سورہ

جب وہ پیدا ہوئی تو اسکے گھر والے اتنے خوش نہیں تھے جتنی خوشی وہ بیٹے کی پیدائش پر مناتے تھے لیکن محض روایت اور رواج کے گھر میں میٹھے چاول بنا کر بچوں کو کھلائے گئے ماں کو پیاری تھی باپ کی شفقت کا ہونا اور نہ ہونا برابر تھا پہاڑی علاقے میں پیدا ہوئی اسلئے سخت اندام اور محنت کش واقع ہوئی برفباری ہوتی تو وہ برف کے بگولے بنا کر گاؤں کے اور لڑکیوں کے ساتھ کیھلتی تھی اور ایک دوسری کو مارتی بچپنا ہو کیا جوانی جوانی کیا عورت ساس بھی بن جائے تب بھی مخالف عورت کے بال کیھنچنا نہیں بھولتی اور یہی وہ بچپن سے کرتی آرہی تھی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ برف میں کھیلتے کھیلتے وہ اکثر کسی جگہ تنہا بیٹھ کر برف کے ٹھنڈے بگولوں کو سفید ہاتھوں کے ذرئعے تراش کر ایک مجسمہ تراشتی جو کھبی بھی مکمل نہ ہو سکا تھا کیونکہ اکثر و پیشتر پگھل کر پانی میں بہ جاتایہ تو بچپنا تھا جب جوان ہوئی تو گاؤں کی لڑکیوں کے لئے ایک مثال تھی گھر میں پیار ملا نہیں تو بھیڑ بکریوں کو لے کر پہاڑوں کی بلندیوں کا رخ کرتی سویرے نکلتی تو شام کو واپس لوٹتی اکلوتی تھی لیکن چیہتی نہیں پیاری اور خوبصورت تھی لیکن بدصورت کرنے والی رسموں سے بے خبر ۔ایک دفعہ جب وہ مغرب کے وقت گاؤں لوٹ رہی تھی تو ایک ڈھلوان پر ایک نوجوان بیٹھا بانسری بجا رہا تھا اس صوت کو سنا ایسا لگا جیسے کان سے کچھ داخل ہو کر دل میں گھر کر گیا ہو اسی طرف رخ کیا جب تھوڑی نزدیک پہنچی تو اس نوجوان نے بانسری ہونٹوں سے ہٹا کر جیب میں رکھ دی تب اس کے حواس بھی بیدار ہوئے اور یکدم رخ بدل دیا یہی آوازیں وہ اپنے ساتھ گھر لے گئی اور پوری رات وہ اسی کو یاد کر کر کے لطف اندوز ہوتی رہی۔اگلے دن وہ پھر اسی ڈھلوان تک پہنچ گئی اب یہی پر وہ بھیڑ بکریاں چراتی اور مغرب کے وقت چند آوازوں کو لے کر گھر لوٹ جاتی ۔جہاں محبت کا ہونا شرم سمجھا جاتا ہو وہاں محبت کا پایا جانا بھی بے شرمی کی دلیل ہوا کرتا ہے جس کوہ سے چیخ وپکار اور آرزو و تمنا سنائی نہیں دیا جاتا وہاں نرم و ملائم آوازوں کا ساتھ ہوائیں نہیں دیتی جرگہ بیٹھ گیا اور حریف اول کی تمام بات کو غور سے سن لیا گیا اسکے بعد حریف دوم کے خلاف یہ فیصلہ دیا کہ زارو کو سورہ میں مقتول کے بھائی کو بیاہا جائیگا گاؤں کے سب لوگوں نے جرگہ ماران کو داد دی اور ماضی کے رسومات کو زندہ رکھنے پر ان کا خیر مقدم کیا اور مستقبل میں بھی انہی کو جرگے کی ذمہ داریاں سونپنے کا اعلان ہوا اس خوشی میں ہوائی گولیاں بھی چلائی گئی کیونکہ یہ بھی ایک رسم تھی اس گاؤں کی ۔اگلے روز جرگے میں فیصلہ سنانے والوے،زارو کے خاندان کے لوگ اور مقتول کے ورثاء پیدل آئے اور زارو پر سفید چادر ڈال کر ساتھ لے گئے وہاں نکاح کی رسم ادا کی گئی اسکے بعد انتقام کا دور شروع ہوا سب باری باری مارتے اور زارو سے مقتول کے قتل کا بدلہ لے رہے تھے رات بکریوں کا ایک قافلہ پکڑایا گیا اور ایک بار پھر وہ پہاڑوں کا رخ کئے جارہی تھی فضا خاموش تھی آسمان برف برسا رہا تھا اور ڈھلوان سفید ہورہا تھا جیسے کسی نے برف میں کوئی جسم تراشا ہو دیکھت دیکھتے اسکے دل کا آسمان گرجا کڑکا اور آنکھوں سے بارش برسنے لگا یخ ہوائیں آتھی اور موتیاں بنا کر برف کے ساتھ ملا دیتی جس نے بعد میں پانی کے ساتھ بہنا تھا ۔میکے جانا اسکا شوہر نے بند کیا تھا کیونکہ اگر وہ میکے چلی جاتی تو پورے خاندان کے لئے ایک طعنہ بن جاتا ایک دن وہ چھپتے چھپاتے گھر میں داخل ہوئی قدم رکھتے ہی اسکے کانوں میں آواز گونجی ۔۔بدنصیب ۔۔بدقسمت۔۔تو پھر آگئی ہمارا گھر برباد کرنے ۔۔پیدا ہوتے ہی ہمارے گھر کی خوشیاں چھین لی ہمیں پورے گاؤں میں بدنام کر دیا عزت کو خاک میں ملا دیا کیا رہ گیا تھا کہ اب وہ کرنے آئی ہو۔۔زارو آنکھوں میں آنسوں کا ڈھیر چھپائے بھابھی سے کہنے لگی ۔۔میں نے کچھ نہیں کیا تھا ،،میں تو ۔۔صرف آواز سنتی کیونکہ وہ مجھے اچھی لگی تھی ۔۔۔میں نے تو اور کچھ بھی نہیں کیا اور آپ بھی مجھ پر شک کر رہی ہو۔۔تم پر شک نہیں کر رہی بلکہ اوقات یاد دلا رہی ہے ۔۔اسکے بھائی نے کمرے سے نکل کر کہا ۔۔لیکن بھائی میں تو بے گناہ ہوں اور اسکو تو آپ نے قتل کیا تھا نا ،،میں تو وہاں بکریاں چرا کر گھر لوٹ رہی تھی ۔۔مجب کسی نے ایک نہ سنی تو وہ گڑگڑا کر ماں سے ملنے کی اجازت مانگتی رہی لیکن کسی کی ہمت کہاں جو ماں کو بلا لیتی ۔یہی ایک تمنا لئے وہ پہاڑوں کی طرف نکل گئی ۔مغرب کے بعد بھی جب وہ گھر نہ پہنچی تو سسرال والوں کو خبر آئی کہ جس ڈھلوان پر اسکا بھائی بیٹھ کر بانسری بجاتا تھا اسی کے پہلو میں ایک عورت کی لاش پڑی ہے بکریوں کی دیکھ بھال کے لئے وہاں کوئی بھی نہیں ہے ۔۔

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 30315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.