کسی نے کیا خوب کھا، عشق خدا سے ھو یا انسان سے،انسان کو
ولی بنا د یتا ھے۔ کیونکہ عشق انسان کو پاک اور حلال بنا دیتا ھے۔ ایک خا
لص عشق بنا د یتا ھے۔کسی عشق کرنے والے نے کیا خوب بیان کیا ھے کہ "میرا
محبوب میری رگوں میں اس طرح بھتا ھہ جیسے کہ شراب۔ میں شراب پی کر اپنے
رگوں میں سماۓ ہوۓ محبوب پہ سوتن (شرق) نہیں (لا سکتا) کر سکتا۔'' یعنی کہ
عشق خالص ھو تو پاک کر دیتا ھے۔ عشق والوں کے لیۓ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ
محبوب کا دیدار ھو، نا یہ لازم ہوتا ھہ کہ وہ بہی اتنا ہی اسے چاہے جتنا کہ
وہ خود چاہتا ہے۔ وہ جب عشق کرتا ہے تو بےلوص کرتا ہے۔عشق کو یوں بہی مرتبہ
دیا گیا کہ " میں آج تک اپنے محبوب سے نہی ملا اور تڑپتا ہوں کہ وہ یاد بہت
آتا ہے۔ اس کی یاد آتی ہے تو مجہے درد ہوتا ھے (مگر میں شراب نیں پیتا مجہے
اس کی یاد آنا اچہا لگتا ہے) ۔ اور جب یہ درد ھوتا ہے تو میری روح کو تسکین
ملتی ھے اور یوں میں جہوم اٹہتا ہوں کہ پہر مجھے حوش نہی رہتا۔ ہاں، کبہی
مزاق بنتا ھوں کبھی مثال بنتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عشق کرنے والے نے یہ عشق کا
کچھ یوں نظریہ پیش کیا، "ایک لڑکا بہت آوارہ ہوا کرتا تھا۔ بہت عیاش، سگرٹ
نوشی،شراب پینا اس کے لیے ایک فن تھا بس ایک کھیل تھا۔ زند گی بلکل ٹھیک چل
رھی تھی جو چایا تھا اس نے اسے ملا، وہ بہت خوش تھا لیکن-------وہ بھول گیا
تھا کہ وقت آج اسکا ھے تو کل شاید اس کا نہیں۔ وہ کبھی زندگی میں رویا نہی
تھا چاہے وہ آدھا کٹ بھی جاۓ تو بھی اس کی آنکھ میں آنسو نہی آیا تھا۔ایک
بے حس زندگی تھی اس کی لیکن جب وہ لڑکی اس کی زندگی میں آٰیٰ، اسکے آنسؤں
کو راستہ مل گیا اور ایک جھرنے کی طرح آنسو بہنے لگے، کبھی اس کے پانے کی
زد میں،کبھی اس کے کھونے کے ڈر میں،اور کبھی اسکا صرف اسکا ہونے کی خوشی
میں۔ اس کے آتے ھی وہ ھر برایٰ سے دور چلا گیا۔ اسکو صرف اسی میں سکون ملتا
گیا۔ اس نے شراب سے کم نشہ کبھی اپنی زندگی میں دیکھا نہی تھا مگر اس کی
آنکھوں کے نشے نے اسے اس نشے کا بھی عادی نا رہنے دیا۔ یوں ہی وقت گزرتا
گیا وہ دل میں اترتی گیٰ اور وہ اس میں بستا گیا مگر -------- وہ کھتے ہیں
نہ کہ د نیا آپ کو کسی حال میں جینے نھی دیتی۔ یہ وہ بندہ تھا جو دنیا کی
نھیں دل کی سنتا تہا لیکن اس بار دنیا اس سے جیت گیٰ اور وہ ہار گیا اور
ایسا ہارا کہ دوبارہ چاہ کر بھی اٰٹھ نا پایا۔ مگر زندگی سے، اس دنیا سے
ایک سبق ضرور سیکھا کہ کبھی کھلی آنکھوں سے خواب نییں دیکھنے چاہیےٰ۔ کھلی
آنکھوں سے دیکہے خواب جب ٹوٹتے ھیں تو دکھ کے ساتھ درد بھی ھوتا ہے جو ساری
زندگی رھتا ہے: مر کر ھی جان چھوڑتا ھے۔ مگر اب وہ درد کا عادی ہونے گیا
تھا- اس کو اب اس درد میں ھی جینا اچہا لگتا ہے ۔ بے حس ہو گیا ہے اب۔ نا
روتا ھے، بلکہ ہنستا بھی اب فرضی ھی ہے۔ عشق کی بازی میں سب کچھ داوٰ پہ
لگا یا ہوا تھا اس نے۔ ایسی بازی ہارا کہ سب کچھ لٹ گیا تھا۔ ایسا ہارا کہ
کچھ باقی نی رہا خالی ہاتھ سکون سکون کی تلاش میں نکلا لیکن سکون نا مل سکا
اور اسکی نظر میں یہ سزا کافی تھی جو اسے مل گیٰ تھی ۔ اس کے پاس سب رشتے
ھوتے ھوےٰ بھی وہ اکیلا تھا ۔ اس نے بھت سے لوگوں کے دل توڑے تھے اب کی بار
جو اسکا دل ٹوٹا تو وہ درد محسوس کیا جو آج تک اس نے دوسروں کو دیا تھا۔ وہ
اب خودی میں چپ رھنے لگا تھا، بولنا چاہے بھی تو چپ رھتا ھے۔ اس لڑکے کے دو
ھی خواب تھے، ایک باپ نے چھینا تو دوسرا دنیا نے، مگر پھر بھی اسکے چاہنے
والے بہت تھے مگر وہ سب سے دور ھوتا گیا اور بلا آخر وہ سب سے دور ھوگیا۔
وجہ یہ تھی کہ کہی اسکی وجہ سے کسی اور کو ازیت نا ملے اور یوں وہ کڑتے
کڑتے خود میں ھی دفن ھو کر چپ کی چادر اوڑ لی۔ وہ ہنستا ھے تو اسکی آنکھوں
کی نمی اسکا چہرہ، اسکا انتظار نظر آتا ہے۔ اسکا صبر،اسکا ظرف، قابل داد
تھا کہ وہ اس رسمی دنیا میں وہ آج بھی ویسا ہی دکھتا ھے دنیا کو جیسا پھلے
تھا، وھی غصہ، وھی زد۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کھتے ھیں کے آنکھیں جہوٹ نھیں بولتی،
سمجھنے والے کب لفظوں پٰہ یقین رکھتے ھیں، وہ تو بس۔۔۔۔آنکھوں دیکھا،آنکھوں
میں سمجھ جاتے ھیں۔ جب سے وقت کے حالات نے اس سے اس لڑکی کو دور کر دیا، وہ
تڑپنے کے با وجود، وہ اسے نا روک پایا، اور جانے دیا۔ لیکن دل مجبور تھا،
مجبور ھے، اور مجبور رہے گا اور کیوں نا مجبور ھو، ٰاس نے تو اس لڑکی کے
آنے سے ھی جینا سیکھا، اب وہ نھیں ھے تو اسکی یاد، اسکے بےمقصد سہارے جی
رھا ھے ، یا شاید، اسکی سانسوں کے ساتھ ، وہ اپنی سانسیں جی رہا ہے۔(ایک بے
مروت زندگی) |