پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام ایک احسن اقدام لیکن ملاوٹ مافیا معززکیوں

عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خورد ونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے پنجاب فوڈ اتھارٹی 2011میں بنائی پنجاب کے 36اضلاع میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے فوڈ سیفٹی کے متعلق 16قوانین بھی منظور کروائے گئے ہر ضلع میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ٹرنینگ سکول کا قیام بھی عمل میں لا یا گیا اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی 700سے زائد فوڈ سیفٹی ٹیموں کا قیام پنجاب حکومت کا ایک احسن اقدام تھاپنجاب فوڈ اتھارٹی کا ناقص اشیاء خوردونوش بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری وساری ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا اولین مقصد کھانے پینے کی چیزوں کی تیاری، پیکنگ اور فروخت تک تمام مراحل کی جانچ پڑتال کرنا ہے جس کے لئے صوبہ بھر کے ہر شہر میں ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور ان کو اچھی گاڑیاں بھی فراہم کی گئی ہیں جن پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کا لوگو واضح دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے آغاز میں پنجاب میں کھانے پینے کی اشیاء ہوٹلوں ، ریسٹورنٹس ، فیکٹریوں اور بیکریوں کے معیار کو چیک کرنے اور غیر معیاری اشیاء بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف جرمانے کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے شروع ہوا تھا عوام میں یہ ادارہ اپنا ایک خاص مقام بناتا نظر آنے لگا پھر ہوا کیا کہ آج بھی غیر معیاری دودھ بھی تیار ہو رہا ہے ،غیر معیاری اشیاء بھی فروخت ہورہی ہیں،پنجاب فوڈ اتھارٹی نے جن اشیاء پر پابندی لگائی وہ بھی آسانی سے بازاروں میں دستیاب ہیں ، بچوں کی ٹافیاں گولیاں اور رنگ برنگی کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں سکولوں کے اردگرد اور بازاروں میں فروخت کے لئے لائی جاتی ہیں ،گلی محلوں کی چھوٹی چھوٹی دوکانوں پر بھی یہ اشیاء فروخت ہوتی ہیں ظاہری بات ہے اِنکوکہیں پر تیار تو کیا جاتا ہوگا ؟جرمانہ چھوٹے دوکانداروں کو کر کے فرض نبھایا اور فوٹو سیشن کیاجا رہا ہے ،کھلے عام گوشت ،مرغی کا گوشت دوکانوں پر فروخت کے لئے رکھا اور بکتا نظر آتا ہے،ریڑھیوں پر کھانے پینے کا سامان خاص طور پر چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کے باہر سڑک کے کناروں پر بنے روٹی نان کے تنور صفائی کی ناقص صورتحال کا منظر پیش کرتے آج بھی نظر آتے ہیں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے اخبارات ،الیکٹرانک میڈیا اور جگہ جگہ آگاہی فلیکس پر خطیر رقم خرچ کی گئی اور کی جارہی ہے اِ دارہ کے قیام کا جو مقصد تھا وہ تو بہت واضح تھا کہ عوام کو غیر معیاری خوردونوش کی اشیاء سے نجات دلانا اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والے سماج دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دارے کے قیام سے جہاں بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں وہیں رعب دبدبے والا محکمہ ہونے کا ایڈوانٹیج بھی اِس کے نوجوان افسروں کو ملا کسی بھی جگہ گاڑی کھڑی کی اِرد گرد کے دوکان داروں پر نظر دوڑائی جو اُن میں سب سے زیادہ بے بس اور اپنے خاندان کامعاشی بوجھ کم کرنے کے چکر میں چند سو روپے کی اشیاء فروخت کرتا نظر آیااِن خواتین افسروں(پنجاب فوڈ اتھارٹی )کے آگے بولنے کی جرات بھی نہ کر سکے اُس کو جُرمانہ کرو دو تین اسکے ٹھیلے کی تصاویر بناؤں اسکا سامان سیل کرو اور دَبدبے سے گاڑی میں بیٹھو اور یہ جا وہ جا ،اِن سے کوئی پوچھے کہ یہ جس چھوٹے دوکاندار یاچھابڑی والے جن کو آپ جُرمانہ کر کے جارہی ہو کیا وہ یہ چیزین کہیں سے خریدتے نہ ہو نگے ؟ کہیں بنائی نہ جاتی ہونگی ؟ قارئین کرام !بالکل یہ اشیاء بنانے والے چھوٹے چھوٹے پلانٹ اور فیکٹریاں پورے پنجاب میں قائم ہیں میں تو آج بات صرف خوردونوش کی اشیاء کی کر رہا ہوں اگر کہیں خواتین کے میک اپ سامان میں شامل کریموں اور دیگر چیزوں کی بات کی جائے تو وہ آپ کو لوکل (گلی محلہ) میں تیار ہوکرمختلف کمپنیوں کے ریپرز لگا کر بازار میں فروخت ہوتی بے شماراشیاء نظر آئیں گی خورد ونوش میں دودھ دہی کی بات کر لیتے ہیں اسکے معیار سے کون ہے جو واقف نہیں آج سے تیس چالیس سال پہلے دودھ ملا پانی فروخت کیا جاتا تھا پھر معاشرہ میں لالچ بڑھی پانی ملا دودھ فروخت ہونے لگا اور اب تقریباََ دس سال سے دودھ بنانے کا کاروبار عروج پا چکا ہے جعلی دودھ کے چند طریقے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سے چند کاذکر ضروری ہے ،یوریا، فارمولین، نشاستہ مایا،یوریا، کوکنگ آئل یا ڈالڈا گھی، میگنیشیئم سلفیٹ، ملک پوڈر، دودھ کی پی ایچ اساس اورتیزاب میں توازن برقرار رکھنے اوربڑھانے کیلئے بال صفا پوڈر استعمال کیا جاتا ہے،بورک ایسڈ اور عام سادہ پانی ،پسے سنگھاڑے، کیلشیم ہائڈرو آکسائڈ، سکم ملک پاؤڈر،پینٹ ڈالاجاتا ہے جعلسازوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لیکٹو میٹر ملاوٹی اجزا نہ پکڑ سکے(لیکٹو میٹر دودھ کا گاڑھا پن چیک کرنے میں کام آتا ہے)جبکہ خالص دودھ میں ملاوٹ کرنے والی اشیا ء میں چینی،نمک،بینزوک ایسڈ،سیلی سائلک ایسڈ(Salicylic acid)کاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس اورایمونیم سلفیٹ بھی شامل کیئے جاتے ہیں۔ جعلی دودھ تیار کرنے کے دوسرے طریقے میں استعمال ہونے والی اشیاء یوریا، بال صفا پوڈر، بورک ایسڈ، فارملین، سوڈیم کلورائیڈ،فل کریم ، ہاف کریم پوڈر، چاول کا پوڈر ،ایک کلو پوڈر 20 کلوعام پانی ،ایک پاؤکوکنگ آئل ، یوریا اور فارملین ملا ئی جاتی ہے۔اس کے علاوہ جو طریقے سماج دشمن عناصر استعمال کر کے راتوں رات امیر ہو رہے ہیں اُ نکا ذکر بھی ضروری ہے ایک لٹر دودھ، ایک لٹر کوکنگ آئل ، 10 کلو پانی ،ایک کلو خشک دودھ، سی ایم سی پوڈر،نمک، یوریا، ڈیٹر جنٹ ،اس کو بنانے والے جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ یہ سننے میں آیا ہے دودھ کو کوکنگ آئل میں اورملک پوڈرکو 10کلو پانی میں ملا کر دو الگ الگ محلول بنائے جاتے ہیں پھر دونوں آمیزوں کو آپس میں ملا کر اسے گاڑھا کرنے کیلئے اس میں Carboxy methyl cellulose سی ایم سی نامی ایک کیمیکل پاوڈر ڈالا جاتا ہے ، دودھ کا قدرتی نمک ایل آر پورا کرنے کیلئے نمک ، دودھ کی سطح پر چکنائی کے ڈاٹس ختم کرنے، کوکنگ آئل کومکس کرنے کیلئے یوریاجبکہ جھاگ پیدا کرنے کیلئے ڈیٹرجنٹ ڈالا جاتا ہے دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے مائع ہائیڈورجن ملائی جاتی ہے ۔ایک اور آسان طریقہ جس میں واشنگ مشین بھی استعمال کی جاتی ہے خشک دودھ ، کوکنگ آئل اور30کلو پانی کوواشنگ مشین میں اچھی طرح بلینڈ کر کے دودھ تیارکیا جاتا ہے دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے ایک کیمیکل فارمولین بھی ڈالی جاتی ہے اس کے علاوہ بھی بے شمار طریقے اختیار کیئے جارہے ہیں بات دراصل یہ ہے کہ جعلی دودھ کے کاروبار میں ملوث افراد اب آسانی سے قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دودھ کو چیک کرنے والی اتھارٹی محکمہ لائیو سٹاک کے افسر کے پاس ہوتی ہے جو جعلی دودھ کا پتا لگانے میں کئی گھنٹے صرف کرتے ہیں جس سے کوئی ایک جعل سازکبھی کبھار تو پکڑا جاتا ہے لیکن دیگر اِس کاروبار کو بڑی دلیری سے چلاتے ہیں اَب جعلی دودھ تیار کرنے کے جدید سے جدید طریقے یہاں متعارف ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات محکمہ لائیو سٹاک بھی انہیں پکڑنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور ہم ہر روز جعلی دودھ اپنے بچوں کو پلا رہے ہیں جس سے صحت اور پیسہ دونوں برباد ہورہے ہیں قارئین کرام ! آپ حیران ہورہے ہونگے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی بات کرتے کرتے میں جعلی دودھ بنانے والوں کا ذکر تفصیل سے کیوں کرنے لگ گیابات دراصل یہ ہے کہ اس کاروبار(دودھ) میں بہت سے ایسے باعزت شعبوں کے افراد ملوث ہو گئے ہیں جو معاشرے میں عزت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں اُن پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہیں لہذادودھ کے نام پر زہر بن رہا ہے ہم زہر پی رہے ہیں اور نئی نسل کی پرورش بھی اس زہر سے کر رہے ہیں جسکی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش اور نئی نئی بیماریاں سننے میں آرہی ہیں پنجاب فوڈ اتھارٹی ایک نیک مقصد کے لئے بنائی گئی جس سے بہت سے بے روزگاروں کو نوکریاں تو ملیں خاص طورپرخواتین کو اس شعبہ میں بڑی تعداد میں کھپایا گیا دفاتر بنائے گئے اور دیگر عملہ رکھا گیا جس سے بے روزگاری میں کسی حد تک کمی واقع تو ہوئی ہو گی ۔۔۔۔۔۔بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ گاڑی سے اُتر کر کسی ٹھیلے یا پھیری والے کو جرمانہ کر کے تصاویربنا کر جانے والا یہ خواتین کا عملہ کیا سمجھتا ہے کہ اس سے ملاوٹ کا خاتمہ ہوگا ناممکن جب تک بڑے بڑے مگرمچھوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اُس وقت تک یہ عملہ چھوٹے چھوٹے دوکانداروں اور ریڑھی والوں کو جرمانے ہی کرتے رہیں گے اور اگلے چند گھنٹوں کے بعد وہ شخص دوبارہ وہ ہی چیز فروخت کرتا پایا جائے گا ہاں البتہ جرمانوں سے حکومت کے ریونیو میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے جس سے اس اتھارٹی کی پبلسٹی اور تنخواہوں کے اخراجات پورے ہوسکیں گے پبلسٹی سے دیگر شعبہ جات کو بھی فائدہ ہورہا ہے الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور فلیکس بنانے والوں کی آمدن بڑھی لیکن اس کے برعکس ہم یوں ہی ملاوٹ شدہ اشیاء کھاتے رہیں گے جس سے پرائیویٹ ڈاکٹرزکے کلینک بھی بھرے رہیں گے میری وزیر اعلی پنجاب اور دیگر حکومتی اداروں سے گزارش ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں اس کی پبلسٹی کرنے کی بجائے اِن مکروہ کاروباروں میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائیں عوام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسے کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ اِن مکروہ کاروباروں میں بہت سے ایسے افراد بھی ملوث ہیں جو معزز شعبہ جات سے وابستہ ہیں جن پر سختی سے ہاتھ ڈالنا ہوگا دوسرا جو سب سے اہم کام ہے لوگوں میں آگہی دینا کہ دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے بطور مسلمان ہمیں صفائی کو اپنانا چاہیے بلکہ ارد گرد بھی صفائی رکھیں خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانے والی جگہوں پر ،عوام اگر خود یہ فیصلہ کر لیں کہ آئندہ وہ کوئی ایسی چیز بازار سے نہیں خریدیں گے جو ناقص اورحفظان صحت کے اصول کے مطابق تیار نہیں کی گئی تو مجھے یقین ہے کہ یہ مکروہ کام کرنے والے اپنی موت آپ مر جائیں گے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی ہمیں اپنے ارد گرد ناقص اور غیر معیاری اشیاء فروخت ہوتی نظر آرہی ہیں اور بعض اشیاء ایسی ہیں جنھیں مجبوراََ ہمیں خریدنا پڑتا ہے جس میں خاص طور پر دودھ اور دیگر روزمرہ کی اشیاء شامل ہے اعلی حکام ناقص اشیاء بنانے والے بڑے بڑے مگرمچھوں کو پکڑیں جب پیداوار اور رسد رُکے گی تب ہی یہ ناقص خوردونوش کی اشیاء بازاروں میں فروخت نہ ہوسکیں گی جبکہ یہاں معاملہ کچھ یوں چل نکلا ہے کہ پبلسٹی پر لاکھوں خرچ کیے جارہے ہیں ملاوٹ کرنے والوں کے چہرے عوام کے سامنے لائیں اور انہیں چھوٹے موٹے جرمانے کرنے کی بجائے قرار واقعی سزائیں عدالتوں سے دلوائیں ٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.