دردِ دل کے واسطے

یہ محض ایک آرٹیکل نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے معاشرے کا عکس ہے۔ میری قارئین سے درخواست ہے اس آرٹیکل کا مطالعہ انسانیت کا درد محسوس کرتے ہوئے کریں۔یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں ۔ وہاں بہت سارے لوگ ہیں جو مجبور ہیں مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ہمیں اپنے گلی، محلوں میں ایسے بے شمار لوگ ملیں گے۔ اگر یہ سوچیں کہ انسانیت کی خدمت کا ٹھیکا ہم نے نہیں اٹھایا ۔تو یاد رکھیے گا خدا نہ کرے کہ ہم پر ایسا وقت آ جائے جب ہم مجبور تو ہو مگر کسی سے مدد کی درخواست کرتے وقت زبان ہمارا ساتھ نہ دے۔

زندگی جیسی عظیم نعمت ایک ہی بار ملتی ہے ۔ اس بات کو جتنا جلدی سمجھ لیا جائے ، اتنا ہی انسان کے لیے بہتر ہے ۔ زندگی کو جینے کا ہر انسان کا اپنا طریقہ ہے ۔ ہر شخص کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔اولادِ آدم کی زندگی بے شمار خواہشات اوران خواہشات کے حصول میں کٹ جاتی ہے ۔حضرت انسان ان خواہشات کے حصول کی خاطر صراطِ مستقیم سے ہٹ جاتا ہے ۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کامیابی کے مختصر راستے ڈھونڈتا ہے ۔ یہ راستے بظاہر تو بہت خوشنما ہوتے ہیں مگر ان راستوں کی حقیقت بہت تاریک ہوتی ہے ۔ان راستوں کا اختتام ایک ایسے موڑ پر ہوتا ہے جو اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے ۔ جہاں پر انسان کا واپس مڑنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ تب انسان سوچتا ہے کہ کاش میں نے کامیابی کے مختصر راستے کو اختیار نہ کیا ہوتا ۔ انسان تب تمنا کرتا ہے کہ اسے دوسرا موقع ملنا چاہیے مگر تب اسے دوسرا موقع نہیں ملتا ہے ۔انسان کو دوسرا موقع کیوں نہیں ملتا ہے ؟ جب کہ اللہ تعالی اپنے کلام برحق قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے’’ میری رحمت سے ناامید مت ہونا۔‘‘دیواروں پر ، کتابوں پر ’’مایوسی گناہ ہے ‘‘ لکھ دینا بہت آسان ہے ۔ ’’مایوس وہ ہو جس کا خدا نہیں ہے ‘‘ یہ بات کہہ دینا یا لکھ دینا میرے لیے کچھ مشکل نہیں ہے ۔خدا تو سب کا ہوتا ہے تو انسان کیوں مایوس ہوتا ہے ؟ ’’ایک انسان جب ایک ایسے گھرانے میں پرورش پاتا ہے جہاں پر والدین کی چپقلش اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ باپ نے الگ راستہ کر لیا ہو ۔ اپنی اولاد کو بے سرو سامانی کی حالت میں چھوڑ کر اپنے کسی خواب کی تکمیل میں نکل پڑا ہوں ۔جب اس کی اولاد سکول جانے کی عمر میں تھی تو تب اس اولاد کو گھر کا چولہہ جلانے کے لیے روزگار کی تلاش میں نکلنا پڑ جائے ۔ جب چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ دار ی ماں کے بعد بڑے بھائی پر آجاتی ہے ۔جب اس نے اپنی تمام خواہشات کا گلا دبا کر اپنے بھائیوں اور بہنوں کی کفالت کا ذمہ لیا ہو گا تو وہ تب مایوس نہیں ہوا ہو گا ۔ کیو نکہ تب اسے صرف باپ نے ڈھکرایا تھا ۔ وہ دن رات ایک کرکے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش کرتا ہے ۔ اپنے بھائیوں کو وہ اس قابل کرتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ۔وہ کبھی باغبانی کرتا نظر آتا ہے اور کبھی گدھا ریڑھی چلاتا نظر آتا ہے ۔ معاشرہ بھی ساتھ ساتھ اسے مایوس کرنے میں مکمل طور پر مصروف ہوتا ہے ۔ اس کے بھائی کو سکول میں اس بات پر ساری کلاس کے سامنے کھڑا کرکے مارا جاتا ہے کہ اس نے یہ کیوں نہیں بتایا ہے کہ اس کا ابو زندہ ہے ۔ ایک استاد جو معمارِ قوم ہوتا ہے میرا خیال ہے اسے شائد اس بات کا خیال ہونا چاہیے تھا کہ اگر کوئی بچہ کہتا ہے کہ اس کا ابو نہیں ہے اور کوئی دوسرا اسے آ کر بتاتا ہے کہ اس کا ابو ہے تو بجائے کہ بچے کو پھینٹی لگانے کے بچے کے جھوٹ بولنے کی وجہ بھی پوچھ لینی چاہیے ۔استا د کے لیے بچے کو اس بات پر مارنا ایک معمولی بات تھی مگر بچے کے لیے دل پر ایک گہری چوٹ تھی۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ تھا۔ بڑے بھائی نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اسکے چھوٹے بھائی کے ہمجولی مل کر اس بھائی کی طرف اشارہ کرتے تھے اور پھر ظنزیہ انداز میں مسکراتے تھے۔ مگر وہ پھر بھی مایوس نہیں ہوا تھا ۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھتا گیا ۔ ایک بھائی اپنے بڑے ’’بھائی‘‘ کا دایاں ہاتھ بنا۔ بھائی کو سہارا ہوا۔ تب اس نے سوچا کہ میرے گھر والوں کے لیے خالص دودھ ہونا چاہیے ۔ خالص دودھ کے لیے ایک عد د بھینس کا ہونا لازمی تھااور بھینس خریدنے کے لیے پیسوں کا ہونا لازم و ملزوم تھا ۔ چنانچہ کچھ پیسے بھائی نے دیے اور کچھ بینک سے رقم ادھار لی ۔ بھینس تو آ گئی مگر بھینس اپنے ساتھ سود کا قرض لائی تھی۔ جو بظاہر دینے میں تو آسان تھا ۔ ایک خوشنما ر راستہ تھا۔ قرض ادا ہو گیا ۔ پھر سوچا کہ بھینسوں کا وپار کیا جائے ۔ بینک کی بھر یاد آئی ۔ اس دفعہ کچھ زیادہ رقم قرض لے لی۔ دوسری طرف سب سے چھوٹا بھائی کچھ وجوہات کی بنا پر سب کو چھوڑ کر اپنے ’’ابو جان‘‘ کے پاس چلا گیا ۔ معاشرے نے طعنہ دیا کہ اگر ایک ایک کرکے ہی جانا ہے تو اکٹھے جا کرکے صلح کیوں نہیں کر لیتے؟ بچپن سے لے کر اب تک بھائیوں کو پالا تب اس کی کمانے کی باری آئی تو وہ باپ کے چلا گیا۔ کہا کہ لڑائی جھگڑے تو ہوتے رہتے ہیں مگر میرے بابا جان بہت پیار کرنے والے ہیں ۔شائد وہ ٹھیک کہتا ہو کیونکہ بابا جان تب بھی بہت پیار کرتے تھے تب انہوں نے اپنی بیوی بچوں کو مار پیٹ کر اپنے آپ سے الگ کر لیا تھا۔ ’’بڑے بھائی ‘‘ کو چھوٹے بھائی کا غم دکھی کر گیا تھا ۔ شائد جب ایک انسان جس پر بہت سی توقعات ہو ، وہ اس موقع پر چھوڑ کر چلا جائے تو انسان مایوس ہو ہی جاتا ہے ۔ اپنے ساتھ وپار کرنے والوں کی بد دیانتی کی وجہ سے وپار میں گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑا۔ کامیابی کا مختصر راستہ ڈھونڈنے کے لیے بنک سے قرضہ لیا تھا ۔مگر اب وہ قرض بھی لوٹانا مشکل ہو گیا تھا۔ بینک کی بیشتر وارننگ کے بعد قرض نہ لٹایا گیا ۔ اس کے بعد بینک کی طرف سے پولیس کا چھاپہ پڑ گیا ۔ ’’بڑے بھائی‘‘ تھانے میں دو راتیں گزار کر آئے۔ اپنے دوست جن کے ساتھ کاروبار کیا تھا ، وہ اب پرچہ کٹوانے کی بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ کیا کریں پیسہ چیز ہی ایسی ہے ۔‘‘ان حالات میں ہمارا معاشرہ بے حس ہو جاتا ہے ۔ وہ کسی کو دوسرا موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے ۔ لوگ ’’بڑے بھائی‘‘ کو دیکھ کر طرح طرح مثالیں دیتے ہیں ۔طنزیہ جملے کسے جاتے ہیں ۔ ؂ درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو ۔ یہ شعر کسی کونے میں چھپ کر سسکیاں بھر رہا ہوتا ہے ۔مگر میں چاہتا ہوں اس شعر کی سسکیاں خوشی آنسوؤں میں بدل جائیں ۔ کیونکہ دردِ دل رکھنے والے ابھی زندہ ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ انسان کو اپنی اصلاح کرنے کا دوسرا موقع دے۔ جس طرح اللہ پاک ہمیں ایک دن میں نجانے کتنے مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم غلطیوں سے سبق سیکھ لیں ۔ اسی طرح ہمیں دوسروں کے لیے درد دل رکھنا چاہیے۔

نوٹ: میری قارئین سے درخواست ہے کہ اس آرٹیکل کو دل میں انسانیت کا دردرکھتے ہوئے پڑھا جائے ۔یہ حقیقت پر مبنی ایک آرٹیکل ہے اور واقعی اس بھائی کومالی مدد کی ضرورت ہے ۔اس نے تقریباً 2لاکھ روپے فوری قرض ادا کرنا ہے ۔ مخیر حضرات سے نہایت ادب سے اپیل ہے کہ اس بھائی کی مالی مدد کریں ۔ اس بھائی نے وعدہ کیا ہے وہ سال کے اندر رقم واپس لوٹا دے گا۔ جزاک اللہ !!!

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40674 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More