شمشیر میاں ایک انسانی بچے کے روپ میں گھر کے بر آمدے میں
ہاتھ پیچھے باندھے ٹہل رہے تھے ۔۔۔ ماتھے پر سوچ کی لکیریں سی بنی ہوئی
تھیں ۔۔۔۔ میاں جی وہیں برآمدے میں اپنے اصل روپ میں بیٹھے قرآن مجید کی
تلاوت کر رہے تھے ۔۔۔۔ اور گاہے بگاہے اس ننے سے جن کا کسی مفکر کی طرح
ٹہلنا بھی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ آدھے گھنٹے تک شمشیر میاں یونہی برآدے میں
لیفٹ رائٹ کرتے رہے پھر ان کی چارپائی کے قریب آکر کھڑے ہوگئے ۔۔۔۔ میاں جی
نے سورہ ال عمران کی تلاوت کرتے کرتے ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔
کیا کچھ کہنا ہے ؟
اجی کیا بولوُں آپ کُو میں ۔۔۔۔ دو گھنٹے تو ہوگئے نا قرآن کی تلاوت کُو
۔۔۔ جب بھی آتُوں دالان میں اُسی پوزیشن میں گردن ہلالے تے قرآن پڑھتے ملتے
۔۔۔۔
او میرے بھائی تمہاری اس حیدرآبادی لہجے کے ہم دل سے قدر دان ہیں ۔۔۔ چلئے
بتائے کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ۔۔۔۔
اب شرمندہ نکوُ کرو نہ آپ ۔۔۔۔
وہ تھوڑا سا شرمائے شرمائے لہجے میں بولے تو میاں جی مسکرا دئے ۔۔۔۔
اچھا چلئے بتائے کیا بات ہے ۔۔۔آدھے گھنٹے سے دیکھ رہا ہوں آپ کو کچھ
پریشانی ہے کیا ۔۔۔۔
میاں جی میری پریشانی کوُ چھوڑئے یہ بتائے آپ میرے کُو عائیشہ بی بی کو گھر
سے جاکے کتنے دناں ہوگئے ؟
تقریباً دو مہینے ۔۔۔۔۔
اور ہم کیا کر ے ان دو مہینوں میں ۔۔۔۔
بیٹا ہر جگہ دیکھ لیا ۔۔۔۔ کراچی سے باہر بھی بلکے پاکستان سے باہر بھی ۔۔۔
اور پھر ہاتھ پر ہاتاں (ہاتھ) رکھ کوُ بیٹھ گئے ۔۔۔ ہیں ناں ۔۔۔
ایسی بات تو نہیں ہے اب بھی ان کی تلاش جاری ہے ۔۔۔۔۔ اچھا آپ بتائے انہیں
ہمیں کہاں تلاش کرنا چاہئے ۔۔۔
میاں جی کی بات پر شمشیر میاں نے انہیں بڑے اکڑے اکڑے انداز میں دیکھا اور
بولے ۔۔۔۔
جہاں ہم اور آپ پر بھی نہیں مار سکتے ناں ۔۔۔ ایسی ہی جگہ مجھے لگتا ۔۔۔ مل
جائینگی عائیشہ بی بی ۔۔۔
کسی کام کی غرض سے برآمدے میں آتی فاطمہ بی بی نے بھی شمشیر میاں کی بات
سنی تو وہیں ٹھٹک کر رک گئیں ۔۔۔۔
میاں جی ۔۔۔۔
ان کے میاں جی کا نام لینے پر شمشیر میاں نے بھی پلٹ کر فاطمہ بی بی کو
دیکھا ۔۔۔۔
شمشیر بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔ ہمیں ایسی ہی جگہ انہیں تلاش کرنا چاہئے
۔۔۔۔ جہاں جنات داخل نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔ جنات کو پھیلا دیجئے پورے پاکستان
میں ۔۔۔ جس گھر اور جگہ وہ داخل نہ ہوسکیں ۔۔۔ اس گھر اور جگہ کا مکمل
ایڈریس لے لیں ان سے ۔۔۔۔
پھر چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتیں شمشیر کے قریب آکر رک گئیں ۔۔۔ اور پیار سے
اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔
شکریہ ۔۔۔۔ تم ہو تو بہت چھوٹے سے مگر کافی عقلمند ہو ۔۔۔ مما حور نے بالکل
ٹھیک کیا جو تمہیں یہاں لے آئیں ۔۔۔
اور شمشیر میاں اپنی اتنی تعریف پر خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کر رہے
تھے ۔۔۔۔۔۔
×××××××××××××
میں چپ چاپ اپنے بیڈ پر لیٹی ذکی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے پتہ
نہیں کیوں اب ایسا لگنے لگا تھا کہ ذکی جو بظاہر نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے
بلکہ شاید خالہ بی بھی اس کے اصل سے واقف نہیں ۔۔۔۔ کل رات اس کی زخمی ٹانگ
سے نکلتے خون پر اس کا اطمینان مجھے حیران کر گیا تھا ۔۔۔۔ جب سے میں یہاں
ان سب کے درمیان رہ رہی تھی تب سے میں نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ اکثر
اپنے سرکاری کام کا بتا کر چار چار دن اور اب تو تقریباً بیس پچیس دن کے
لئے چلا گیا تھا ۔۔۔ حالانکے وہ ایک معمولی ایس ایچ او تھا ایک چھوٹے سے
تھانے کا ۔۔۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا وہ ایک شریف اور ایماندار پولیس آفیسر
تھا ۔۔۔۔ جب بھی اس کی نظر مجھ پڑی تو ان نظروں میں اپنے لئے شک و شبہات کے
علاوہ کچھ نظر نہ آیا ۔۔۔۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا ۔۔۔ اور خالہ بی
کی بیٹی یعنی اس کی والدہ حیات تھیں مگر بقول چندہ پھو پھو اس کی پیدائش کے
فوراً بعد ہی اس کے والد سے طلاق لے لی تھی ۔۔۔ اور بچے سے بھی دستبردار
ہوگئی تھیں ۔۔۔۔ والد کے انتقال کے بعد بارہ سال کی عمر میں خالہ بی اسے
اپنے محل نما گھر میں لے آئیں ۔۔۔ تب سے وہ اپنی نانی جان کے ساتھ رہ رہا
تھا ۔۔۔۔ خالہ بی کے شوہر بھی حیات تھے مگر وہ خالہ بی کے ساتھ نہیں رہتے
تھے ۔۔۔۔ ملک سے باہر لندن میں اپنی دوسری بیگم جو ایک پارسی خاتون تھیں کے
ساتھ مقیم تھے ۔۔۔۔۔ جن سے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔۔۔ یہ جائداد اور
سب کچھ خالہ بی کو ورثے میں ملا تھا ۔۔۔۔ اور انہوں نے تمام جائداد اپنے
اکلوتے نواسے ذیشان احمد کے نام کردی تھی ۔۔۔۔ جس پر ان کے شوہر ظفر اقبال
اور ان کی اکلوتی ایک بیٹی تانیہ درانی (ذکی کی والدہ) کو شدید اعتراض تھا
۔۔۔ مگر خالہ بی ان کی مخالفت کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم رہیں ۔۔۔ ذکی
بھی نہیں چاہتا تھا بقول چندہ پھو پھو کہ اس نے خالہ بی کو اپنی جائداد
اپنی بیٹی یعنی اپنی والدہ کے نام کرنے کا کہا بھی مگر خالہ بی نے اس کی
ایک نہ مانی ۔۔۔۔ ان کے اسی فیصلے کی وجہ سے ظفر اقبال جو پہلے ہی بہت کم
کم آتے تھے گھر انہوں نے آنا ہی بالکل ختم کردیا ۔۔۔ اور تانیہ بیگم تو
آئندہ ماں سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنے سے ہی صاف انکار کردیا ۔۔۔۔ ابھی
میں اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔
آجاؤ شاہدہ ۔۔۔۔
باجی جی کیسے پہچان جاتی ہیں آپ ۔۔۔ کہ دروازے پر میں ہوں جی ۔۔۔۔
اس لئے کہ اکثر تم ہی دروازے پر یوں دستک دیتی ہو ۔۔۔ اسی لئے ۔۔۔
میں اس کے حیران لہجے میں پوچھنے پر مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا تو وہ سر
ہلانے لگی ۔۔۔ پھر سر پر ہاتھ مار کر ۔۔۔
افف! جس کام سے آئی تھی وہ تو بھول ہی گئی جی ۔۔۔۔ وہ پھو پھو کہہ رہی تھیں
کہ آج آپ جلدی سے تیار ہوجائیں ۔۔۔ آج سب باہر کھانے جائینگے ۔۔۔ پچھلے
مہینے نہیں جاسکے ناں اس لئے جی ۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔۔
وہ کہہ کر پلٹ گئی اور اس کے جانے کے بعد کالے رنگ کا جلباب الماری سے نکال
کر ایک طرف رکھ دیا اور وائیٹ کلر کا اسکارف جس کے چاروں کناروں پر کالے
رنگ سے پھول بنے ہوئے تھے جو خالہ بی نے مجھے تحفے میں دیا تھا نکال کر اسے
استری کرنے لگی ۔۔۔۔ صرف دس منٹ بعد میں تیار ہوکر نیچے آگئی تھی ۔۔۔ ویسے
بھی جو خواتین حجاب لیتی ہیں انہیں تیار ہونے میں ٹائیم ہی کتنا لگتا ہے
۔۔۔ خیر نیچے چندہ پھو پھو ایک بڑی سی چادر اوڑھے سیڑھیوں کے اختتام پر ہی
تیار کھڑی ملیں ۔۔۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی تھیں ۔۔۔۔
خالہ بی کدھر ہیں چندہ پھو پھو ۔۔۔۔
وہ نہیں چل رہیں ۔۔۔ ویسے بھی انہیں باہر کھانا پسند نہیں ۔۔۔ بس یہ میں
اور ذکی ہی ہیں جو کبھی کبھار گھر سے باہر کھانے جاتے ہیں ۔۔۔۔
اوہ کیا ذکی بھی چل رہے ہیں ۔۔۔۔۔
ہاں تو اور کیا ۔۔۔ آج ہی تو ہاتھ آئے ہیں موصوف ورنہ اتنی مصروف شخصیت بن
چکے ہیں کہ ہمارے لئے ٹائیم ہی نہیں نکال پاتے ۔۔۔
ان کے منہ سے ذکی کے ساتھ چلنے کے ذکر پر میں گھبرا گئی تھی ۔۔۔۔ مگر اب
منع بھی نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔ ویسے چندہ پھو پھو کی عادت تھی جب وہ بولنا
شروع کرتیں تو نان اسٹاپ بولتی ہی چلی جاتیں ۔۔۔۔ اکثر خالہ بی انہیں روکتی
ٹوکتی رہتی تھیں ۔۔۔۔ مگر ان کی باتیں بے مصرف نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے ہمارے ذکی پر ہی ساری ذمہ داری پولیس کے محکمے نے ڈال رکھی
ہے ۔۔۔ کس کو پکڑنا ہے کس کا اٍن کاؤنٹر کرنا ہے ۔۔۔ یہ سب کچھ بے چارہ ذکی
ہی ڈسائیڈ کرتا ہے ۔۔۔۔
ذکی پر جو شروع ہوئیں تو نان اٹاپ اسی پر بولتی رہیں ۔۔۔۔ میں ان کی باتوں
کے جواب میں ہوں ہاں کرتی ہوئی ان کے ساتھ مین ڈور سے باہر آگئی تو ذکی کو
بلیک ہونڈا اکارڈ سے ٹیک لگائے پورچ میں کھڑے دیکھا ۔۔ ہمیں دیکھ کر وہ
سیدھا کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔
اسلامُ علیکم ۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔
ہم قریب پہنچیں تو مجھے دیکھ کر سلام کیا تھا ۔۔۔۔۔ تو میں نے بھی نگاہیں
نیچے کئے سلام کا جواب دیا تھا ۔۔۔
پھو پھو فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئیں تو میں بھی بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ
گئی ۔۔۔
چندہ پھو پھو کون سے ریسٹورینٹ ؟
روئیل تاج ریسٹورینٹ ۔۔۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے مجھے وہاں کا منیو کافی پسند
ہے ۔۔۔۔
جی ۔۔۔
اتنا کہہ کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی ۔۔۔
×××××××××××
قبیلے کے سارے جنات پورے پاکستان میں پھیل گئے تھے ۔۔۔۔ مگر عائیشہ کا سراغ
نہیں لگا پائے ۔۔۔۔ حوریہ بی بی اور فاطمہ بی بی کی پریشانی میں دن بدن
اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ پاکستان میں صرف سات گھر ایسے پائے گئے جہاں
کوئی مسلمان یا کافر جن داخل نہیں ہوسکتا تھا ۔۔۔۔۔ اب صرف حیدر آباد کا
ایک گھر باقی بچا تھا جہاں انہیں جانا تھا ۔۔۔ مگر دونوں کو اس بات کا
دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ اگر وہاں بھی عائیشہ نہ ملی تو ۔۔۔۔ میاں جی
انہیں بتا چکے تھے کہ یہ گھر کسی خاتون کی ملکیت ہے ۔۔۔ جو لوگوں کا روحانی
علاج فی سبیل اللہ کرتی ہیں ۔۔۔ جنہوں نے قرآنی آیات کے ذریعے جنات کا
داخلہ اپنے گھر میں بند کردیا ہے ۔۔۔۔ کوئی مسلم جن تک گھر میں ان کے داخل
نہیں ہوسکتا ۔۔ چاہے وہ کتنا ہی پرہیزگار کیوں نہ ہو ۔۔۔ بہر حال جب وہ
دونوں وہاں پہنچیں تو مغرب کی نماز کا وقت ہونے میں صرف آدھا گھنٹا بچا تھا
۔۔۔ فاطمہ بی بی نے دھڑکتے دل کے ساتھ بیل پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ بھاری
قدموں کی آواز سنائی دی پھر گیٹ کھلنے کی آواز ۔۔۔
جی کون ۔۔۔ کس سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت دور سے آئی ہیں ۔۔۔ سنا ہے یہاں کوئی بی بی رہتی ہیں جو روحانی علاج
کرتی ہیں ۔۔۔۔
وہ کوئی پٹھان چوکیدار تھا ۔۔۔ بڑی سی گیٹ پر موجود چوکیدار سر سے پاؤں تک
سفید لبادے میں ملبوس دو دراز قد خواتین کو دیکھ کر بولا تھا تو حوریہ بی
بی بولیں ۔۔۔۔۔۔
اوہ بی بی سیب (صاحب ) یہ ٹائیم نہیں ہے ۔۔۔ ہماری بیگم سیب (صاحبہ) اس وقت
کسی سے نہیں ملتیں ۔۔۔
بھائی بہت دور سے آئے ہیں ۔۔۔ آپ مہربانی کرکے ان تک ہماری گزارش پہنچا دو
۔۔۔۔ تمہارا اللہ بھلا کرے گا ۔۔۔
حوریہ بی بی کے التجائی انداز پر چوکیدار کا دل پسیجا تھا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے بابا ۔۔۔ تم ادھر رکو ۔۔۔
یہ کہہ کر گیٹ بند کردیا ۔۔۔ پانچ منٹ بعد گیٹ دوبارہ کھول کر انہیں اندر
آنے کا راستہ دیا ۔۔۔ تو وہ دونوں دل میں خدا کا شکر ادا کرتیں گھر میں
داخل ہوگئیں ۔۔۔۔ پندرہ سو گز پر بنا یہ خوبصورت بنگلہ تھا ۔۔۔۔ گھر کے
چاروں طرف باغ میں خوشبو بکھیرتے رنگ برنگے پھول اور خوبصورت پودے بنگلے کی
جاذبیت بڑھا رہے تھے ۔۔۔۔ بنگلے کے مین ڈور پر ایک سولہ سال کی لڑکی کھڑی
ہوئی تھی ۔۔۔۔
اسلامُ علیکم جی ۔۔۔ آئیے ۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔
سلام کا جواب دے کر اس کے پیچے وہ دونوں بھی اندر داخل ہوگئیں ۔۔۔۔ یہ ایک
بہت بڑا ہال تھا ۔۔۔ جہاں ایک طرف کھانے کی بڑی سی خوبصورت میز رکھی تھی
۔۔۔۔ اور اس سے قدرے فاصلے پر فون اور رسٹ رنگ کے سوفے رکھے تھے ۔۔۔۔ وہ
لڑکی وہاں انہیں بٹھا کر اندر چلے گئی تھی ۔۔۔۔
پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے کہ عائیشہ ہمیں اسی گھر سے ملے گی ۔۔۔۔۔۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو حور مما ۔۔۔۔
حوریہ کے بولنے پر فاطمہ بی بی بولی تھیں ۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔۔
کسی کے سلام کرنے پر پلٹ کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ وہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں
۔۔۔۔
جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔
وہ شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتیں ان کے سامنے والے ایک سنگل سوفے پر
بیٹھتی ہوئی بولیں ۔۔۔ پھر جیسے ہی ان کی نظر فاطمہ بی بی پر پڑی تو چونک
اُٹھیں ۔۔۔۔
آپ لو گ کون ہیں ۔۔۔ مجھے نہیں لگتا آپ خواتین روحانی علاج کے سلسلے میں
آئی ہیں ۔۔۔۔
میں معافی چاہتی ہوں آپ سے ۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم دونوں میں اور میری
بیٹی فاطمہ اپنی بچی کی تلاش کے سلسلے میں یہاں آئی ہیں ۔۔۔
کیا مطلب ! کھل کر بتائیے ۔۔۔۔
میرا نام حوریہ ہے اور میری بیٹی کا نام فاطمہ ہے ۔۔۔۔
اور آپ دونوں عائیشہ کے سلسلے میں میرے گھر آئی ہیں ۔۔۔۔
جی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ تو عائیشہ آپ کے پاس ہے ۔۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔۔ مگر میرا خیال ہے آپ اسے ابھی میرے پاس ہی رہنے دیں ۔۔۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ وہ یہاں سے بھی چلی جائے ۔۔۔
خالہ بی فاطمہ بی اور حوریہ بی بی کو دیکھتی ہوئی بولی تھیں ۔۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ یہاں محفوظ ہے ہمیں اور کیا چاہئے ۔۔۔۔ اچھا اب اجازت دیجئے
۔۔۔انشاءاللہ پھر ملاقات ہوگی اگر اللہ نے چاہا تو ۔۔۔۔
میں آپ کو کھائے پئے بغیر جانے کی اجازت تو نہیں دے سکتی ۔۔۔
پھر کبھی ۔۔۔ کیا عائیشہ گھر پر نہیں ہے ۔۔۔۔
نہیں وہ میری بھانجی اور نواسے کے ساتھ باہر گئی ہے ۔۔۔۔
اوہ ٹھیک ہے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اطمینان بھی کہ وہ آپ کے پاس
محفوظ ہے ۔۔۔
یہ کہہ کر وہ دونوں انہیں خدا حافظ کہتی ہوئی مین ڈور سے باہر نکل گئیں ۔۔۔
فاطمہ بی بی دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں ۔۔۔۔ان کی بیٹی کو
اللہ نے زاکرہ کے بعد پھر سے ایک شفیق خاتون کے پاس پہنچا دیا تھا ۔۔۔ جہاں
وہ ہر طرح سے محفوظ تھی ۔۔۔۔ اور ابھیمنیو جیسے اللہ کے دشمن کی شر
انگیزیوں سے دور وہ سکون سے رہ رہی تھی ۔۔۔ اور یہی بات ان کے اطمینان کا
سبب بن گئی تھی ورنہ اس سے پہلے انہیں یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ کہیں وہ
ابھیمنیو کے ہتے نہ چڑھ گئی ہو ۔۔۔
××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
|