اللہ پاک نے ندیم صاحب کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی سے
نوازہ ہے سب ہی نیک، شریف اور نماز روزہ کے پابند ہیں,
مختصراً بتاتا چلو سب سے بڑےبیٹے کا نام احمد ،دوسرے حسن, تیسرے اسامہ،
چوتھے عزیز، اور آخر میں حزیفہ ہیں سب ہی زیر تعلیم ہیں زندگی بہت اچھی گزر
رہی تھی۔ گھر میں امن بھی تھا اور سکون بھی لیکن ہوا کچھ یوں کے ایک دن
ندیم صاحب صبح جلدی گھر سےکام کیلئے نکلے اور ۲ بجے کے قریب گھر پر موبائل
کی گھنٹی بجی جب بات ہوئی تو پتہ لگا کہ ان کو فالج ھوا ھے اور ایمبولینس
کے ذریع ھسپتال منتقل کیا جارھا ھے، یہ خبر گھر والوں کے لئے قیامت سے کم
نہ تھی۔ سب بھاگے بھاگے دیکھنے پہنچے تو رات کو انہیں ہوش آیا مگر فالج کی
وجہ سے وہ کچھ کراور بول نہیں پارہے تھے بس اپنے بچوں کو دیکھ کر مسکرائے
جارھے تھے لگ رھا تھا کچھ کہنا چاہتے تھے مگر وقت نے انکو مہلت نہ دی اور
شیخ صاحب ۲۱ ستمبر ۲۰۱۷ کی شام ۴ بجے اس دنیا سے بہت دور رخصت ہوگئے ۔
اب ھم آتے ھیں شیخ ندیم کے فلسفے
یعنی مقصد کی جانب شیخ صاحب کہتے تھےجو سچ ہے بیٹا اس دنیا میں تین طرح کے
لوگ بستے ھیں،
۱) ایک وہ جو صرف حالات کے اشاروں پر چلتے ھیں اور خودکچھ صحیح کرنے یا
بدلنے کی صلاحیت ان میں نہیں بلے بلکل نہیں ہوتی۔
۲) دوسرے وہ جو ساری زندگی حالات کا اپنے رنگ ،نسل، زبان اور دیگر مسائل,
قسمت کا ذکر کرتے کرتےاور بہانے بناتے اس دنیاں میں کچھ کرے بغیر چلے جاتے
ہیں ۔
۳) جب کہ ان سب کے آخر میں ایک قسم ان لوگوں کی بھی ھوتی ہے جو تیسری قسم
میں ہے اور وہ صرف ۲ فیصد پائے جاتے ہیں وہ لوگ الگ ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
اور ان کی چند نشانیاں ہوتی ہے ، وقت پر کام پورا کرنا، احساس ذمےداری کا
ہونا،گھر کی ذمےداری اٹھانا سب کی فکر کرنا، بہن بھائیوں کے کام آنا وغیرہ،
یہ سب باتیں دیکھنے میں تو سادی مگر ہے بہت گہری جو ۱۴ سے ۲۰ سال کی عمر
میں ظاھر ہونا شروع ہوجاتی ہیں بقول ندیم صاحب اور یہ ھر انسان کےآنے والے
کل کے بارے میں بہت کچھ بیان کردیتی ہیں ۔۔۔۔ |