پیشہ ور بھکاری

ُُٓ تحریر۔۔۔زیبا حسن مخدوم
جیسے ہی گاڑی سگنل پہ رکی ایک ادھیڑ عمر آدمی نے دھکا دیکر کمزور اور نحیف سی عورت کو بھیک مانگنے کے لیے آگے کردیا جو یقینا اس کی ماں تھی۔اس بوڑھی عورت کی لاچاری کو دیکھ کر کئی لڑکیوں کے بیگ کھلے اور پیچھے کھڑے بیٹے کی بانچھیں۔ہٹا کٹا ہونے کے باوجود وہ بوڑھی ماں سے اس عمر میں بھیک منگوا رہا تھا۔شاید اسے محنت کرنے سے زیادہ آسان بھیک مانگنا لگا۔پاکستان میں اِن جیسے پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہوتی جا رہی ہے۔فیصل آباد میں تو ہر سگنل پر تین تین چار چار بھکاری گاڑی سے چپک جاتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ گاڑی میں سوار سبھی افراد اْنہیں کچھ نہ کچھ دیں۔ان بھکاریوں میں بہت ہی کم حقدار اور مجبور ہوتے ہیں زیادہ تعداد تو ہمیشہ پیشہ ور بھکاریوں اور نشے کے عادی افراد کی ہوتی ہے جو اپنے نشے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھیک مانگنے کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔کیونکہ انکے نزدیک کمائی کا یہی سب سے آسان ذریعہ ہوتا ہے۔لوگ اِن بھکاریوں سے پریشان تو ہیں مگر ان کے سدباب پر کوئی توجہ نہیں کرتا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ اس مسئلہ سے کیسے نمٹا جائے؟ٹال کریا جلدی سے پیسے ہاتھ میں تھما کر جان تو چھڑا لی جاتی ہے مگر مستقلاًاس مسئلہ کے حل کے بارے میں کوئی غور نہیں کرتا۔ ان پیشہ ور بھکاریوں نے تمام گلی چوراہوں پر ڈیرے جما کر اور ہر خالی جگہ پر جھگیاں ڈال کر علاقے کا حسن گہنایا ہوتا ہے مگر حکومت ہے کہ اس مسئلہ کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھتی۔لیکن اگر دوسری جانب دیکھا جائے توان کی بڑھتی تعداد کا سبب بھی ہم ہی ہیں کسی معذور یا اپاہج بھکاری کو دیکھ کربہتیروں کے دل پسیج جاتے ہیں بھلے وہ معذوری ایک ناٹک ہی کیوں نہ ہو اس لئے آپ کو سڑکوں پر ایسے بہت سے خود ساختہ اور نام نہاد اپاہج بھکاری نظر آئیں گے۔بہت کم ہی ان میں سے واقعتاً معذور ہوتے ہیں۔

کسی بچے کو بھیک مانگتے دیکھ کر ہم جلدی سے اس کے حال پر رحم کھاتے ہوئے کئی نوٹ اس کے ہاتھ پہ دھر دیتے ہیں یہ سوچے بِنا کہ ہمارا یہ عمل ہی انہیں بھیک مانگنے کی ترغیب دیتا ہے۔اسی ہمدردی کیجذبہ کو کیش کرواتے ہوئے یہ لوگ اپنے بچوں کو بجائے معاشرے کے معزز شہری بنانے کے اس کام پر لگا دیتے ہیں۔اور وہ معصوم بچے ننھی سی عمر میں ان کے لیے کماؤ پوت بن جاتے ہیں۔بعض لوگ تو صدقہ جو کسی مجبور بے کس اور حق دارکو ہی لگتا ہے وہ بھی ان پیشہ ور بھکاریوں کو دے جاتے ہیں اور اپنا عمل ضائع کر دیتے ہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ جب ہمارے نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سائل کو خیرات دینے کے بجائے اس کے ہاتھ میں کلہاڑی دے کر اسے روزگار مہیا کیا تھا تو ہم انہیں ڈھیروں ڈھیر خیرات دیکھ کر آرام طلبی پر کیوں مجبور کر دیتے ہیں ؟اتنا خیال ہم معاشرے کے ان غریب افراد کا کیوں نہیں کرتے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے خاموش رہتے ہیں؟ہم تو اپنے سگے رشتے داروں کا خیال نہیں کرتے۔۔۔ اْن سے صلہ رحمی نہیں کرتے۔اْن کی ضروریات پوری کرتے ہوئے ہمارے سامنے ہماری انابغض اور جانے کون کون سی خاندانی چپقلشیں آجاتی ہیں مگرمعاشرے کے ان ناسوروں کو پالنے میں ہم ان کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔بات کا مقصد یہ نہیں کہ لوگ خیرات دینا ہی بند کردیں۔ خیرات دیں مگر اسے جو اس کا حقدار ہو۔پیشہ ور بھکاری اس کے حقدار نہیں ہوتے۔حکومت کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہیئے۔معذور افراد کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بہتر روزگار مہیا کرنا چاہیئے تاکہ وہ اس کام کی جانب متوجہ ہی نہ ہوں۔ اور سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو اپنے تحفظ میں لینا چاہیئے۔تاکہ وہ مستقبل میں معاشرے کا معزز فرد بن کر اس کی ترقی میں کردار ادا کریں۔مزید برآں حکومت کو اس طرح کے پیشہ ور بھکاریوں کے لیے کوئی قانون بنا کر معاشرے کو ایسے لوگوں سے پاک کرنا چاہئے۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.