لفظ’’
لبرل‘‘ قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ’’ لائبر‘‘ اور پھر’’ لائبرالس‘‘ سے
ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کہ‘‘آزاد‘‘ ۔اٹھارویں صدی عیسویں تک اس لفظ کے معنی’’
ایک آزاد آدمی ‘‘ہی تھے ۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لئے بولا جانے لگا
جو فکری طور پر آزاداورتعلیم یافتہ ہو۔ اٹھارہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد
لبرل ازم سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو انبیاء و رسل کے ذریعے بھیجی
جانے والی الہی تعلیمات اور اپنی دینی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد
سمجھتا ہو۔ لبرل ازم سے مراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ ونظام اور
اخلاق وسیاست ٹھہرا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔برطانوی فلسفی جان
لاک 1620) تا 1704 عیسوی ) وہ پہلا شخص تھا جس نے لبرل ازم کو باقاعدہ ایک
فلسفہ اور طرزفکر کی شکل دی ۔ عیسائیت کے عقائد سے آزادی اس کی ساری فکر پر
غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلاب فرانس کے فکری رہنما
والٹیر ( 1694 تا1778 عیسوی ) اور روسو( 1712 تا 1778عیسوی) اگرچہ رسمی طور
پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر ’’جان لاک‘‘ سے متاثر تھے۔ انہیں لوگوں کی
فکر کی روشنی میں انقلاب فرانس کے بعد فرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے
آزادی کے اختیار کو قانونی تحفظ دیا گیا۔ امریکہ کے اعلان آزادی میں بھی
شخصی آزدی کی ضمانت’’ جان لاک‘‘ کی فکر سے متاثر ہوکردی گئی ہے (بحوالہ:انسائیکلوپیڈیا
بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفورڈ ڈکشنری) دنیا کے مختلف ممالک میں خدا،
حیات بعدالموت اور دین اسلام کی دنیوی امور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں
آج جوبے اطمینانی پائی جاتی ہے اس کا سرچشمہ یہی لادینیت پر مبنی فکر ہے جس
کی ذرا سخت قسم’’ لبرل ازم‘‘ اور کچھ نرم’’ سیکولر ازم‘‘ ہے۔ یہ لبرل ازم
اور سیکولرازم ہی ہے جس نے موجودہ دور کے عصری تعلیمی اداروں میں دین
بیزاری کے جذبات کو فروغ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر خاص وعام اخلاقی و روحانی
بالیدگی سے آزاد ہو کر مادیت اور نفس کی آوارگی میں مبتلا ہوگیا ۔( الا
ماشاء ا ﷲ)۔ لبرل ازم کے مطابق ریاستی نظام کے قوانین صرف انسانی عقل و فکر
کی روشنی میں تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ ریاست اگر عوام کو شراب پینے کی اجازت
دیتی ہے تو کسی مذہب کو اجازت نہیں کہ اس قانون کو چیلنج کر سکے۔ لبرل
ریاست میں زنا،سود، شراب نوشی جائز ہے اور مذہبی طور پہ اس پہ کوئی سزا
نہیں ہو گی۔ مذہب کے متعین کردہ جرائم کا اطلاق ریاستی نظام پر نہیں ہو گا۔
آپ شراب کی دوکان کھولیں، پروسٹیٹیوٹ ہاؤس بنائیں یا پورن ہاؤس چلائیں یہ
کاروبار کے زمرے میں آئیں گے۔ ریاست میں یہ کوئی گناہ (جرم) تصور نہیں ہو
گا۔ اس طرح لبرل ازم اور اسلام دو الگ الگ نظریات ہیں۔ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے اور نماز روزہ اور دیگر عبادات اس دین کے جزویات ہیں۔ یہ
سیاسی، عدالتی، معاشی، اقتصادی، تعلیمی غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کیلئے اصول و
ضوابط متعین کرتا ہے۔یہ فقط کوئی فلسفہ نہیں بلکہ قرون اولی میں ان قوانین
کا نفاذ کر کے مکمل فلاحی اسلامی ریاست کی تشکیل کی جا چکی ہے۔ بلکہ اسلام
تو ایک قدم آگے بڑھ کر پوری انسانیت کو ایک ہی خالق کی مخلوق گردانتا ہے
اور تمام انسانوں کو ایک آدم (علیہ السلام )کی اولاد سمجھتا ہے، جس سے
انسانوں کے درمیان ایک ایسا مضبوط رشتہ جنم لیتا ہے جو کسی اور نظریئے سے
ممکن نہیں ہے۔دور حاضر میں بھی اسلامی نظام کا نفاذ قطعی مشکل نہیں ہے۔
موجودہ جمہوری نظام میں ہی اسلامی قوانین آئین کا حصہ بنا کے اسی نظام کو
اسلامی اصولوں پہ استوار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ترکی میں طیب اردگان نے
بتدریج ایک سیکولر اور لبرل ملک کو واپس اسلامی ملک میں تبدیل کر دیا اور
ملکی معیشت کو قرضوں کے چنگل سے آزاد کر کے مضبوط بنا دیا۔ پاکستان میں بھی
معاملات زندگی سے دین اسلام کی تعلیمات کو ختم کرنے کی یہی وہ سوچ ہے جو
سیکولرازم کے ذریعے اسلام کو ریاست سے الگ کرنا چاہتی ہے تاکہ ایک طرف
عقائد اور عبادات کی مکمل آزادی کا خوش نما نعرہ لگایا جائے اور دوسری طرف
ریاست سے سرمایہ داریت یا اشتراکیت میں سے کسی ایک کی پیروی کرائی جاسکے۔
ظاہر ہے کہ سیکولرازم اور اسلام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں کیونکہ اسلام
معاملاتِ زندگی میں الہٰی اصول و قوانین پیش کرتا ہے جبکہ لبرل ازم کا تصور
ہی یہ ہے کہ معاملاتِ زندگی میں پیش کئے گئے الہٰی ضابطوں کو رد کیا جائے۔
پاکستان میں لبرل ازم کو فروغ دینے والوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ حال
ہی میں فوت ہونے والی عاصمہ جہانگیر بھی اسی طبقہ فکر کی نمائندہ تھی۔ حقوق
انسانی اور مساوات کیلئے انہوں نے آواز بلند کی جو کہ قابل ستائش ہے۔ ایک
نامور قانون دان کے طور پر ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔
البتہ معروضی حقائق اور ان ہی کے بیانات کی روشنی میں ان کی زندگی کا جائزہ
ایک مسلمان کے طور پر لیں تو کئی تحفظات جنم لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ذات
اقدس کے بارے میں ان کے نازیبا الفاظ کی ادائیگی ہی تحفظ ناموس رسالت کے
قانون کا باعث بنی۔ وہ میڈیا پر سر عام اعلان کرتی ہے کہ’’ میرا کوئی مذہب
نہیں ‘‘۔ ایک’’ منکر ختم نبوت ‘‘ غیر مسلم سے شادی کرکے فخر کا اظہار کرتی
ہے۔ اپنی بیٹی کی شادی غیر مسلم سے کرنا کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ ساری زندگی
مذہبی طبقات اور اسلامی شعائر کے خلاف بولتی رہی۔ اور پھر اس کے جنازے نے
بھی اسلامی شعائر کا جنازہ نکالا۔ بے پردہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی
جنازہ پڑھ رہی تھیں۔ اسلامی شریعت کے مطابق عورت جنازہ کی نماز میں شریک
ہوسکتی ہے، لیکن اسلام کے نظام و عفت و عصمت کا کا مزاح اڑا کر نہیں بلکہ
اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے مردوں سے علحدہ اورباپردہ انداز میں شرم
و حیاکا پیکر بن کر۔ اسلام دشمن قوتیں اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک
میں عرصہ دراز سے جو کر گزرنے کے منصوبے بنا رہے تھے ’’موصوفہ‘‘ کے جنازے
کے امام اور شرکاء نے وہ کر دکھایا۔ یہ سب پاکستانی مسلمانوں اور ارباب
اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر خدا نخواستہ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘
میں شعائر اسلام کی تضحیک کی یہی روش چل نکلی اور اس کے سامنے کوئی مضبوط
بند نہ باندھا گیا تو بہت سے دینی، سیاسی و اخلاقی نقصان کا سامنا کرنا پڑ
سکتا ہے۔ جنازے کی تصویر دیکھ کر نہ جانے کیوں اکبر الہ آبادی کی یہ رباعی
بار بار یاد آرہی تھی۔
بے پردہ کل جو چند نظر آئیں بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑھ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا |