اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کو رسول تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی الہامی کتابیں
بھی اصل شکل میں موجود نہیں اور نہ ہی وہ ان کتابوں کو اجتماعی زندگی میں
قابل عمل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے لیے قواعد و ضوابط از خود بنا
لیے ہیں اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام چلا رہے
ہیں۔ ان کی ساری فکر معیشت اور مادے کے گرد گھومتی ہے۔ وہ کسی الہامی ہدایت
کو قابل عمل قرار نہیں دیتے۔
مسلمان دنیا کی واحد ملت ہے جو اللہ تعالیٰ اور نبی آخر زمان حضرت محمد صلی
اللہ وعلیہ وسلم کو مکمل ایمان و یقین رکھتی ہے۔ اصولی طور پر ہر مسلمان
قرآن وسنت کو اپنے لیے حتمی اور آخری حکم تسلیم کرتا ہے لیکن ان کی اکثریت
اجتماعی زندگی یعنی نظام ہائے مملکت کو قرآن و سنت کے تابع کرنے کی قائل
نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فرض سمجھتے ہیں، ناموس رسالت پر جان
نچھاور کرتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکواة، آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور بساط
بھر ان پر عمل پیرا بھی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ختنے بھی کرتے ہیں، پیدائش پر
کان میں اذان بھی دیتے ہیں، نکاح کے موقع پر خطبہ ، ایجاب و قبول بھی کرتے
ہیں اور مرنے کے بعد نماز جنازہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ مرنے والے کی بخشش کے
لیے ختم درود بھی کرلیتے ہیں، نہیں تو رسم قل تو کرتے ہی ہیں لیکن اجتماعی
زندگی اور نظام مملکت کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان
کی اکثریت اس سے انکار بھی نہیں کرتی لیکن عملا ًاللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ سے
بغاوت پر مبنی نظام ہائے زندگی کو نہ صرف قبول کیے ہوئے ہیں بلکہ اس کے
معاون، مددگار اور علمبردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ ان میں لبرل مسلمان تو پیش
پیش ہیں ہی ، علماءو مفتیان کرام کی اکثریت بھی غلبہ دین کو کسی بھی درجے
میں فریضہ دین قرار دینے پر تیار نہیں۔ اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کے
ابتداءمیں تو سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ جاہلانہ فکر ہمارے
ہاں عیسائیت کی کلیسا سے علیحدگی کے بعد در آئی اور اس قدر سرائیت کرگئی کہ
علماءو فضلاءسب ہی اس رو میں بہہ گئے۔یہ دراصل مغربی غلبے کا منطقی نتیجہ
تھا۔
جب مسلم ممالک پر مغربی اقوام نے قبضہ کیا تو رفتہ رفتہ مسلمانوں کی فکر ی
بنیادوں پر بھی مغربی سوچ و فکر نے قبضہ کرلیا۔ مغربی قابضین نے اسلامی
غلبے کی سوچ کو کھرچ کھرچ کر مساجد، مدارس ، نصاب ہائے تعلیم اور مسلمانوں
کے اذہان سے نکال باہر کیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سید حسن البناءشہید،
علامہ محمد اقبال ؒ اور سید مودودی ؒ نے اسلام کو محض پوجا پاٹ کے بجائے
اجتماعی نظام کے طور پر پیش کرنا شروع کیا تو عوام تو درکنار علماء نے بھی
اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ یہ فکر دینی مدارس کے بجائے کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں فروغ پاتی رہی۔ ایک وقت آیا کہ علماء بھی اسلام کے اجتماعی
نظام کی اصولی اور فکری طور پر قائل ہو گئے، تاہم ان کے نزدیک اب بھی غلبہ
دین کو وہ ترجیح حاصل نہیں جو اصل مقصود ومطلوب ہے۔
مغربی تہذیبی غلبے نے مسلمانوں کی فکر کو اس قدرجکڑ رکھا ہے کہ وہ سود جیسے
بین حرام معاملے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ وہ قرآن و سنت کی موجودگی میں
انگریز کے بنائے ہوئے قوانین تعزیرات ہندپر دل و جان سے عمل پیرا ہیں۔
انہیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو پامال کرکے اللہ
کے دشمنوں کے بنائے ہوئے ظالمانہ قوانین کو قبول کرنا اسلام کی کھلی اور
عملی نفی ہے۔ یہ معاملہ فرد ہی نہیں ادارتی شکل اختیار کرچکا ہے اور ہماری
پارلیمنٹ پوری دیدہ دلیری سے غیر اسلامی قوانین پر چل رہی ہے ، ہمارے عدلیہ
اور انتظامیہ قرآن و سنت کو بالا تر قانون ماننے کے باوجود سارا نظام
شیطانی نظام کے مطابق چلا رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اس کو گناہ تصور
نہیں کرتا۔ انہیں کون بتلائے کہ یہ صرف گناہ ہی نہیں شرک اور اسلام سے
بغاوت کے مترادف ہے۔
ہم عجیب مسلمان ہیں کہ صبح نماز فجر پڑھ کر جج عدالت میں جاکر قرآن کے
بجائے انگریزی قوانین کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور عوام اس فیصلے کو تسلیم
کرتی ہے۔ ہم باوضو ہو کر دفتر جاتے ہیں اور پورا دن سود کا کاروبار کرتے
ہیں، نماز کے وقت مسجد میں جاتے ہیں اور فارغ ہوکے میکدے کے ہوجاتے ہیں۔اگر
قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو موجودہ نظام ہائے حکومت اسلام ، اللہ
تعالیٰ اور حضور نبی اکرم کی تعلیمات کی کھلی نفی، بغاوت اور شرک پر مبنی
ہیں۔ ایسے نظام میں زندگی بسر کرنا حرام اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا فرض
عین ہے۔ لیکن اسلام کی یہ تعبیرو تشریح نہ کسی مسجد و منبر سے ملتی ہے اور
نہ کسی مدرسے اور خانقاہ میں میسر ہے۔ ان سب ہی نے نظام باطل سے سمجھوتہ
کرلیا ہے اور اس سے فوائد پا رہے ہیں۔ اسلام نہ صرف مسلم ممالک میں غلبہ
دین کی تلقین کرتا ہے بلکہ کرہ ارضی کو اللہ کے دشمنوں سے پاک کرکے اسلام
کے عالمگیر اور انسان دوست نظام کو غالب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ حکم بالکل
نماز، روزہ، حج اور زکواة کی طرح ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جس سے جان چھڑانے کی
کوئی گنجائش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ جتنی رعائتیں لوگوں نے مکی دور کی
آڑ میں گھڑ رکھی ہیں ، وہ بودی، من گھڑت ، بزدلی اور مفاد پرستانہ سوچ کی
حامل ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ بچتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کو اپنا مرکز و محور
قرار دے کر اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ علماء، ائمہ، خلفاء،خانقاہوں اور
فرقوں کی آڑ لے کر اپنے من کو تسلی تو دی جاسکتی ہے، رب کی پکڑ سے نہیں بچا
جاسکتا ۔ آج دنیا میں جتنی بدامنی، جتنا ظلم، جتنی ناانصافی ، جتنا قتل عام
اور دہشت گردی ہورہی ہے، اس کی ذمہ دار امت مسلمہ ٹھہرائی جائے گی کہ اس نے
انسانیت کی بقاءاور سلامتی کے لیے اسلام کو غالب کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے
طاغوتی نظام ہائے زندگی کو چیلنج کیوں نہیں کیا اور ظلم کی ہر شکل اور صورت
کو مٹا کر اسلام کے نور سے کرہ ارضی کو منور کیوں نہیں کیا۔اب مسلمانوں کے
سامنے ایک راستہ ہے کہ وہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اور دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے غلبہ اسلام کے لیے اپنا تن، من اور دھن لگا دیں یا اسلام کے
بجائے لبرل ہو کر اپنی مرضی، منشا کے مطابق زندگی بسر کریں۔
|