اس نے کھڑکی کے ادھ کھلے کواڑ بند کر لیے۔وہ اسی تھکے
ہوئے دروازہ کھول کر
گھر میں گم ہو گیا،،،
آج بھی پیشانی پر بکھرے ہوئے بال اس کو پر کشش بنا رہے تھے،،،، وہ ہر بار
کی
طرح اپنے بالوں کو ماتھے سے ہٹا کر اور بھی معصوم سا نظر آیا،،،
سحر نے صبح کی نماز پڑی،،،اور کھڑکی کے کواڑوں سے دیکھا وہ باہر نکل
گیا،،،!
عجیب انسان تھا‘‘ صبح کی سیر سے اسےعشق سا تھا‘‘ کوئی بھی دن ناغہ نہیں
کرتا تھا اور نہ ہی سحر اسے دیکھنے میں کوئی ناغہ کرتی تھی۔
واپسی میں اس کے ہاتھ میں ہوٹل سے لی ہوئی چائے اور پراٹھا ہوتا
تھا،،اورکچھ
لمحوں بعد وہ جاب پر نکل جاتا تھا۔سحر کا دل کرتا تھا کہ وہ خود اس کے
لیے،،
ناشتے بنائے ‘،،کیا فرق پڑتا اک چائے کے کپ اور اک پراٹھے سے ان کا کیا
چلا،،
جاتا۔
وہ بہت کم گو تھا۔ عجیب سی سنجیدگی اسے پراسرار سا بنا دیتی تھی،،،!
بعض اوقات اس کی سنجیدگی خوف زدہ کر دینے کے لیے ہی کافی تھی۔!
آج مہینے کی پانچ تاریخ تھی،،،آج واپس آتے ہی وہ دروازہ کھٹکھٹائے گا،،،!
اور،،،
سلیقے سے لفافے میں کمرے کا کرایہ رکھ کر دے جائے گا۔‘‘یہ انکل کو دے
دینا۔سحر نے جی اچھاکہا،، اور وہ پلٹنے لگا،،،سنئیے،،،!
سحر کی آواز پرچھ مہینے سے اجنبی شخص نے پلٹ کر سوالیہ انداز میں سحرکو
دیکھا۔ذرا اندر آئیے گا،،،اجنبی اندر چلا گیا۔
سحر نے کرائے کے پیسے ماں کو دئیے۔۔امی وہ آئے ہیں آپ کو کیا کام تھا،،؟
ماں
نے حیرت سے سحر کو دیکھا،‘‘مجھے کیا کام تھا‘‘،،!
آپ نے کہا تھا نا،،گڈو انگلش میں کمزور ہے ،،ماں نے اچھا کہا،،،مگر کیا اسے
انگلش آتی ہے۔۔! بہت ہی منحوس زبان ہے۔
سحر جھٹ سےبولی،،ارے ماں،،! پینٹ شرٹ پہنتا ہے۔اس دن شاید پراٹھا لایا تھا
انگریزی اخبار میں لپٹا ہواتو میں نے دیکھا اس کوبھی پڑھ رہا تھا۔ماں نے
متاثرکن
انداز میں سر ہلایا۔۔
آج دسواں دن تھا وہ روز جاب سے آکر گڈو کو پڑھا دیتا تھا۔سحر نے بہت سے
دودھ
والی چائے اس کے سامنے رکھ دی۔نہ کبھی اس نے شکریہ کہا،،نہ ہی سحر کی
طرف دیکھا۔
سحر کا بہت دل کرتا تھا جیسے لہجے میں وہ گڈو کو پڑھاتا تھا،،،ویسے اک دفعہ
بس ‘‘تھینک یو‘‘ بول دے۔ اسکی محنت وصول ہو جائے گی۔
ماں نے اشارے سے سحر کو بلایا،،ارے یہ بہت ہوشیار ہے،،،اپنی بری کا
سامان،،،
دیکھا دو۔ کوئی کمی بیشی ہوگی توکوئی اچھا سا مشورہ ہی دے دے۔
پورا کمرا سحر کی بری کے سامان سے بھرا ہوا تھا۔کپڑے،،،زیور،،،جوتے،،،میک
اپ
بکس ہرچیز قیمتی اور تعداد میں اس قدر کہ گننا ہی مشکل۔اس کے علاوہ جہیز
میں کوئی کمی نہ تھی۔اک ہفتے پہلے سے ہی سامان ،،، سحر کے سسرال پہنچنا
شروع ہوجائے گا۔
اجنبی کی آنکھیں بھرآئیں اس نے بڑی مشکل سے سب سےچھپا کر اپنی آنکھوں
کو صاف کیا۔ ‘‘یہ آپ لوگ شادی کے دنوں میں لوگوں کو دکھاؤ گے،،،ایسا نہ کیا
کیجئے،،،!
سب نے حیرت سے اجنبی کو دیکھا،،،مگر کیوں،،،!
اجنبی بولتا گیا۔بہت سی غریب لڑکیاں،،ان کے ماں باپ،،بھائی بھی ہوتے ہیں جو
یہ
سب اپنی بہنوں کو نہیں دے پاتے۔
اگر دینا بھی ہے تو دکھاوا کیسا،،،خاموشی سے بھی تو دیا جاسکتا ہے،،،نمائش
کیوں
ضروری ہے۔،،،!
وہ لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے رشتے نہیں ہو
پاتے،،،!!
انہی خرافات کی وجہ سے اور جب کئی بار ان کو ٹھکرایا جاتا ہے،،،تو میری
باجی کی
طرح وہ بھی سوسائیڈ کرلیتی ہیں۔
کیونکہ ماں باپ،،بھائی کی اوقات نہ تھی کہ وہ سب کچھ دے پاتے کر پاتے،،!!
آپ
لوگ یہ سب دکھاؤ گے تو ایسا نہ ہو کہ کسی کی بہن بیٹی دل پر نہ لے لے۔اور
اس کا
دل بند ہو جائے۔
اجنبی خاموشی سے اپنے کمرےمیں گم ہو گیا،،،!!
|