دیہی علاقوں میں رہا ئش کے مسائل عارف حسن(ترجمہ: ڈاکٹر محمد جاوید)

تعارف
(عارف حسن۱۹۴۳ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۷ء میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔انہوں نے آکسفورڈ پولی ٹیکنیک برطانیہ میں۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۵ء تک آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی۔اور پھر ٓارکیٹیکٹ کی حیثیت سے برطانیہ ،فرانس،سپین میں کام کیا اور ۱۹۶۸ء میں پاکستان واپس آئے اور آزادانہ پریکٹس کا آغاز کیا۔
عارف حسن بڑے پیمانے پہ اہم رہائشی،تجارتی اور تعلیمی بلڈنگ سہولیات کے آرکیٹیکٹ ہیں۔وہ معاشرے میں کام کرنے والی مختلف کمیونیٹیز،این جی اوز،سرکاری اداروں،اور عالمی سطح پہ ترقی کے لئے کام کرنے والی ایجنسیوں کے کنسلٹنٹ رہے ہیں۔۱۹۸۲ء سے وہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ(OPP) کے پرنسپل کنسلٹنٹ ہیں۔انہیں کراچی میں بڑے پیمانے پرکچی آبادیوں میں آبادکاری کے پراجیکٹس کو اپ گریٹ کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پرسے کافی داد وتحسین ملی ہے۔انہوں نے ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۹ء تک DAP ( ڈیپارٹمنٹ آف آرکیٹیکٹ ایند پلاننگ ) داؤد کالج میں(Comprehensive Environmental Design Project)مکمل کیا،اور وہیں درس وتدریس میں بھی مشغول ہیں۔
عارف حسن اپنے کا م کے صلے میں کئی ایوارڈز لے چکے ہیں۔وہ سٹئیرنگ کمیٹی آف آغاخان ایوارڈ کے ممبر برائے آرکیٹیکچر ہیں۔اور حال ہی میں اس کی ماسٹر جیوری کے ممبر بنے ہیں۔وہ Asian Coalition for Housing Rights بنکاک کی اگزیکٹو بورڈ کے ممبر اور International institute for Environmental and Development برطانیہ کے ممبر ہیں۔اور اربن ریسورس سینٹر کراچی کے چئیر مین بھی ہیں۔عارف حسن تسلسل کے ساتھ ہاؤسنگ اور ترقی کے حوالے سے قومی اور بین لاقوامی جریدوں میں لکھتے رہے ہیں۔وہ انسانی آبادکاریوں کے حوالے سے مختلف عنوانات پہ کئی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔)
زیر نظر مضمون عارف حسن کی کتاب"Housing for the poor" سے لیاگیا ہے۔(یہ مضمون خدا کی بستی میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔)

Arif Hasan, is a Pakistani architect, planner, activist, social researcher, and writer. He is a recipient of Hilal-i-Imtiaz, the country's highest award for its citizens.

پاکستان کی آبادی تین اعشاریہ دو کی اوسط سے ہر سال بڑھ رہی ہے۔ہر سال پانچ لاکھ بیس ہزار نئی رہائشی مکانات کی ضرورت ہے۔ان میں سے دو لاکھ پچاس ہزار مکانات دیہی علاقوں کی ضرورت ہیں۔تاہم ان میں سے صرف تیس فیصدی مکانات بنا نے کے اہل ہوتے ہیں کیونکہ زمین کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ غریب اپنے معاشی حالات کے پیش نظر اسے خرید نہیں سکتے ۔جو لوگ کسی طرح سے مکانات بنا لیتے ہیں ان میں بھی بڑی تعداد مکانات کو صحیح ڈیزائننگ اور معیار کے مطابق نہیں بنا سکتے۔کیونکہ روایتی عمارتی تعمیراتی سازو سامان اور تعمیرات کے ماہرہنر مند پہت زیادہ مہنگے ہیں۔یہ وجوہات دیہی علاقوں میں تعمیرات کے حوالے سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔باقاعدہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مکانات کا سٹاک خرابی سے دوچار ہو رہا ہے۔

اس بحران کی اصل وجہ پرانے سوشو اکانومی ڈھانچے کو منتشر کرنا ہے جسے پاکستان میں دیہاتی معاشرہ چلاتا تھا،زمین مہیا تھی اور مہارتیں اور میٹیریل آبادی کے لئے مہیا کیا جاتا تھا۔

یہ انتشار بڑے پیمانے پہ معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ،لیکن یہ بھی حقیقت ہیکہ زندگی میں آنے والی ان تبدیلیوں کے لئے کوئی ادارہ معرض وجود میں نہ آیا جو کہ اس کی دیکھ بھال کرتا اور اسے تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ بناتا۔

قدیم طریقہ سے مکانات کی تعمیر
زمین
پرانے معاشرتی طریقے کے مطابق ہر گاؤں ایک بڑے خطہ زمین پر مشتمل ہوتا تھا اور اس کا تعلق ایک مخصوص کمیونٹی سے ہوتا تھا۔یہ خطہ زمین ’’شاملات‘‘کہلاتا تھا۔اور قبائلی،جاگیرداری نظام کے تحت اس کا نظم سنبھالا جاتا تھا،جس کے تحت گاؤں کی کمیونٹی کا نظام چلتا تھایہ خطہ زمین جانوروں کے چرنے،جنگلات جن سے لکڑی تعمیراتی مقاصد،اور ایندھن کے لئے حاصل کی جاتی تھی۔اور آ بادی کے پھیلاؤ کے لئے بھی یہ استعمال ہوتا تھا۔اس لئے زمین رہائشی مقاصد کے لئے غریب دیہاتیوں کو پرانے نظام کے تحت تفویض کی جاتی تھی۔

مہارتیں
ہر گاؤں میں وراثتی طور پر ہنر مند خاندان ہوتے تھے جو کہ اس آبادی کے لئے کام کرتے تھے۔ ان ہنر مندوں میں بڑھئی،چٹائی ساز،کمہار،قصائی،حجام،دھوبی،بہشتی،اور بھانڈ شامل تھے۔انہیں گاؤں کے لوگ گھر بھی دیتے تھے اور ان کی دیگرضروریات بھی پوری کرتے تھے۔وہ ان کی شادیوں اور فوتگی میں ہونے واے اخراجات کی بھی دیکھ بھال کرتے تھے۔یہ ہنر مند ہر اس فرد کو اپنی خدمات دیتے تھے جو سیزن کے مطابق انہیں زرعی اجناس اور دودھ وغیرہ کے ذریعے ان کے اخراجات میں مدد دیتا تھا۔نقد رقم اس تمام معاملے میں استعمال نہیں ہوتی تھی۔دستکار جتنا کام انجام دیتے وہ اس کا بدل نہیں لیتے تھے۔ہنر مند خاندان جن کا تعلق ایک گاؤں سے ہوتا تھا عام طور پر انہیں دوسرے گاؤں میں جا کر رہائش اورکام کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

تعمیراتی سامان
زیادہ تر برادری کی زمین درختوں کے لئے مختص ہوتی تھی تاکہ لکڑی سے چار دیواریاں بنائی جاتیں اور گھاس اگانے کے لئے کام میں لائی جاتی تھی۔یہ حاسدانہ طریقے سے محفوظ کی جاتی تھی۔اور مخصوص کوٹہ ایندھن اور تعمیر کے لئے مختلف خاندان اپنی استطاعت کے مطابق محفوظ کرتے تھے۔ان درختوں اور اثاثوں کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال میں لانے کی اجازت نہیں تھی۔اور ان کا ضیاع روکا جاتا تھا۔کیچڑ کو مخصوص علاقوں سے برادری کی زمین سے صاف کر دیا جاتا تھااور نشیبی زمین پہ پانی کے تالاب بنائے جاتے تھے،جو کہ پانی اور جانوروں کو دھونے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔

مکانوں کی دیکھ بھال
پرانے دور میں گاؤں کی آبادی کے پاس کھیتی باڑی اور بوائی کے بعد کافی وقت فارغ بچ جاتا تھا۔ان اوقات کو مکانات کی مرمت اور بہتری کے لئے خرچ کیا جاتا تھا۔مون سون کے علاقے میں لپائی کرنابارشوں کے بعد ایک مسلسل عمل ہوتا تھا۔ سردیوں میں خانہ بدوش افغانستان یا بلوچستان سے میدانوں کی طرف آتے تھے ۔وہ مٹی کی دیواریں کھڑی کرنے اور پلستر کے ماہر ہوتے تھے۔وہ پرانی تعمیر کو مرمت کرنے اور نئی بنانے میں مدد کرتے تھے۔تاہم دیہاتی علاقوں میں اب فرصت کے لمحات غائب ہو رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر خاندان غربت کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ زراعتی آمدن کے ساتھ ساتھ دوسرے سیکٹر میں بھی کام کرتے ہیں۔خانہ بدوشوں نے ابھی میدانوں میں آنا بند کر دیا ہے۔سرحدی رکاوٹوں اور ان کی اپنی معاشی معاشرتی ڈھانچے کی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی نقل وحرکت پہ پابندیاں لگ چکی ہیں۔

نقشہ مکان اور گاؤں کی منصوبہ بندی
مکانات کا نقشہ اور گاؤں کی منصوبہ بندی کے لئے پاکستان میں مروج شدہ نظام ہی چلتا رہا تھا۔انہوں نے خاندان اور برادری سطح پہ معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں کروائیں۔اس لئے ایک قصائی کا گھر ایک مزارع کے گھر سے اور ایک تاجر کا ایک نانبائی کے گھر سے مختلف تھا۔صدیوں کے تجربے سے گاؤں کے ہنر مند روایتی سامان،اور ترقی کی تکنیک،اپنے مقامی آب وہوا کے مطابق استعمال کرنے کے ماہر ہو چکے تھے۔

دیہی معاشرے میں تبدیلیاں
صدی کی تبدیلی سے پہلے دیہی زندگی میں معاشی لین دین جنسی تبادلے کے اصول پہ ہوتا تھا۔اسکی اہم وجہ دیہاتی آبادی کے اندر سماجی اور معاشی تحرک مشکل تھا،اگرچہ ناممکن نہ تھا۔قومیتی امتیاز مسلسل موجود تھا اور گاؤں کی معاشی خود کفالت موجود تھی۔اجنا س کے تبادلے کی بجائے نقد رقم کے تعارف نے اور شہری آبادی کی ترقی اور صنعتی ترقی ،دیہاتی سیاسی ڈھانچے کوتباہ کر چکی ہے اور گاؤں کی خود کفالت کو ناممکن بنا دیا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف سطح پہ صنعتی پیداوار نے شہری معیشت میں اپنی جگہ بنا لی۔۱۹۶۰ء میں وہ ہنر مند جو زیادہ ترقی یافتہ علاقوں میں رہتے تھے نے اپنی مزدوری روپے میں متعین کر نا شروع کر دی۔کھیتی باڑی کے آلات،بیجوں کی نئی اقسام اور فصلوں کو بیماریوں سے بچانے والی ادویات سب کے لئے نقد رقم کی ضرورت پڑی۔نقل وحمل کے نئے ذرائع نے مارکیٹنگ میں انقلابی تبدیلی پیدا کی اور رقم پیدا کرنا اہم مقصد بنا۔تمام دیہات صنعتی پیدوار میں حصہ دار تو نہ ہو سکے لیکن انہوں نے متبادل طور پہ خام مال مہیا کیا۔

نقدی کے تعارف کے اثرات
پرانے دیہی ڈھانچہ اور معاشرتی ربط جب ٹوٹ گیا تو اور دیہاتی برادری کی اکثر زمین بااثر طبقات کے قبضے میں چلی گئی۔جو زمین قبضے سے بچ گئی وہ یا تو متنازعہ ہے یا اس کو کئی سنبھال نہیں رہا۔کئی جگہوں پہ برادریوں نے باہر سے آنے والے افراد کو مالکانہ حقوق دے دئیے ہیں یا اسے بیچ دیا ہے۔اس وجہ سے رہائشی زمین کا حصول دیہاتی افراد کے لئے انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔خاص طور پر زرعی علاقے میں جہاں زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

مذکورہ صورتحال کی وجہ سے دستکار شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں۔جہاں وہ اپنی مزدوری نقدی میں کما سکتے ہیں۔انتہائی دور افتادہ دیہی علاقے میں دیہی برادریوں کا نظام دستکاروں کے جسم اور روح کا رشتہ ہی برقرار رکھ پا رہا ہے۔

اس تبدیلی نے تین اثرات پیدا کر دئیے تھے۔پہلا یہ کہ معاشرتی اور معاشی نقل و حرکت کو ممکن بنا دیااور روایتی دستکاری ورثے کا خاتمہ کر دیا۔اور اس نے دستکاروں کی صلاحیت پہ برا اثر مرتب کیا۔دوسرا یہ ہوا کہ دور افتادہ دیہی علاقوں میں ہنر مند ناپید ہو چکے ہیں۔اور تیسرا یہ ہوا کہ ہنر مندوں کو کام کے لئے حاصل کرنا دیہی غریب اور نچلے اوسط آمدنی والے گروہوں کی پہنچ سے دور ہو گیا۔اس لئے نئے بنائے گئے گھر انتہائی کم معیار کے اور اس طرح سے تعمیر شدہ ہیں کہ ان پہ پرانے ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

رقم کا حصول دیہی آبادی کو اپنے روایتی اثاثے ،جنگلات اور پودے جو کہ آبادی کی زمین پہ ہیں بیچنے پہ مجبور کر چکا ہے۔اس سے عمارتی اور تعمیراتی لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے اور باقاعدہ گاؤں کی مؤثر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے دیہی آبادی عمارتی ساز وسامان کے لئے ٹھیکیداروں پہ انحصار کرنے پہ مجبور ہے۔

زیادہ تر گاؤں اب نیم شہری بن چکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔بجلی،پانی سپلائی کی سکیمیں اور نکاسی آب کا نظام حاصل ہو چکا ہے اور اس کی طلب ہے۔نقل وحمل کا نظام ،نئی پیداواری تکنیک اور تعلقات کی تبدیلی کی وجہ سے تبدیل کرنا ہو گا،پرانے طرز کی گھر کی پلاننگ یا خود گاؤں کی پلاننگ میں تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔غیر منظم انداز سے ان تبدیلیوں کا آغازہو چکا ہے۔جو دیہی علاقے شہری رہائشوں کے ساتھ ہیں کی شہری طرز کی نقالی غیر مساوی تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

اوپر زیر بحث لائے گئے عوامل دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب کے لئے زمین کا حصول،مکان کی تعمیر کے لئے عمارتی تعمیراتی ساز وسامان کی خریدیا اجرت پہ مزدور کا حصول ممکن بنا چکے ہیں۔یہ روایتی ڈھانچوں کے ٹوٹنے اور نئے مناسب اداروں کے فقدان کے ساتھ انہیں (marginalised)کر چکے ہیں۔
نتیجے کے طور پہ زمین سے محروم مزدور طبقہ آدھی سے بھی کم اجرت لینے پہ مجبور ہے یا اپنے آپ کو زمیندار تک محدود کر دیا ہے لہذا انہیں رہنے کی جگہ چا ہئے۔ایسے حالات میں ان کے خاندانوں کو بیگار دینی پڑتی ہے۔پس جبکہ نقدی نے پرانے فیوڈل تعلقات کو ختم کر دیا ہے لیکن غریب آدمی کے لئے نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔

دیہی رہائشی تبدیلیوں کے حوالے سے معلومات کا فقدان
یہاں دیہی علاقوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کی فطرت کے بارے میں جن کا تعلق رہائشی پہلو سے ہے مکمل طور پہ تحقیق اور معلومات کا فقدان نظر آتا ہے۔ زمین کے استعمال کے حوالے سے وسطی پنجاب کے Issues)) زیادہ اہم ہیں۔خاندانی ملکیتوں میں تبدیلی،تعمیراتی سامان کی ناقصیت، تعمیرات پہ مجموعی لاگت،تعمیراتی صنعت کی کارکردگی، پیداوار اور مارکیٹینگ کے نئے طریقوں کی تبدیلی کی وجہ سے ترقی کے نئے عوامل،ابھی تک تحقیق کے متقاضی ہیں۔ان Issues))کو سمجھے بغیردیہی علاقوں میں رہائشی پالیسی مرتب کرنا مشکل ہے۔

تاہم 1980ء میں کی گئی (Housing Census)کے اعدا وشمار موجود ہیں جن پہ کام کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومتی پالیسی کا تجزیہ
حکومتی پالیسی جس کا تعلق دیہی رہائشی منصوبہ بندی سے ہے۔وہ چار قسم کی ہے۔پہلی ،یہ ہیکہ زمین کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے اسے غریب افراد کے درمیان ’’سات مرلہ سکیم‘‘ کے تحت تقسیم کیا جائے۔دوم ،گاؤں کی ترقیاتی سکیم جس میں گاؤں کے لوگوں کوترقیاتی عمل میں شریک کیا جائے۔سوم ،HBFC ترقیاتی اور مکانات کی تعمیر کے لئے قرض۔چہارم،زکوٰۃ فنڈ کی مدد سے مکانات کی تعمیر برائے مستحقین ۔

سات مرلہ سکیم
سات مرلہ سکیم کے تحت حکومتی زمین کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے دیہی علاقوں میں غریب افراد میں بلا قیمت تقسیم کیا گیا۔اس سکیم کے مختلف پہلوؤں کااندازہ لگانے سے یہ سامنے آیا کہ:
۱۔۔یہ سکیمیں زیادہ ترگاؤں کی برادری کی زمینوں کے ساتھ ساتھ حکومتی اراضی کو ختم کرنے کا باعث بنی ہیں۔ اس لئے ،دیہی برادریوں کی زمین جو کہ انہیں اجتماعی سر گرمیوں کے لئے ضرورت ہے،کو ان سے محروم کرنے کے بعد بہت جلد یہ پروگرام رک جائے گا۔
۲۔۔اکثر یہ سکمیں وہاں موجود ہیں جہاں نہ تو سڑک ہے اور بہت ساری ایسی ہیں جہاں پانی موجود نہیں ہے۔
۳۔۔اس کے باوجود کہ یہ سکیمیں 1985ء میں شروع ہوئی، لیکن ابھی تک وہ آباد نہیں ہوئیں۔لیکن یہ سب کچھ اوپر بیان کی گئی وجوہات کی وجہ سے ہی نہیں ہے،بلکہ اس میں دوسرے معاملات بھی شامل ہیں مثلا زمینیں ایسے با اثر افراد نے اپنے زیر کفالت اوراجرتی خدمت گاروں کے نام پہ حاصل کر کے اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنی ملکیت میں رکھی ہوئی ہیں۔
۴۔۔سات مرلہ سکیموں کی منصوبہ بندی کسی قسم کی امتیازی حد بندی کے بغیر مضبوط طریقے کار پہ مشتمل ہے۔یہ دیہاتی برادریوں کی نسبت اوسط آمدنی والے طبقات کے لئے زیادہ موزوں ہے جن کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔

گاؤں کی ترقیاتی سکیمیں
کئی سکیمیں مقامی آبادیوں کے اشتراک کے ساتھ گاؤں کی ترقی کے لئے معیشت اور لیبر کی شکل میں پورے ملک کے کئی علاقوں میں مصروف عمل ہیں۔یہ سکیمیں پائپوں سے پانی سپلائی کرنے کے منصوبے،گلیاں بچھانے،نکاسی آب اور سکول تعمیر کرنے کے پروگرام پر مشتمل ہیں۔ان کے انتظامی معاملات اوردیکھ بھال مقامی حکومت اور دیہی ترقی کے شعبہ جات(LG&RDD)(Local Governament & Rural Development Department) اور ضلعی کونسلیں کرتے ہیں۔کچھ ضلعی ترقی کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔جبکہ دوسرے ترقیاتی پروگراموں سے فنڈکو یقینی بناتے ہیں۔ان میں سے چند کی عالمی ادارے بھی مدد کرتے ہیں۔

ان سکمیوں کے بارے میں اندازا لگانے سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سکیمیں ان علاقوں میں کام کر رہی ہیں جہاں ضلعی کونسلیں سیاسی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں۔اس کے باوجود آخری نتیجہ یہ سامنے آتا ہیکہ تکنیکی طور پہ خرابی سے دوچار ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا ہیکہ عام طور پر صرف ان سکیموں سے بااثر قوتیں ہی مستفیض ہوتی ہیں۔

ان سکیموں کا چلنا اور ان کی دیکھ بھال(Operation &Maintenance)کے سلسلے میں گھمبیرمسائل سامنے آئے ،اور ان کی وجہ سے کئی سکیمیں چند سال کام کرنے کے بعد بند ہو چکی ہیں۔

یہ ضرور ذہن میں رہنا چاہئے کہ(Operation &Maintenance)دونوں معاشی اور ٹیکنیکل اصطلاحات ہیں۔حکومت کے لئے ان بڑھتی ہوئی مشکلات پہ قابو پانا مشکل ہے۔اس کی بجائے آبادیاں اس کو اپنے ذمہ لیں ورنہ دائمی ترقی ممکن نہیں۔

اوپر بیان کئے گئے مسائل کی وجوہات یہ ہیں کہ:
ا۔۔LG&RDD اور ضلعی کونسل کے انجئیرنگ ونگز تنظیمی اور تکنیکی اعتبار سے کمزور ہیں۔
ب۔۔عملی کام شروع کرنے سے پہلے آبادی کو اپنے اندرتنظیم پیدا کر کے کام کرنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔یہی وجہ ہیکہ سکیموں کے(Operation &Maintenance)میں مقامی آبادی کا اشتراک نظر نہیں آتا۔
ج۔۔LG&RDD اور ضلعی کونسل میں باقاعدہ نگرانی اور تخمینہ لگانے کی سہولتوں کا فقدان ہے،لہذا بغیر ان سہولیات کے وقتاً فوقتاً ہونے والی ضروری ترمیمات جو کہ ان سکیموں کی کامیابی کے لئے ضروری ہیں نہیں ہو سکتا۔دیہی ترقیاتی اکیڈمیز اس خلا کو پر کر سکتی ہیں لیکن ان کی شمولیت کہیں موجود نہیں ہے۔
د۔۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاص NGO کے کام جو کہ انہوں نے دیہی علاقوں میں کئے ہیں جیسا کہ AKRSP وہاں تکنیکی نتائج بہتر ہیں۔دیہاتی مؤثر انداز سے تخلیق کردہ ڈھانچہ کو چلانے اور اس کی دیکھ بھال میں شامل ہیں۔یہ صرف اس وجہ سے ہوا ہیکہ NGO نے ترغیب ،کام کو وسعت دینے اور اس کی نگرانی کا کام کیا ہے۔مقامی حکومتیں پہلے سے سماجی تحقیق کے بغیر یہ نہیں کر سکتیں۔اس مقصد کے لئے پہلے تو ایسے ادارے موجود نہیں اگر موجود ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کوصرف نظریاتی معاملات تک محدود کیا ہوا ہے۔(یعنی عملی مسائل کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں)

مکان کی تعمیر وتوسیع کے لئے قرض
مکان کی تعمیر و توسیع کے لئے حکومتی قرضہ جات موجود ہیں۔یہ قرضے HBFC کے ذریعے پلاٹ یا گھر کے مالکان کو دئیے جاتے ہیں۔تاہم ان قرضوں کا حصول دیہی آبادی کی دسترس سے باہر ہے کیونکہ:
*دیہی علاقے میں رہنے والے زیادہ تر مکانات کے مالکان کے پاس ملکیت مکان کے کاغذات نہیں ہیں اگرچہ کہ ان کا حق ملکیت گاؤں کی کمیونٹی نے تسلیم کیا ہوتا ہے۔

*قرض حاصل کرنے کا طریقہ اتنا طویل اور تھکا دینے والا ہے اوراس کے ساتھ بیوروکریسی کی مداخلت اور خرد برد اور اقربا پروری۔لہذا جو ان کے قریب یا مالدار ہوتا ہے وہی ان سکیموں کو استعمال میں لا سکتا ہے۔
*قرض کی واپسی کے حوالے سے بھی مسائل سامنے آتے ہیں۔ایک بڑی تعداد نادہندہ کی موجود ہے۔اگر یہ سب ہوتا ہے تو پروگرام کو جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے اگر حکومت ان قرضوں کو ختم کرتی ہے تو کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی۔

مکان کی تعمیر برائے مستحقین
یہ انتہائی مختصر سا پروگرام ہے اسے بہت کم توجہ کی ضرورت ہے۔اس کے تحت چھوٹے مکانات زکوٰۃ فنڈ سے بناکر انہیں مستحقین کو بغیر قیمت کے مہیا کرنے کا کام ہے۔اس پروگرام کو بڑھایا جا سکتا تھا۔ اگر مکانات کی جگہ زمینیں مہیا کی جاتیں۔

ضروریاتِ پالیسی
۱۔تحقیق اور ذخیرہ معلومات
یہ انتہائی ضروری ہیکہ دیہی علاقوں میں ہونے والی سماجی،معاشی تبدیلیوں اور ان کی فطرت اور مزاج کو اورترقی پہ مرتب شدہ اثرات کواچھی طرح سے سمجھا جائے۔اس ادراک اور معاون اعداد وشمار کے بغیر وہ ہاؤسنگ پالیسی جو کہ تمام قسم کی آمدنی والے طبقات کی ضرورت ہے مؤثر نہیں ہو سکتی۔
نیشنل ہاؤسنگ اتھارٹی ایک مناسب ادارہ ہے جو اس طرح کی تحقیق کے حوالے سے دیہی ترقیاتی اکیڈمیز اوردوسری متعلقہ ایجنسیوں کے ماہرین کو شامل کر کے قدم اٹھا سکتا ہے۔یہ بات ضروری سمجھنے والی ہو گی کہ دیہی علاقوں میں حکومتی شمولیت ایک کھلا میدان ہے اور تحقیق و ارتقاء سے ایک مناسب ماڈل ایک مدت لگا کر بنایا جا سکتا ہے۔

۲۔آبادی کی زمین کاانتظام
عصری تقاضوں اور تبدیلیوں کے مطابق پرانے کی جگہ ایک نیا اور کامیاب سماجی ماڈل بنانے، اورگاؤں کی ناپید حکومت میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اس ماڈل کے ذریعے آبادی کی زمینوں، جنگلات، مہارتوں اور منافع کو شامل کیا جا سکتا ہے۔اس ماڈل یا موجودہ بلڈنگ انڈسٹر ی میں تکنیکی تحقیق کوبڑھانے سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔اگر یہ سکیم (Pilot)پائلٹ سطح پہ کام کر سکتی ہے تو اس کی Replication کو بڑے پیمانے پہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ عملی سماجی اور تکنیکی تحقیق اور اس کی توسیع اس تمام سر گرمی کی پہلی ضرورت ہے۔

زمین تک رسائی
دیہی ہاؤسنگ سکیموں کے لئے آبادی کو بے دخل کرنے یا سرکاری زمین کی جگہ کی بجائے حکومت کو پرائیویٹ زمین یا کھلی مارکیٹ سے زمین مناسب جگہ پہ خریدنی چاہئے ۔شروع میں اس کی قیمت زیادہ ہو گی،اس کی قیمت الاٹی سے قابل استطاعت ایڈوانس رقم اور کم آسان قسطوں میں منافع کے ساتھ وصول ہونی چاہئے۔ملکیت اس وقت دینی چاہئے جب تمام قیمت پوری ہو چکے۔

منافع خوری کے عمل کو روکنے کے لئے ،پلاٹ کی الاٹمنٹ کے پندرہ دنوں کے اندر اگر مالک قابض نہیں ہوتا تو اس کی الاٹمنٹ ختم کی جائے۔

قیمت کی وصولی کے مؤثر نظام اورمؤثر نظام کی ترقی کے لئے آبادی کی تنظیمیں وجود میں لانی ضروری ہیں۔دوبارہ اگر یہ پلاٹ پراجیکٹس کامیاب رہیں،انہیں Replicate ہونا چاہئے۔ان منصوبوں کے لئے زمین کی خریداری مقامی یا صوبائی حکومت کے وسائل سے باہرہو گی۔انفراسٹکچر ڈیولپمنٹ قرض کی بجائے اس مقصد کے لئے عالمی اداروں سے رقم لی جا سکتی ہے۔

گاؤں کی بہتری کی سکیمیں
حکومت کی موجودہ سکیموں کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہیکہ LG&RDD اور ضلعی کونسل کی تکنیکی،نگرانی اورتخمینہ کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔مزید یہ کہ لوگوں کو اس کام شریک کرنے کے لئے انہیں ترغیب دینا LG&RDD اور ضلعی کونسل کے پروگرام میں شامل ہونا چاہئے۔اسے ممکن بنانے کے لئے سماجی اور تکنیکی تحقیق کو دیہی ترقی کی اکیڈمیز کے حوالے کرنا چاہئے۔اس تحقیق کو مزید لوگوں کے حوالے سے ترقی دینے کے لئے ضروری ہیکہ LG&RDD اور ضلعی کونسل کے سٹاف کو پائلٹ پراجیکٹس یا NGOs کے پراجیکٹس پہ مناسب تربیت دی جائے۔اس طرح کی تحقیق کے ذریعے قابل استطاعت اور سستے روایتی تعمیرات کے سامان کی صورت میں متبادل تلاش کرنے چاہئے،اور ایسے راستے اورذرائع تلاش کرنے چاہئے جو کہ ایسی مہارتوں کو ترقی دیں جن کی مدد سے ان متبادل طریقوں کو گاؤں کی سطح پہ استعمال میں لایا جا سکے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ منصوبے مقامی حکومت کامیابی سے کر سکتی ہے اگر مقامی حکومت کے ادارے مضبوط اور مؤثر ہیں۔

خلاصہ کلام
کئی ایسے پائلٹ پراجیکٹس جو کہ حکومتی پالیسیوں کی کمزوریوں کو رفع کرتے ہیں تجویز کئے گئے ہیں۔یہ پائلٹ پراجیکٹس اسی صورت میں دھرائے جا سکتے ہیں ۔اگر مسلسل نگرانی،ان کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا اور وقتاً فوقتاً تخمینہ سے کام لیا جائے۔ان منصوبوں کے طریقہ کار اور عملدر آمد کے طریقے بارے وقت کے ساتھ ساتھ مناسب ترامیم ضروری ہیں۔ضروری ہے کہ اس عمل میں شمولیت اور یا ایسے ادارے تخلیق کئے جا سکتے ہیں جو ان سر گرمیوں میں حصہ لیں۔ترامیم کے لئے دی گئی تجاویز موجودہ حکومتی پالیسی کے لئے ٹھوس اور بہت حوصلہ افزا ہیں۔

تاہم مسئلے کی سنجیدگی اور دیہی معاشرے کی تبدیلی،تکنیکی اور دیہی اداروں کی معاشی کمزوری ترقی کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔وفاقی خزانہ پہ بیرونی قرضوں کے بوجھ کو مد نظر رکھتے یہ ضروری ہیکہ نئے اور سستے ترقی کے ماڈلز کے بارے میں تحقیق کی جائے۔اگر یہ تحقیق کا عمل کامیاب نہیں ہوتا تب ترقی کے سارے منصوبے آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو دیں گے۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136230 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More