ایک پُرمغز مقالہ
اس مقالے کے مطالعہ کے بعد آپ کو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ سفّاک ملک
دشمن ایجنٹوں نے وزارتِ تعلیم اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں جو نصاب کی
بربادی کا گھناؤنا کھیل کھیلا اور اس کی تباہ کاریوں کو پڑھے لکھے پنجاب
اور مفت کتابوں کی اشتہاری مہم کے دھوئیں میں چھپانے اور زہر کو تریاق
بناکر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، وقت کے منصف کو اس جرم کے
ذمہ دار مجرموں کو ایسی کڑی سزا دینی چاہیے کہ آنے والے دور کا کوئی پرویز
الٰہی اور شہباز شریف نصاب کو چند ٹکوں کی بھیک کے عوض عالمی بینک ، ایشین
بینک ، یو ایس ایڈ، آئی ایم ایف یا کسی اور ایجنسی کو بیچنے کی کوشش نہ
کرے۔جہالت اور ضمیر فروشی کے مذکورہ سرچشموں سے پھوٹنے والی مسموم کرنیں کس
طرح خرمنِ علم و فن کو نذرِِ آتش کرتی اور نسلِ نو کے مستقبل کو تاریک
بناتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
نصاب سائنس کا ہو یا آرٹس کا ،کچھ اصول و ضوابط کی بنیاد پر تیار کیا جاتا
ہے۔ بچوں کی نفسیات،ذہنی سطح،زبان،ابلاغیات،تہذیب و ثقافت اور زمینی و
جغرافیائی حالات کے پیمانوں سے پیمائش کرکے نصاب کی موزونیت کا جائزہ لیا
جاتا ہے اور پھر تحقیق وجستجو کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد اسے
نافذالعمل کیا جاتا ہے۔مگر موجودہ سائنسی نصاب کسی اصول اور کسی ضابطے کا
پابند نظر نہیں آتا۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ نصاب ملک و قوم کی سائنسی بنیادوں
پر تیشہ چلانے کے لیے تیار کیا گیا ہو۔اور اس کی منصوبہ بندی کسی بند کمرے
میں بیٹھ کر کی گئی ہو۔۔نصاب سازوں نے جما عت اول سے لے کر جما عت دہم تک
کے سا ئنسی نصا ب کا ہما ری قو می زبان اور ثقا فت سے رشتہ مکمل طور پر کا
ٹ ڈا لا ہے۔ گذشتہ پچاس سا ل سے را ئج اردو زبان کی سا ئنسی اصطلا حا ت کا
سر ما یہ بیک جنبش قلم غا رت کر کے رکھ دیا ہے۔ اردو زبا ن کی تما م اصطلا
حا ت کو یکسر ختم کر کے انگر یزی زبان کی اصطلا حات اردورسم الخط میں لکھ
کر سا ئنسی فہم کے آگے نا قا بل عبو ر سمندر حا ئل کر دیا ہے تا کہ معصو م
نو نہا لا ن وطن سا ئنس کے نا م سے ہی خو ف کھا نے لگیں اور وہ الفاظ وفقرا
ت جو وہ اپنے ما حو ل اور مدر سے سے سیکھتے ہیں سا ئنس فہمی کے لیے ان کا
سا تھ نہ دے سکیں۔ کیو ں کہ کسی بھی قو م کو اگر کمزوراور اپا ہج بنا نا ہے
تو اسکی تعلیم کا رشتہ اسکی زبان سے کاٹ دیجیے وہ قو م درد کی مخفی ٹیسوں
سے کر اہتے
کر اہتے خود ہی دم تو ڑ جا ئے گی۔ میرا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر رہنے والا
کوئی شخص بھی اس نصاب کو نصابی اصول و ضوابط کے مطابق ثابت نہیں کر سکتا
۔ذرا مو جو دہ سا ئنسی نصا ب کی چند جھلکیا ں ملا حظہ فر ما ئیں
تیسری جما عت کی سا ئنس کی کتا ب کے صفحہ نمبر ۲ پر لکھا ہے کہ ’’گھا س میں
بڑی جڑ نہیں ہو تی بلکہ دھا گے کی طر ح کی بہت سی با ریک جڑیں ہو تی ہیں جن
کو فا ئبر س رو ٹس (fibrous roots )کہتے ہیں‘‘ آگے چل کر اس صفحے پر تحر یر
ہے کہ ’’ کچھ روٹس بہت مو ٹی ہو تی ہیں ان میں خو را ک جمع ہو تی ہے ان جڑو
ں کو ٹیو بر س رو ٹس (tubrous roots )کہتے ہیں‘‘ فا ئبر س اور ٹیو بر س دو
نو ں انگر یزی زبا ن کے الفا ظ ہیں۔
فا ئبر س کا مطلب دھا گہ نما یا ریشے دار اور ٹیو بر س کا گٹھ دار ہے۔ بچہ
دھا گہ نما یا ریشے دار، گٹھ دار اور جڑ کے الفا ظ اپنے گھر اور ما حول سے
سیکھ جا تا ہے۔ ان الفا ظ و اصطلا حا ت کے سا تھ اسے بات سمجھا نا انتہا ئی
آسا ن ہے کیو نکہ ان ما نو س الفا ظ کا استعما ل اس کی ذہنی سطح اور تعلیمی
نفسیا ت کے عین مطا بق ہے۔ بچہ دھا گہ نما جڑو ں اور گٹھ دار جڑوں کا اپنی
عملی زندگی میں مشا ہدہ بھی کر تا ہے۔ ما حو ل میں ان الفا ظ کا با ر با ر
استعما ل اسکے سا ئنسی فہم کو مزید پختہ کر دیتا ہے۔ مگر نئے سا ئنسی نصاب
میں اسے غیر ما نو س ،ماحول سے منقطع، مشکل اور انگریزی کے الفا ظ کو غیر
فطری اندا ز میں لکھ کر بچے کو ایک اذیت نا ک کیفیت سے دو چا ر کر دیا گیا
ہے۔ اسکے سا ئنسی تصورات کو دھندلا نے کی کو شش کی گئی ہے۔ اسی کتا ب کے
صفحہ نمبر ۵ پر یہ فقرہ ملا حظہ فر ما ئیے ’’پھو ل دار پو دا جس پر سفید
پھو ل لگے ہو ں اسکی شو ٹ کاٹیں۔اس شوٹ کو رنگدارپا نی والے بیکر میں
ڈالیں‘‘بچہ لفظ ’’ پو دے کا با لا ئی حصہ یا تنا ‘‘ جو اپنے ما حو ل سے
سیکھتا ہے اب اس کوسائنسی فہم کے حصو ل میں کو ئی مدد نہیں دے سکے گا ۔ اب
اسے انگریزی کا لفظ " شوٹ " اردو رسم الخط میں لکھنا، پڑھنا، سمجھنا اور یا
د کرنا پڑے گا۔ اس مضحکہ خیز فقرے میں شو ٹ کے مونث ہو نے کا فیصلہ نصا ب
سا زو ں نے پتہ نہیں کیسے کیا ہو گا؟ صفحہ نمبر ۹ پر سر خی ہے ’’ سمپل اور
کمپا ؤ نڈلیف (سا تھ انگریزی کے الفاظ بھی لکھنے کی زحمت گوا ر انہیں کی
جیسے یہ اردو زبا ن کے الفا ظ ہو ں)۔ پہلے تو بچے کو سمپل،
کمپا ؤ نڈاور لیف کے معنی بتانا پڑیں گے پھر ان اجنبی الفا ظ کو
لکھنا،سمجھا نا اور یا د کر وا نا پڑ ے گا جو فقط رٹے کے ذر یعے ہی ممکن ہے
کیو نکہ گھر، ما حو ل اور مدرسے میں جو الفا ظ مستعمل نہ ہو ں انہیں ذہن
نشیں کر نے اور یا ددا شت کا حصہ بنا نے کے لیے صر ف رٹالگاناپڑتا ہے۔ ان
الفاظ کی جگہ پر ’’ سا دہ اور مر کب پتہ‘‘ خو د بخو داپنے معنی اور مفہو م
ادا کر تا ہے۔ اب خو دبخودمعنی اور مفہو م اخذکر نے کے عمل کو سمپل اور
کمپا ؤنڈلیف لکھ کر رو کنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ بچے سے اسکی تخلیقی صلا
حیت سلب کر کے اسے رٹے با زی کے لیے تیا ر کیا جائے۔ اسی کتا ب کے صفحہ
نمبر ۲۱ پر پر ند وں کی تعر یف کے ضمن میں تحریرہے۔’’ ان کی ایک چو نچ ہو
تی ہے اڑنے کے لیے دو ونگزہو تے ہیں‘‘ یہا ں ونگز کو اس اندا ز سے لکھا ہے
جیسے یہ اردو زبا ن کا لفظ ہو اور ما حو ل میں مستعمل ہو اور فقر ے کو
اجنبی اور غیر ما نو س بنانے کے لیے ’’پر وں‘‘ کی بجا ئے ونگز لکھا گیا ہے
تا کہ بچے کے ذہن میں مو جو د پر وں کے تصور کو ونگز کے ساتھ گڈ مڈ کر کے
بچے کے لے مشکلا ت پید ا کی جا ئیں۔ اگر پروں کو ونگز لکھنا ہے تو ہاتھ کو
ہینڈ،ٹانگ کو لگ،بازو کو آرم ،منہ کو ماؤتھ ،انگوٹھے کو تھمب الغرض کوئی
بھی لفظ اس حماقت انگیز دست برد سے نہیں بچ سکے گا۔
اگر آپ کسی گو رنمنٹ سکو ل کی تیسری جما عت میں جا ئیں اور بچو ں سے سوا ل
کر یں کہ سبزی خو ر یا سبزہ خو ر جا نو ر کو ن سے ہیں تو امید و اثق ہے کہ
بیشتر بچے ان جا نو رو ں کے نا م بتا دیں گے جو سبزہ کھا تے ہیں اور اسی
طرح اگر ان سے گو شت خو ر اور ہمہ خو ر جا نو رو ں کے با ر ے میں پو چھیں
تو وہ ان جا نو رو ں کے نا م بتا دیں گے جو گو شت کھا تے ہیں اور ان کے بھی
جو ہمہ قسم کی اشیا ء کھا تے ہیں ۔ اسلیے کہ سو ال آپ نے ان کی ذہنی سطح،
زبا ن اور ما حو ل کی مطا بقت سے پو چھے ہیں۔ اگر اس کی بجا ئے آپ ان سے ہر
بی وورز،کا رنی وورز اوراومنی وورز جا نو روں کے با رے میں پو چھیں تو تمام
بچے خا مو ش رہیں گے کیو نکہ ان الفا ظ کے سا تھ ان کے وا لدین اور ما حو ل
نے ان جا نو رو ں کا تعا رف نہیں کر وا یا ۔ اس طر ح کے الفا ظ ایف ایس سی
سے پہلے کبھی نہیں استعمال ہو ئے تھے اگر کبھی ہو ئے بھی تھے تو پہلے اردو
کا لفظ لکھا تھا اور سا تھ ہی بر یکٹ میں انگر یزی کا لفظ تھا مثلاًگو شت
خو ر (carnivores)۔مگر اب بر اہ را ست انگر یزی کے الفاظ ا ردو رسم الخط
میں لکھنا اور سا تھ اردو میں معنی بھی نہ لکھنا عجیب اور ناقابل فہم سی
منطق ہے ۔ یہ منطق تو اسی وقت قا بل فہم ہو سکتی ہے جب بچے ماں کے پیٹ سے
ہی انگریزی کے یہ الفاظ سیکھ کر پیدا ہو ں ۔
صفحہ نمبر ۴۶ با ب نمبر ۶ کا عنوا ن ’’مو شن او رفو رس‘‘ رکھا گیا ہے۔ حر
کت اور قوت کے الفا ظ بچے کو سکھا نے کی ضرو رت نہیں ہے۔ان الفاظ کے ساتھ
کوئی بھی فقرہ اگر بولا جائے گا تو بچہ فوراً اس کا مفہوم سمجھ جائے گا
۔کیونکہ اس کی روز مرہ کی گفتگو میں یہ الفاظ بار بار دہرائے جاتے ہیں جس
سے حرکت اور قوت کا تصور اس کے ذہن میں پختہ ہو جاتا ہے۔اب حرکت کو موشن کے
ساتھ اور قوت کو فورس کے ساتھ بدلنا اور ساتھ ان الفاظ کے معنی بھی نہ
لکھنا در اصل بچے کے سائنسی تصورات کو غیر معروف اور اجنبی الفاظ کے ساتھ
وابستہ کرکے مبہم اور ناقابل فہم بنانا ہے۔اسی طرح صفحہ نمبر۴۴،۵۴اور ۶۱ پر
رگڑ کی بجائے فرکشن،بجلی اور مقناطیسیت کی بجائے الیکٹریسٹی اور
میگناٹزم،جنوبی اور شمالی قطب کی بجائے ساؤتھ اور نارتھ پولزاور زمین کے
خدوخال میں تبدیلی کی بجائے لینڈ سکیپ میں تبدیلی لکھا گیا ہے۔یہ چند
مثالیں فقط تیسری جماعت کی سائنس کی کتاب سے دی گئیں ہیں۔اس کے علاوہ بے
شماردیگر اصطلاحات کو ایسے ہی غیر فطری انداز میں لکھ کر تیسری جماعت کے
معصوم بچوں کے لیے ناقابل فہم بنا کر رکھ دیا ہے۔اس کے بعد
چہارم،پنجم،ششم،ہفتم،ہشتم،نہم اور دہم کی سائنس کی کتب میں تو اس انداز سے
اصطلاحات کا وہ طوفانِ برپا کیا گیا ہے جس کی مثال دنیا کی نصابی تاریخ میں
ملنا محال ہے۔ اس طوفانِ بدتمیزی "نصابی پاگل پن" ہی کہا جا سکتا ہے۔
اب چوتھی جماعت کی کتاب سے چند اصطلاحات کی مثالیں پیش خدمت ہیں جو بچے کے
سائنسی تصورات کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے بھی بڑی رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب
ہیں۔مثلاً پولینیشن،فرٹیلائیزیشن، انفلوریسینس،سولیٹری
پھول،انسیکٹس،اووریز،مونوکاٹی لیڈنز،ڈائی کاٹی
لیڈنز،جرمینیشن،سینسآرگنز،ڈائیجیسٹوسسٹم،سرکولیٹریسسٹم،ایکسکریٹریسسٹم،ریسپائریٹری
سسٹم،پولیوشن،انرشیا،ریفلیکشن،پلین مرر میں
امیج،ریفریکشن،وائیبریشنز،میگنیٹک میٹیر یل ا ور ورچوئل امیج وغیرہ استعمال
کیے ہیں جن کے معانی اور مفہوم بتائے بغیرہی نصاب میں شامل کر لیا گیا
ہے۔ذرا چوتھی جماعت کے بچے کی ذہنی سطح دیکھیے اور ان الفاظ کو دیکھیے
۔چھوٹے بچوں کے لیے یہ الفاظ ذہنی ٹارچر کا ذریعہ نہیں تو اور کیا ہے؟۔جن
بیچاروں کو ابھی اردو کے چھوٹے چھوٹے اور آسان فہم الفاظ لکھنا نہیں آتے
انہیں اس قدر مشکل ،غیر مانوس اور معانی و مفہوم سے عاری الفاظ لکھنے پر
مجبور کرنا سمجھانا،یاد کروانا کس قدر مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے اس کا
اندازہ کرنا محال ہے۔ان اصطلاحات کو اردو اصطلاحات کی جگہ براہِ راست لکھ
کر بچے اور استاد دونوں کو سزا دی گئی ہے ۔جتنی توانائی،جتنی محنت اور جتنا
وقت صرف کر کے بچے یہ الفاظ سمجھیں گے،یاد کریں گے اور ان کو لکھنا سیکھیں
گے اتنے وسائل خرچ کر کے وہ سائنس کا پورا نصاب امتحان کے لیے سمجھ کر
تیارکر سکتے ہیں۔اسی طرح استاد کو بھی پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ توانائی
خرچ کرکے بچے کو سمجھانا اور یاد کروانا پڑے گا۔
میٹرک کی سطح تک سائنسی نصاب کا قومی زبان میں رائج ہونا ایک امید کی کرن
تھی کہ کسی وقت بھی پاکستانی قوم اس بنیاد پر جدید علوم و فنون کی بلند و
بالا عمارت تعمیر کر سکتی ہے۔ مگر نہ جانے کیا سوچ کر اس بنیاد کو ہی مسمار
کرکے رکھ دیا گیا ہے۔بہرحال جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا ہے ملک و قوم کے
خلاف کیا ہے۔چاہے کسی دباؤ پر کیا ہے یا کسی فردِ واحد کی سوچ کو عملی جامہ
کے لیے ۔اللہ تعالیٰ اربابِ اختیار کو دوبارہ سائنس کے سابقہ نصاب کو بحال
کر نے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
آیئے چند نمونے پانچویں جماعت کی کتاب سے لیتے ہیں۔کتاب مذکورہ کے صفھہ
نمبر۲۸ اور ۲۹ پر پروڈیوسر(producers )،کنزیومرز(consumers )اور ڈی
کمپوزرز(decomposers )کے عنوانات بغیرمعانی و مفہوم کے درج کر دیئے گئے
ہیں۔ اسی طرح آگے چل کرگریوی ٹیشنل فورس،نیچرل فورسز،روشنی کی
ریفلیکشن،پیرالل ریزاور بے شمار دیگر الفاظ براہ راست لکھ کر فہم و توضیح
کا بہت بڑا خلا پیدا کر کے نسل نو کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔
صفحہ نمبر ۱۰۹پر روشنی کے دو قوانین کی تعریفیں ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔جب روشنی ایک پلین مرر سے ریفلیکٹ ہوتی ہے تو اس کا اینگل آف
ریفلیکشن(reflection )،اینگل آف انسیڈینس(incidence )کے برابر ہوتا ہے۔
۲۔انسیڈینٹ رے(incident ray )،عمود اور ریفلیکٹیڈ رے(reflected ray ) ایک
ہی پلین (plane ) میں ہوتے ہیں۔
سابقہ نصابی کتب میں ان قوانین کو اردو زبان میں اس انداز سے لکھا تھا۔
۱۔جب روشنی ایک مستوی(ہموار) آیئنے سے منعکس ہوتی ہے تو اس کا زاویہء
انعکاس زاویہء وقوع کے برابر ہوتا ہے۔
۲۔شعاع واقع،عمود اور شعاع منعکس تینوں ایک ہی مستوی پر واقع ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا قوانین کے دونوں انداز ملاحظہ کیجئے اور فیصلہ کیجیے کہ کون سا
انداز زیادہ آسان ،عام فہم اور بچوں کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھتا ہے؟مذکورہ
قوانین میں نصاب سازوں نے باقی تمام اصطلاحات کے انگریزی الفاظ کو اردو رسم
ا لخط میں لکھ دیا ہے مگر عمود کے لفظ کو ویسے ہی لکھ دیا ہے۔ شائد اس کے
انگریزی لفظ کو اردو رسم الخط میں لکھنا ان کے لیے بھی مشکل ہو۔اگر لکھ بھی
دیتے تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ الفاظ ان کے بچوں نے تھوڑا پڑھنا
ہیں؟۔انہیں پڑھنا تو متوسط اور غریب لوگوں کے بچوں نے ہے۔ اگر میں کہوں کہ
یہ سب کچھ انہیں کے بچوں کو پڑھنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے تو بے جا نہ
ہو گا۔
روشنی کے مذکورہ بالا قوانین پہلے میٹرک کی فزکس کی کتاب میں تھے۔ اب ان کو
پانچویں جماعت کی سائنس میں شامل کر دیا گیا ہے جوکہ پانچویں جماعت کے بچوں
کی ذہنی سطح سے بہت ماورا ہیں۔اس پر طرّہ یہ کہ ان کو لکھا ایسے غیر فطری
اور پیچیدہ انداز سے ہے کہ بچہ تو بے چارہ رہا ایک طرف،اس کے استاد کو بھی
چکرا کے رکھ دیا ہے۔اس لیے کہ انگریزی الفاظ و اصطلاحات کے معنی لکھے بغیر
انہیں سمجھانا کیسے ممکن ہے؟مثال کے طور پر اگر انگریزی کا لفظ گوٹ(goat
)لکھا جائے اور ساتھ یہ لکھا جائے کہ گوٹ ایسا جانور ہوتا ہے جس کی چار
ٹانگیں ہوتی ہیں،دو سینگ ہوتے ہیں،جسم پر بال ہوتے ہیں،وہ ایسے اور ایسے
چلتا ہے ا ور یہ یہ اشیاء کھاتا ہے تو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آئیگی جب
تک گوٹ کے معنی بکری نہیں لکھا جائے گا۔نصاب سازوں نے بالکل یہی انداز
اپنایا ہے۔ذرا روشنی کے مذکورہ قانون پر غور کریں کہ اینگل آف انسیڈینس
برابر ہوتا ہے اینگل آف ریفلیکشن کے۔اس فقرے میں اینگل،انسیڈینس اور
ریفلیکشن کے معنی کیا ہیں؟جب تک اینگل کے معنی زاویہ ،انسیڈینس کے معنی
وقوع اور ریفلیکشن کے معنی انعکاس نہیں بتائے جائیں گے ،بات کیسے سمجھ آئے
گی؟پھر ان الفاظ کو لکھنا کتنا مشکل ہے؟اس کے برعکس زاویہ،وقوع اور انعکاس
کے الفاظ انتہائی آسان اور روزمرہ زندگی مین بھی مستعمل ہیں اور کافی حد تک
اپنے معنی خود دیتے ہیں۔اس انداز سے استعمال کی گئی اصطلاحات نے اساتذہ
،والدین اور بچوں کو عجیب سے مخمسے اور الجھن میں ڈال دیا ہے۔پہلی سے دسویں
جماعت تک ہزارہا اصطلاحات کو مذکورہ انداز میں لکھ کر فہم سائنس کے راستے
میں ایسا سنگ گراں ڈال دیا ہے جسے ہٹانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔
آئیے ذرا تفصیل کے ساتھ سائنسی نصاب کی مذکورہ تبدیلی کے تضادات و مضمرات
کا جائزہ لیتے ہیں۔
سات رنگا تضاد۔جب انسان کے پاس کسی کام کا انداز کار واضح نہ ہو یا وہ
بوکھلاہٹ کا شکار ہوتو وہ پھر ایسی حرکتیں کرتا ہے جو اسکی اپنی ذات پر عدم
اعتمادی اور غیر یقینی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔نصاب میں اصطلاحات کے
استعمال کا خاکہ واضح نہ ہونے کی بنا پر نصاب سازوں نے بار بار گرگٹ کی طرح
اصطلاحات کے استعمال کا رنگ تبدیل کیا ہے۔اس بوکھلاہٹ اور ضیر یقینی صورت
حال میں ان کو خود بھی نہیں پتہ چلا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ؟ذرا یہ رنگ
ملاحظہ کیجئے۔
پہلا انداز۔پہلے انداز میں اردو رسم الخط میں انگریزی کا لفظ اور ساتھ
بریکٹ میں اسی لفظ کو انگریزی میں لکھتے ہیں۔ مثلاًتیسری جماعت کی کتاب کے
صفحہ ۱۵،۱۶،۲۳،۲۴ پر ملاحظہ فرمائیے ۔راؤنڈ ورمز(round worms)،فلیٹ
ورمز(flat worms)،ارتھ ورمز(earth worms)،انسیکٹس(insects)،ہربی وورز(herbi
vores)،کارنی وورز(carni vores)،اومنی وورز(omnivores)وغیرہ۔
دوسرا انداز۔پہلے اردو کا لفظ لکھتے ہیں اور بریکٹ میں اس کا انگریزی میں
ترجمہ لکھتے ہیں۔مثلاًچوتھی جماعت کی کتاب کے صفحہ ۱۸ پرنمکیات(salt)،صفحہ
۲۸پر مسکن(habitat)،پانچویں کی کتاب کے صفحہ۱۸پر دماغ کا اگلا حصہ(fore
brain) ،صفحہ ۱۹ پر تحریک(stimulus)،صفحہ ۲۳ پر غذائیت کی
خرابی(malnutrition)وغیرہ۔
تیسرا انداز۔اردو زبان میں کسی اصطلاح کو لکھنا اور یا کے ساتھ انگریزی کا
لفظ اردو رسم الخط میں لکھنا مثلاًپانچویں کی کتاب کے صفحہ۴،۵ اور ۶ پرقلم
کاری یا کٹنگ(cutting )،پیوند کاری یا گرافٹنگ(grafting )، صفحہ ۱۵ پر
مثانے یا بلیڈر،صفحہ ۷۹پر جمود یا انرشیاؤغیرہ۔
چوتھا انداز۔عنوان اور اصطلاح کا ایک لفظ اردو کا اور دوسرا انگریزی
کا۔مثلاًپانچویں جماعت کی کتاب کے صفحہ۸۸ پر حرا رتی انرجی، رو شنی کی
انرجی ، آوا ز کی انر جی ، صفحہ ۱۰۴ پر با قا عدہ ر یفلیکشن، بے قا عدہ
ریفلیکشن ۔ چو تھی جما عت کی کتا ب کے صفحہ ۳۱ پر پو لیو شن کے ذرائع و
غیرہ ۔
پا نچوا ں انداز۔تما م ا نگر یزی الفا ظ و اصطلا حا ت کو اردو رسم الخط میں
لکھنا مثلاً تیسر ی جما عت کی کتا ب کے صفحہ ۱، ۴،۹،۱۲،۴۲ پر روٹ سسٹم، شو
ٹ سسٹم ، سمپل اور کمپا ؤ نڈ لیف، سیپلز، پیٹلز، مو شن اور فو رس و غیرہ۔
چھٹا انداز۔انگریزی کا لفظ اردو رسم الخط میں اور بر یکٹ میں تر جمہ اردو
میں مثلاً تیسر ی کی کتا ب کے صفحہ ۱ پر روٹ(جڑ) پا نچو یں کی کتا ب کے
صفحہ ۲۳ پر مریسمس(marasmus)(سوکڑا پن) و غیر ہ ۔
سا تو اں انداز۔پہلے انگریزی کا لفظ اردو رسم الخط میں اور / کے سا تھ اردو
تر جمہ مثلاً پا نچو یں کی کتا ب کے صفحہ ۲۳پر میڈیسن /دوائی(میڈیسن) صفحہ
۱۰ پر خو ن کی نا لیوں / بلڈ ویسلز و غیرہ۔
مذکورہ ا صطلاحات و تراکیب کے استعمال میں عدم تسلسل نصاب سازوں کے ذہنی
انتشاراور غیر واضح نصابی حکمت عملی کا ایک واضح ثبوت ہے۔
کوئی ہے جو میرے سوالوں کا جواب دے۔؟
رکھیو غالب مجھے تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
نصاب ساز، ان کے معاونین و رفقاء ،پالیسی ساز اور اصطلاحات کے مروجہ نظام
کو بدلنے کے احکام صادر کرنے والوں سے میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔کسی
میں اتنی علمی ،اخلاقی اور تحقیقی جراء ت ہے کہ وہ میرے سوالوں کا جواب دے
سکے؟
پہلا سوال۔اصطلاحات کا نظام درہم برہم کرنے سے پہلے کن لوگوں نے اس پر
تحقیق کا کام کیا؟ اور کس طرح کیا؟ کن اداروں کے کتنے بچوں پر اس نصاب کی
تحقیقی آزمائش کی گئی؟کتنے متعلقہ اساتذہ کرام وماہرین تعلیم سے صلاح و
مشورہ کیا گیا؟جمع شدہ اعدادو شمار اور اس سے اخذ شدہ نتائج کیا تھے؟ ان
نتائج سے کیسے اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ اردو اصطلاحات کی بجائے انگریزی کے
الفاظ اردو رسم الخط میں لکھے جائیں تو بچوں کو زیادہ سمجھ آئے گی ؟پرانا
نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیوں نہیں تھا ؟ اور نیا نصاب جدید قومی
تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ ہے؟ کیا جدید دور کا تقاضا یہ ہے کہ نصاب کومشکل
ترین بنا کر رکھ دیا جائے؟
دوسرا سوال۔نصاب سازی کے لیے انہی لوگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا؟اور کس
میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا؟ان کی نصابی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کون سے
پیمانے استعمال کیے گئے؟کیا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں موجود سابقہ نصاب ساز
اب نصاب سازی کے اہل نہ تھے؟موجودہ نصاب سازوں کو ان پر کیا فوقیت حاصل
ہے؟اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ موجودہ نصاب سازوں کو سائنس کے پہلے سے موجود
ایک خوبصورت نصابی باغ کو اجاڑنے اور سائنسی کلچر کے فروغ میں رکاوٹ ڈالنے
اور مذموم سامراجی مقاصدکے لیے نہیں منتخب کیا گیا؟
تیسرا سوال۔ نصاب سازی سے پہلے کتنے ماہرین تعلیم کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا
گیا ؟ کیا ان کے نام بتائے جا سکتے ہیں؟کیا کسی ایک بھی معروف ماہر تعلیم
کا نام بتایا جا سکتا ہے جس نے انگریزی الفاظ و اصطلاحات کو اردو رسم ا لخط
میں لکھ کر پڑھنے اور نصاب تیار کرنے کا مشورہ دیا ہو؟ مجھے کامل یقین ہے
کہ نصاب سازوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا نہ آج ہے اور نہ ہی کل
ہوگاَ۔اور دنیا بھر کی نصاب سازی سے متعلق کتابیں چھان لینے کے بعد بھی
نہیں دے سکیں گے۔آزمائش شرط ہے۔
چوتھا سوال۔کیا دنیا کے کسی بھی معروف ماہر نصابیات نے اپنی قومی زبان چھوڑ
کر کسی غیر ملکی زبان میں نصاب تیار کرنے اور پڑھانے کی تجویز پیش کی
ہے؟کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال موجود ہے کہ کسی ملک نے اپنی قومی زبان کے
بجائے کسی غیر ملکی زبان میں نصاب رائج کیا ہو اور ترقی کی ہو ؟اگر نہیں تو
پھر ہم اپنی قومی زبان میں نصاب تیار کرنے اور اسے رائج کرنے سے کیوں
گریزاں ہیں؟اگر جاپان میں جاپانی زبان ذریعہ تعلیم ہو سکتی ہے ۔چین میں
چینی ،جرمنی میں جرمن، فرانس میں فرانسیسی،روس میں روسی ،سپین میں ہسپانوی
ا ور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان کی اپنی زبانوں میں سائنسی نصاب پڑھایا
جا سکتا ہے تو پاکستان میں اردو زبان میں کیوں نہیں پڑھایا جا سکتا؟
پانچواں سوال۔اصطلاحات کے استعمال کا یہ ماڈل کس ترقی یافتہ ملک کا ہے؟کیا
اس ملک کے سائنسی نصاب سے اس ماڈل کی مثالیں دی جا سکتی ہیں؟اس ماڈل کے
پیچھے کون سی تحقیق کار فرما ہے؟یہ تحقیق کن لوگوں نے کی اور کس بین
الاقوامی تحقیقی جرنل (journal )میں شائع ہوئی؟ہمارے ملک کے زمینی ،
معاشرتی اور تہذیبی حالات کے آئینے میں یہ تحقیق اور اس کا اطلاق کس طرح
سود مند ثابت ہو سکتاہے؟اگر ایسا نہیں تو کیا کسی فرد واحد یا چندبا اثر
لوگوں کی رائے کو نصابی سانچے میں ڈھال لینا نصابی آمریت کی بد ترین مثال
نہیں ہے؟کیا قوموں کی تعلیم اور نصاب سازی کے فیصلے اس طرح کیے جاتے ہیں؟
چھٹا سوال۔نصاب تعلیم کے اصول و ضوابط پر مشتمل کتب جو پاکستان اور دنیا
بھرکی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں کیا ان میں سے کوئی ایسا اصول یا ضابطہ
کسی مستند کتاب کے حوالے سے دکھایا جا سکتا ہے جس میں انگریزی اصطلاحات و
الفاظ کو اردو رسم ا لخط میں لکھ کر سائنس پڑھانے سے متعلق تحقیق پیش کی
گئی ہو؟
ساتواں سوال۔اگر پورے پاکستان سے سائنسی مضامین کے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو ایک
جگہ پر بٹھایا جائے اور ساتھ ان نام نہاد نصاب سازوں اور ان کے سر پرستوں
کو بھی اور انہیں سائنس کی انگریزی اصطلاحات کو اردو رسم ا لخط میں لکھنے
کی املاء لکھائی جائے توکیا یہ حضرات لکھ پائیں گے؟۔یقیناً نہیں ۔ میں
چیلنج کرتا ہوں کہ نہیں لکھ پائیں گے۔ان کی فضیلت کے اعزاز اور امتیاز کے
ستارے ان کی اپنی ہی بنائی ہوئی اندھیر نگری میں گم ہو جائیں گے۔۔ کتنی ستم
ظریفی کی بات ہے کہ جن انگریزی الفاظ و اصطلاحات کو اردو رسم الخط میں یہ
خود نہیں لکھ سکتے ان کی چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے لکھنے کی توقع رکھتے
ہیں۔انہیں شائد یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ پاکستان کے بچوں نے اب ان کے
ذہنوں سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ بچہ تو فطری طور پر تحقیق و جستجو کا مادہ
لے کر پیدا ہوتا ہے مگر غیر فطری سائنسی نصاب اس میں تحقیق و جستجو کا مادہ
ختم کر کے فقط رٹّا لگا نے اور پاس ہونے کی فکر لاحق کر دیتا ہے اور اس
نصابی تبدیلی کا مرکزی نقطہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ان معصوموں کے ذہنوں
سے تجسّس و جستجو کا مادہ ہی ختم کر دیا جائے۔
آٹھواں سوال۔ کوئی بھی نصاب تحریری ابلاغیات(written communication )اور
تعلیمی نفسیات کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جا تا ہے۔کیا ابلاغ
مانوس،عام فہم اور مستعمل الفاظ کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے یا غیر مانوس،غیر
مستعمل ،مشکل اور کسی غیر ملکی زبان کے الفاظ میں؟کیا کوئی مائی کا لال اس
سائنسی نصاب کو ابلاغی اصولوں کے مطابق ثابت کر سکتا ہے؟نہیں ۔ہرگز
نہیں۔کیونکہ یہ ایک بیّن اور کھلی حقیقت ہے کہ تعلیم و تدریس کا کوئی بھی
نظام جس میں نفس مضمون کے فہم کو مشکل سے دو چار کر دیا جائے اس پر دنیا کے
کسی بھی نفسیاتی،تدریسی ،جدّت پسندی اور ابلاغی اصول کا اطلاق نہیں ہو
سکتا۔
نواں سوال۔نصاب سازی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ا س کا مرکزو محوربچہ ہوتا
ہے،نہ استاد،نہ والدین اور نہ معاشرہ۔نصاب میں بچے کی مزکزیت کا مطلب یہ ہے
کہ کوئی لفظ،جملہ اور عبارت ایسی نہیں لکھی جاسکتی جو بچے کے لیے مبہم
ہو۔مانوس الفاظ کی بجائے غیر مانوس الفاظ نہیں لکھے جا سکتے۔ایسے الفاظ جو
خود بخود اپنے معانی و مفہوم کوادا کرتے ہوں ان کی جگہ ایسے الفاظ نہیں
لکھے جاسکتے جن کے معانی استاد کو بتانا پڑیںیا لغت سے دیکھنا پڑیںیا جن کا
مفہوم ذہن نشیں کرنا مشکل ہویا کسی بھی اعتبار سے مبہم ہوں۔کسی دوسری زبان
کے الفاظ وہ بھی بغیر معانی و مفہوم کے غیر فطری انداز میں اور پھراردو رسم
ا لخط میں لکھ دینا کیا نصاب میں بچے کی مرکزیت کو ظاہر کرتا ہے؟ کیا کوئی
نصاب ساز اس نصاب کا مرکز و محور بچہ ثابت کر سکتا ہے ؟ ہرگزنہیں۔بچہ تو
رہا ایک طرف اس کا مرکزومحور نہ ہی استاد ہے اور نہ ہی معاشرہ بلکہ چندسطحی
ذہن رکھنے والے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی شخصیّت کے مصنوعی پن کو نصاب کی صورت
میں ڈھال دیا ہے۔نہ ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہے اور نہ ہی اپنی قومی زبان
پر۔ان کے مصنوعی اور غیر فطری تصورات و خیالات ہی دراصل ان کی پیچیدگی اور
احساسِ کمتری کا سبب ہیں۔ ورنہ جن قوموں نے اپنی زبان اور اپنی تہذیب پر
اعتماد کیا ہے انہوں نے تمام جدید علوم کو اپنی زبان کے سانچے میں ڈھال کر
رائج کیا ہے اور دنیا نے ان کی ترقی و خود انحصاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھا
ہے ۔کیا ان کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں ؟اور کیا ہم اس سے سبق حاصل
نہیں کر سکتے؟کیا یہ مافوق الفطرت قومیں ہیں۔جو اہداف انہوں نے اپنی قومی
زبان میں حاصل کیے ہیں ہم بھی انہیں اپنی قومی زبان میں حاصل نہیں کر سکتے؟
دسواں سوال ۔رٹّا کب لگایا جاتا ہے؟اس وقت جب الفاظ و فقرات مشکل اور اجنبی
ہوں۔جب الفاظ کے معانی و مفہوم سمجھنے کے لیے دقّت پیش آئے۔موجودہ سائنسی
نصاب سے رٹّے بازی میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور ہم سب لوگ جانتے ہیں کہ رٹّا
تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔جب براہ راست انگریزی الفاظ کو بغیر
معنی و مفہوم کے پڑھا اور لکھا جائے گا تو رٹّے میں کیسے اضافہ نہیں ہو
گا؟کیا کوئی نصاب کے نفسیاتی، تعلیمی اور ابلاغی پہلووں کو مد نظر رکھ کر
یہ ثابت کر سکتا ہے کہ یہ نصاب رٹّے بازی کو پروان نہیں چڑھائے گا؟میں دعوے
سے کہتا ہوں کہ یہ نصاب ساز اور ان کے صلاح کارسر کے بل کھڑے ہو کر بھی اس
نصاب کو رٹّے بازی کو فروغ نہ دینے والا نہیں ثابت کر سکتے۔
گیارھواں سوال۔کسی چیز کو اگر عام کرنا مقصود ہو تو اسے اس سطح تک لایا
جاتا ہے کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ میں آجائے۔بصورت دیگر وہ خواص کے لیے ہی
ہوگی عوام کے لیے نہیں۔اسی طرح اگر ہم سائنس کو عام کرنا چاہیں تو کیا اسے
آسان فہم زبان میں لکھنا پڑے گا یا کسی ایسی زبان میں جس کا فہم عام لوگوں
کے لیے مشکل ہو؟موجودہ سائنسی نصاب کو تو اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ
اچھے خاصے پڑھے لکھے والدین اپنے بچوں کو پرائمری سطح کی سائنس نہیں پڑھا
سکتے۔آرٹس کے اساتذہ کے لیے بھی اس سطح کی سائنس پڑھانا انتہائی مشکل
ہے۔کیا ان نصاب سازوں نے عام پڑھے لکھے افراد کے لیے بنیادی سائنسی تصورات
کو شجرِ ممنوعہ بنا کر نہیں رکھ دیا ؟کیا سائنس کو عام لوگوں کی پہنچ سے
دور کر دینا نصاب کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے؟ کیا یہ جدت ہے یا
سائنس فہمی کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کی کوئی سازش ؟
بارھواں سوال ۔خود انحصاری کیا ہے؟ اپنے وسائل و ذرائع سے اپنے استعمال اور
ضروریات کی چیزوں کو خود تیار کرنا۔اپنی زبان کی اصطلاحات کو چھوڑکر غیر
ملکی زبان کی اصطلاحات استعمال کر کے نصاب تیار کرنا کیا خود انحصاری کی
تعریف کے خلاف نہیں ہے؟ کیا اپنی زبان کے الفاظ و اصطلاحات نصاب کے لیے
اپنے ذرائع و وسائل کا درجہ نہیں رکھتے؟کیا اپنی زبان کو ذریعہ بنا کر
کتابیں لکھنا خود انحصاری ہے یا کسی غیر ملکی زبان کو ؟ کیا کسی قوم نے
کتابوں کی خود انحصاری کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود انحصاری حاصل
کی ہے ؟ کیا اس قوم کوترقی کا کوئی حق حاصل ہے جو اپنی قومی زبان میں
کتابیں نہیں لکھ سکتی ؟ کیا دنیا کے نقشے پر کوئی ایسا ملک موجود ہے جس نے
کسی دوسرے ملک کی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی و خود انحصاری حاصل کی
ہو ؟ دوسروں پر انحصار کرنے والی قوم ہمیشہ بھکاری ہی رہتی ہے ۔اور بھکاری
پن کی ابتدا نصابی کاسہ لیسی سے ہی ہوتی ہے ۔کیا اپنی قومی زبان کے الفاظ و
اصطلاحات کے ساتھ نصاب تیار کرنا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے متراد ف نہیں
ہے ؟علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب بات کہی ہے۔
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احسان سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر۔
محترم مظفر وارثی نے یہی صدا کچھ اس انداز میں بلند کی ہے۔
اپنی مٹّی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
تیرھواں سوال۔کیا مسلمانوں کے دور عروج میں مسلمانوں نے اپنی زبانوں میں
کتابیں نہیں لکھیں؟کیا انہوں نے دیگر زبانوں سے علوم کو اپنی زبانوں میں
منتقل نہیں کیا ؟کیا اپنے مدرسوں اور جامعات میں انہوں نے اپنی زبانوں میں
سائنسی علوم و فنون کو رائج کیا یا غیر ملکی زبانوں میں؟کیا مسلمان سائنس
دانوں نے اپنی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا یا غیر ملکی زبانوں کو؟کیا
انگریز اور دیگر ممالک کے لوگوں نے سائنسی و دیگر علوم و فنون میں ترقی کے
لیے مسلمانوں کی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا یا اپنی قومی زبانوں کو ؟کیا
انہوں نے مسلمانوں کی کتابوں کو اپنی زبانوں میں منتقل کر کے اپنے تعلیمی
اداروں میں نافذنہیں کیا ؟کیا ہم بھی جدید علوم و فنون کو اپنی قومی زبان
میں رائج کر کے ترقی و خود انحصاری کی عظیم ا لشان عمارت تعمیر نہیں کر
سکتے ہیں؟کیا ہمارے لیے بھی یہی ترقی کا راستہ با لکل واضح نہیں ہے؟پھر
کیوں واضح اور سیدھے راستوں کو چھوڑ کر خار دار راستوں کا انتخاب کیا جا
رہا ہے؟
چودھواں سوال۔انگریزی زبان کیا ہر دور میں اسی طرح ترقی کی زبان رہی
ہے؟نہیں۔ایک دور ایسا تھا جب اسے دیگر زبانوں کی نسبت گونگی بہری زبان تصور
کیا جاتا تھا۔ تو پھر کس طرح یہ ترقی کی زبان بنی ؟کیا علوم و فنون کو
انگریزی کے قالب میں ڈھالے اور اپنے تعلیمی اداروں میں عملاً نافذ کیے
بغیر؟ذہنی غلاموں کو تقلید کا یہ انداز کیوں نظر نہیں آتا؟ پھر کیوں آنکھوں
پر پٹیاں اور دماغ کے دروازوں کو مقفّل کر کے اندھی تقلیدکے خوگر بنے ہوئے
ہیں؟کیوں ہمیں دوبارہ پتھر کے دور کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟یاد رکھیں ہر
قوم کی آزادی کا راستہ اسکے نصاب سے ہوکر گزرتا ہے ۔جو قومیں اسے نظر انداز
کر کے آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کا حشر وہی ہوتا ہے جو آج امّت مسلمہ
کا ہو رہا ہے۔
پندرھوں سوال۔پاکستان میں ٹیوشن بزنس کیوں عروج پر ہے؟سرکاری سکولوں اور
کالجوں میں پڑھانے والے نوّے فیصد سے زیاد ہ اساتذہ کیوں سر سے لے کر پاؤں
تک ٹیوشن بزنس میں ڈوبے ہوئے ہیں؟ گلی گلی اور محلّے محلّے اکیڈمیاں اور
ٹیوشن سنٹر کیوں کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے ہیں؟بازار میں امددی کتابوں اور
خلاصوں کی کیوں بھرمار ہے؟ وطن عزیز کے سائنس پڑھنے والے طلباؤ طالبات سے
یہ یقین و اعتماد کیوں چھن گیا ہے کہ وہ بغیر ٹیوشن کے بھی امتحان پاس کرنے
کے قابل ہیں؟سائنس کے علم کو غریبوں سے چھین کر کیوں امیروں کے ہاتھوں میں
دیا جا رہا ہے؟ علم کو منڈی میں بکنے والی چیزوں کی طرح کیوں بیچا جا رہا
ہے ؟جس طالب علم کے پاس ذہانت ہے مگر پیسے نہیں ہیں اسے کیوں سائنسی تعلیم
سے محروم رکھ کر مایوسیوں کے گڑھوں میں دھکیلا جا رہا ہے؟کیا اسے اس بات کی
سزا دی جا رہی ہے کہ وہ غریب ہے؟ ہماری یونیورسٹیوں کی ا یم ایس سی کا
معیار کیوں ترقی یافتہ ممالک کی ایف ایس سی سے بھی کم ہے؟ان ممالک میں
ٹیوشن بزنس ہماری طرح کیوں نہیں ہے؟ان سب مسائل کا حل تلاش کرنے کی کیوں
کوشش نہیں کی جاتی؟ کیوں ان مسائل پر مجرمانہ خاموشی ختیار کی جا رہی
ہے؟نصاب کو مشق ستم بنانے والوں کے دماغ ان مسائل کے حل کیوں نہیں
ڈھونڈھتے؟یہی مسائل تو ہیں جنہوں نے ہمارے تعلیمی نظام کو گھن کی طرح چاٹ
لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بھی قومی زبان میں سائنسی مضامین کے
نصاب کو رائج کرنے میں ہی مضمر ہے ۔جن کاموں کے مراحل کو مشکلات سے دوچار
کر دیا جائے اس میں بد عنوانی اور کرپشن خود بخود شامل ہو جاتے ہیں ۔ٹیوشن
بزنس اور معیار تعلیم کی گراوٹ بھی در اصل نصابی مشکلات کا ہی شاخسانہ ہے
جو اسی طرح کی غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کی سوچ کی عکّاسی کرتی ہیں۔اگر آج
تمام سطح کے سائنسی نصابات کو اپنی قومی زبان کے سانچے میں ڈھال کر عملاّ
تعلیمی اداروں نافذ کر دیا جائے تو ٹیوشن بزنس کا بے مہار کاروبار دو سالوں
کے اندر ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے ۔بدقسمتی سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معیاری
تعلیم وہی ہے جسے انگریزی میں پڑھا جائے چاہے سمجھ آئے یا نہ آئے ۔پتہ نہیں
معیاری تعلیم کی یہ تعریف انہوں نے کہاں سے سیکھی ہے ؟ جہاں کسی چیز کو
سمجھنے میں دشواریاں ہوں وہاں معیار معلوم نہیں کہاں سے آجاتا ہے ؟اگر
سائنس کے نصاب کو اپنی قومی زبان کے سانچے میں نہ ڈھالا گیا تو پاکستان کی
پوری انتظامی مشینری ، آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیاں بھی مل کر بھی
ٹیوشن بزنس کی لعنت کو ختم نہیں کر سکتیں ۔بازاروں میں امدادی کتابوں
نوٹسوں اور خلاصوں کی اسی طرح بھرمار رہے گی ۔بلکہ موجودہ سائنسی نصاب کی
بدولت ٹیوشن بزنس بڑی کلاسوں سے پہلی جماعت تک آجائے گا ۔ شائد یہی نصاب
سازوں کا ہدف بھی ہے۔ اگر یہی نصاب مزیدچند سال تک رائج رہا تو تو میرا
دعویٰ ہے کہ پہلی دوسری جماعت کے بچے بھی ٹیوشن کے لیے مارے مارے پھرتے نظر
آئیں گے۔کیا یہ بات ہمارے لیے لمحہء فکریہ نہیں کہ جن ممالک کا نصاب ان کی
قومی زبانوں میں ہے وہاں ٹیوشن بزنس نہ ہونے کے برابر ہے؟۔اگر یہ سائنسی
نصاب اسی طرح رہا تو اہلِ پاکستان کے لیے اس سے بڑی بد نصیبی کی کوئی نہ ہو
گی ۔ |