اﷲ جل شانہ اورنبی پاک ﷺ پر ایمان لانے اور توحید ورسالت
کی گواہی دینے کے بعد سب سے پہلا اور سب سے بڑا فرض اسلام میں نماز ہے،نماز
اﷲ تعالی کی خاص عبادت ہے،جو دن میں پانچ دفعہ فرض کی گئی ہے،قرآن وحدیث
میں لاتعداد مرتبہ نمازکی بڑی سخت تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کو دین کا
ستون اور دین کی بنیاد کہا گیا ہے۔
نماز کی یہ خاص تاثیر ہے کہ اگر وہ ٹھیک طریقے سے ادا کی جائے اور اﷲ تعالیٰ
کو حاضروناظر سمجھتے ہوئے پورے دھیان سے خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھی جائے تو
اس سے آدمی کا دل پاک صاف ہوتا ہے اور اس کی زندگی درست ہوجاتی ہے اور
برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں اور نیکی اور سچائی کی محبت اور خدا کا خوف اس
کے دل میں پیداہوجاتا ہے، اسی لیے اسلام میں دوسرے تمام فرضوں سے زیادہ اس
کی تاکید ہے اور اسی واسطے رسول اﷲﷺکا دستور تھا کہ جب کوئی شخص آپ کے پاس
آکر اسلام قبول کرتا تو آپ توحید کی تعلیم کے بعد پہلا عہد اس سے نماز ہی
کالیا کرتے تھے، الغرض کلمہ کے بعدنماز ہی اسلام کی بنیاد ہے۔نماز جنت کی
کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ نماز نبی پاک ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالی کی رضا کاباعث ہے۔ نماز
جنت کا راستہ ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز
بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز مومن اور کافر میں
فرق ہے۔ نماز ولایت کا ذریعہ ہے۔ نمازی کونبی پاکﷺکی شفاعت نصیب ہوگی۔
نمازی ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگا۔ نماز دلوں کا زنگ دور کرتی ہے۔
نماز بندے کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رکھتی ہے۔ نماز محتاجی سے بچاتی
ہے۔ نماز روحانیت کو پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز سے سکون اور قرار نصیب
ہوتا ہے۔ نماز قبر کی روشنی ہے۔ نماز پل صراط کا چراغ ہے۔ نمازی کو روز
محشر سرخروئی نصیب ہوگی اور سب سے بڑا انعام نمازی کو یہ ملے گا کہ اسے جنت
میں اﷲ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا۔سبحان اﷲ
بے نمازی کا انجام
جو شخص نماز کو چھوڑ دیتا ہے اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے،
جو شخص ایک نماز جان بوجھ کر قضا کرے گا، دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم کی
آگ میں جلے گا۔ بے نمازی کا حشر ہامان، فرعون اور ابی بن خلف جیسے بڑے
کافروں کے ساتھ ہوگا۔
بے نمازی کو جہنم کے عبرت ناک گڑھے میں ڈالا جائے گا۔ بے نمازی کو قبر اس
طرح دبائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجائیں گی۔
بے نمازی پر گنجا سانپ مسلط کردیا جائے گا۔ بے نمازی کی قبر میں سانپ اور
بچھو چھوڑ دیئے جائیں گے۔نماز کو چھوڑنا پر اﷲ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی
ناراضگی کا باعث ہے۔
جس نے نماز کو چھوڑا اس نے دین کے ستون کو ڈھانے میں مدد کی۔بے نمازی دنیاو
آخرت میں ذلیل و خوار ہوگا۔ بے نمازی کو کسی عمل کا ثواب نہیں دیا جاتا۔ بے
نمازی کی کوئی دعا قبول نہیں کی جاتی۔ بے نمازی جب مرے گا تو ذلیل و خوار
ہوکر مرے گا۔ بے نمازی سے خنزیر بھی پناہ مانگتا ہے۔ بے نمازی جب مرے گا تو
اسے ایسی پیاس لگے گی کہ اگر پوری دنیا کا پانی پلا دیاجائے تو بھی اس کی
پیاس نہیں بجھے گی۔ مطلب یہ کہ بے نمازی پیاسا ہوکر مرے گا۔ بے نمازی پر
نحوست طاری رہتی ہے۔ بے نمازی کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ بے نمازی کی
عمرمیں برکت ختم ہوجاتی ہے۔ بے نمازی کے چہرے سے نور ختم کردیاجاتا ہے۔ بے
نمازی کی زندگی سے سکون و قرار ختم کردیاجاتا ہے۔ بے نمازی کی نیند سے راحت
ختم کردی جاتی ہے۔ بے نمازی تنگ دستی اور پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ بے
نمازی کی نزع میں سختی پیدا کردی جاتی ہے۔ بے نمازی کی قبر تنگ کردی جاتی
ہے۔ بے نمازی روز محشر ذلیل وخوار ہوگا۔
جماعت کے ساتھ نمازکی تاکید اور فضیلت
رسول اﷲ ﷺ کی احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اصل فضیلت اور
برکت حاصل ہونے کے لیے جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے بھی شرط ہے اوراس کی اتنی
سخت تاکید ہے کہ جو لوگ غفلت سے یاسستی سے جماعت میں حاضر نہیں ہوتے تھے
،ان کے متعلق حضور ﷺ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایاتھا کہ:"میراجی چاہتا ہے کہ
میں ان کے گھروں میں آگ لگوادوں"۔
(بخاری،باب وجوبِ صلاۃالجماعۃ)
بس اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جماعت کا چھوڑنا اﷲ اور رسول
کو کس قدر ناپسند ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ"جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے
کا ثواب تنہا پڑھنے سے ۲۷گنازیادہ ہوتا ہے"۔
(بخاری، باب فضل صلو ۃالجماعۃ، مسلم شریف)
پابندی کے ساتھ جماعت سے نمازپڑھنے میں آخرت کے ثواب کے علاوہ اور بھی بڑے
بڑے فائدے ہیں،مثلا ًیہ کہ جماعت کی پابندی سے آدمی میں وقت کی پابندی کی
صلاحیت پیدا ہوتی ہے،دن رات میں پانچ دفعہ محلہ کے سب مسلمان بھائیوں کا
ایک جگہ اجتماع ہوجاتا ہے، جس سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں،جماعت کی
پابندی سے نماز کی پوری پابندی نصیب ہوجاتی ہے اور جو لوگ جماعت کی پابندی
نہیں کرتے اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کی نمازیں کثرت سے قضا ہوتی ہیں اورایک
بہت بڑافائدہ یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے والے ہر آدمی کی نماز پوری
جماعت کی نمازکاجزوبن جاتی ہے، جس میں اﷲ کے ایسے نیک اور صالح بندے بھی
ہوتے ہیں جن کی نمازیں بڑی اچھی خشوع وخضوع والی ہوتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان
کو قبول فرماتا ہے اور اﷲ تعالی کی شان کریمی سے یہی امید ہے کہ جب وہ
جماعت کے کچھ لوگوں کی نمازیں قبول فرمائے گا تو ان ہی کے ساتھ نمازپڑھنے
والے دوسرے لوگوں کی بھی قبول فرمائے گا؛اگرچہ ان کی نمازیں اس درجہ کی نہ
ہوں؛ پس ہم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہئے کہ بالاکسی سخت مجبوری کے جماعت
کھودینا کتنے بڑے ثواب سے اور کتنی برکتوں سے اپنے کومحروم کردینا ہے۔
نماز کسی صورت میں معاف نہیں ہے
بندہ آنکھوں سے اندھا ہے، کانوں سے بہرہ ہے، منہ سے گونگا ہے، ہاتھ سے
معذور ہے پھر بھی اس کو نماز معاف نہیں ہے۔ نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتے
تو بیٹھ کر پڑھیں۔ اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر اشاروں کے ساتھ
نماز پڑھنی ضروری ہے، اسے کسی صورت میں بھی چھوڑنے کا حکم نہیں ہے۔
اﷲ تعالی کی عظیم الشان عبادت نماز میں بے حد برکتیں ہیں۔ بندہ جب اپنے
پروردگار جل جلالہ کی بارگاہ میں سر جھکاتا ہے تو اﷲ تعالی اس کو دربدر کی
ٹھوکروں سے نجات عطا فرماتا ہے، اس کو ڈاکٹر اقبال اپنے شعر میں یوں بیان
کرتے ہیں۔
ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
لاکھ سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
مطلب یہ کہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں جب بندہ خشوع و خضوع کے ساتھ
سجدہ ریز ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جھکنا اسے در در جھکنے سے
بچالیتا ہے پھر اسے اپنے پروردگار کے سوا کسی کی محتاجی نہیں ہوتی۔ یہی وہ
کرم ہے جو صرف نمازی کو حاصل ہوتا ہے۔
خاصان خدا کی نمازیں
صحابی رسولﷺ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نماز کے لئے صفیں درست فرما رہے تھے
کہ آپ پر مجوسی نے خنجر سے حملہ کردیا، حملہ اتنا شدید تھا کہ آپ کے پیٹ
میں سوراخ ہوگیا۔ ایسی حالت میں بھی آپ نے نماز نہ چھوڑی، سب سے پہلے آپ
رضی اﷲ عنہ نے نماز ادا فرمائی۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پاؤں میں دوران جنگ تیر لگا لیکن آپ نے نماز ادا کی
اور دوران نماز آپ کے پاؤں سے تیر نکالا گیا۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو حالت نماز میں عبدالرحمن ابن ملجم نے وار کرکے زخمی
کیا، زخم بہت شدید تھا مگر اس حالت میں بھی آپ رضی اﷲ عنہ نے نماز ترک نہ
کی۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے واقعہ کو کون نہیں جانتا۔ کربلا
کی تپتی ہوئی ریت پر تلواروں کے سائے میں، دشمنوں کے نرغے میں ہونے کے
باوجود، تیروں سے چھلنی جسم اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجودآپ نے نماز
ظہر ادا کی اور حالت نماز میں ہی آپ کا سر تن سے جدا کردیاگیا۔
صحابی رسولﷺ کو پھانسی کے پھندے پر لے جایا گیا، آپ رضی اﷲ عنہ سے جب پوچھا
گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ آپ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ دو رکعت نماز
پڑھنے دی جائے۔ کئی صحابہ رضی اﷲ عنہم، کئی اولیا اﷲ حالت نماز میں وصال
فرما گئے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی قبر میں بھی نماز پڑھتے ہوئے لوگوں نے
دیکھااور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ذرا سی سردی ہو، ذرا سی گرمی ہو، سر یا کمر
میں درد ہو یا ضروری کام ہوتو نماز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی نے کیا ہی خوب
کہاہے کہ نماز سے مت کہو کہ مجھے کام ہے،کام سے کہو کہ مجھے نماز پڑھنی ہے
ہمارا حساب الٹا ہے، ہم نماز سے کہتے ہیں کہ مجھے کام سے جانا ہے، میرا دل
نہیں چاہتا، مجھ میں ہمت نہیں ہے، بہانا یہ کرتے ہیں کہ میرے کپڑے ناپاک
ہیں۔ اگر پھر بھی کبھی نماز پڑھ لی تو ہماری نمازوں کا یہ حال ہے
قارئین کرام : نماز ہمیں پابندی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے تاکہ ہم اﷲ تعالی
کی بارگاہ میں سرخرو ہوں۔ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں تاکہ اس کی
حلاوت سے ہمارے سینے پرنور ہوں۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو پنج گانہ نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
|