میرا سوال ہے کہ 1980 سے پہلے بابری مسجد کو کون جانتا
تھا؟ ہمارے بزرگ شاید جانتے ہوں گے لیکن کوئی عام پاکستانی یا بھارتی
مسلمان یا ہندو نہیں جانتا تھا کہ رام جنم بھومی کیا ہے اور بابری مسجد کیا
ہے؟ لیکن اس کو ایک سیاسی موہرہ بنایا گیا ووٹ بنک کیلئے۔ سپریم کورٹ انڈیا
نے فیصلہ دیا کہ اس اختلافی جگہ پر کوئی نہیں آنا چاہئے ، اس کے باوجود 6
دسمبر 1992میں ایک بڑا اکٹھ ہوا اسی جگہ پر جو سپریم کورٹ کا حکم تار تار
کر رہا تھا اور یہ اکٹھ اس وقت کی اپوزیشن سیاسی پارٹی کی طرف سے کیا گیا
تھا ۔حکومتی جماعت اس وقت چاہتی تو روک سکتی تھی کیوں کہ ساری بیورکریسی
انہیں کے کنٹرول میں تھی وہ جس کی چاہے مدد لے کر وہاں سے ان اشتعال پسند
عناصر کو بھگا سکتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا ! کیوں نہیں ہوا؟ کیونکہ
اپوزیشن نے ووٹ بنک کیلئے اکٹھ کیا تھا اور اگر حکومت اس کے مخالف جاتی تو
اس کا بھی آئندہ ووٹ خراب ہوتا ۔اسی وجہ سے انہیں راستہ دیا گیا ، اس کے
بعد لاکھوں لوگ پورے انڈیا سے اکٹھا ہوئے ، ترشول لے کربابری مسجد پر حملہ
آور ہوتے ہیں ، کوئی بھی عقل مند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ سینکڑوں سالوں سے
بنی ہوئی مسجد کو ترشول مار کر گرایا جا سکتا ہے؟ براہِ راست سب کچھ دکھایا
جا رہا ہے ، حکومت ،ادارے ،اپوزیشن سب بیٹھ کر دیکھ رہے تھے کہ بابری مسجد
یکدم منہدم ہو جاتی ہے ! کیسے ہوتی ہے؟ ڈائنامائٹ سے۔اور کہا جاتا ہے کہ یہ
ایک جذباتی ردعمل تھا !لیکن پلاننگ کے تحت ڈائنامائٹ لگا کر بابری مسجد کو
شہید کیا گیا ! اور مجھے لگتا ہے کہ جارج بش کو بھی بابری مسجد سے ہی
آئیڈیا آیا ہوگا جو اس نے نائن الیون کا حادثہ کروایا ۔ویڈیو میں صاف نظر
آتا ہے کہ ایک جہاز کیسے بلڈنگ کو کراس کر کے نکل سکتا ہے ؟پھر اسی وقت کیا
ہوتا ہے کہ سارے ہندوستان میں دنگے فساد ہوتے ہیں اور ہزاروں لوگ مارے جاتے
ہیں ، جن میں اکثر مسلمان !اور خصوصاََ بمبئی میں ۔ بابری مسجد کو شہید
کرنے میں سب سے پہلی ذمہ دار اپوزیشن پارٹی دوسرے نمبر پر حکومتی پارٹی جو
چاہتی تو روک سکتی تھی لیکن نہیں روکا ، ذمہ دار ہے ، تیسرے نمبر پر پولیس
ہے جو چاہتی تو دنگے فساد روک سکتی تھی جو شروعات میں چند گھنٹوں میں ہی
روکا جا سکتا تھا، لیکن دہشتگردانا کاروائیوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے ۔
پولیس کو سیاسی دباؤ تھا اسی لئے وہ کچھ نہیں کر پائی ۔ ایک ہزار پانچ سو
مسلمان بمبئی میں شہید ہوتے ہیں اور ایک ہزار آٹھ سو لوگ زخمی ہوئے ۔پھر
ایک ہفتے بعد پوری پلاننگ کے ساتھ دنگے فساد بڑے پیمانے پر کروائے گئے ۔
چوتھے نمبر پر عام لوگ تھے جنہیں بہکایا گیا کہ لوٹ مار کریں لیکن وہ سیاسی
لوگوں کی باتوں میں بہک جاتے ہیں ۔جب مسلمان شہید ہوئے تو گورنمنٹ نے
مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے اور ان کا ووٹ لینے کیلئے ایک یک جج شری
کرشنا کمیشن بنایا جسٹس شری بی اینڈ شری کرشن کی زیر نگرانی ۔ میں اس جسٹس
کو داد دیتا ہوں ، انتہائی ایماندار شخص تھے ۔انہوں نے تحقیق کی کہ ذمہ دار
کون تھے اور دو حصوں میں رپورٹ تیار کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنگے فساد منظم
طریقے سے کروائے گئے اور انہی کی رپورٹ میں مذکورہ بالا لوگ ذمہ دار تھے جن
کا ذکر میں کر چکا ہوں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ آج بھی بھارت میں اور پاکستان
میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اکٹھے رہتے ہیں اور ایک دوسرے
کے حقوق کا پورا خیال رکھتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں بھی ایرانی انقلاب سے
پہلے تک شیعہ سنی سب اکٹھے رہتے تھے اور اب بھی رہتے ہیں ، لیکن ایرانی
انقلاب کے بعد ایک تحریک نفاذ فقہ جعفریہ شروع ہوئی ۔اس کے اختلاف میں گروہ
اٹھا جس کے بعد شیعہ سنی فسادات زور پکڑتے چلے گئے، مسلمانوں میں فرقہ
وارانہ تعصب تو اول دن سے ہی موجود تھا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ بم بلاسٹ
کئے جائیں اور ان کا ناحق قتل کیا جاتا۔خاص طور پر جنوبی پنجاب ،سندھ میں
کراچی ، بلوچستان اور پارہ چنار وغیرہ کو اس فرقہ واریت کا نشانہ بنایا گیا
اور معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا ۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے
ایک انسان کونا حق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور میں بڑے
وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کریم میں کہیں بھی کوئی ایک بھی تعلیم فرقہ
واریت کی نہیں دی گئی بلکہ با رہا حکم دیا گیا کہ تفرقے میں مت پڑو۔ لیکن
اس مقصد کے پیچھے بھی ہمیں پتہ چلا کہ ان تمام دنگوں میں سیاسی ہتھکنڈے تھے
اور جو تنظیمیں بنائیں گئیں جیسے شیعہ مکتب فکر کی تنظیم اور سنی دیوبند
مکتب فکر کی تنظیم ان کی پشت پناہی دو مختلف سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں جیسا
کہ سب جانتے ہیں ۔قرآنی آیت کے مطابق اگر کوئی شخص کسی معصوم انسان کا نا
حق قتل کرتا ہے تو وہ گویا پوری انسانیت کو قتل کرتا ہے اس ایماء پر میں یہ
سمجھتا ہوں کہ ایک مسلمان کبھی بھی کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا اور
میں ذاتی طور پر فسادبپا کرنے والوں کو اس بات پر اتفاق کرنے کی دعوت دیتا
ہوں جو رب ذوالجلال سورۃ ال عمران کی آیت نمبر 64 میں فرماتا ہے کہ کہو! آؤ
اس بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے ، اور اگر وہ پھر جائیں تو تم
گواہی دو کہ تم سچے مسلمان ہو ۔ اس آخری پیغام کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ
کوئی تاویل تعصبانہ رویے کو ترویج دینے کیلئے بچتی ہے ، میں یہ کہنا چاہتا
ہوں کہ ہمیں قانون کی حاکمیت پر بھروسہ کرنا چاہئے نا کہ سیاسی نظام پر۔
پاکستان میں حالیہ صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ
نواز شریف ہی واحد پاکستان کا وارث ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں ! کھلے عام
عدلیہ اور اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، حالانکہ کہ تاریخ گواہ ہے کہ
بارہا انہی اداروں نے پاکستان اور عوام کو سہارا دیا ، عوام سیاسیوں کے
بہکاوے میں نا آئے خاص طور پر تاجر اور کاروباری طبقہ جن کی وجہ سے پاکستان
کی معیشت پراثر پڑتا ہے اور نظام عدل اور افواجِ پاکستان پر اپنا بھروسہ اﷲ
اور اس کے رسول ﷺکے بعد قائم رکھے ، ان شاء اﷲ یہ چند مادہ پرست لوگ جلد ہی
فناہ ہو نگے۔اور میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اس نظام عدل کو سیاست سے
دور رکھے ۔علامہ اقبال ملت کے باہمی اتحاد کو ستاروں سے تشبیہہ دیتے ہیں :
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمیں والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں |