عظیم لوگ

مری سے اسلام آباد تک سیکڑوں کنال اراضی پر قبضہ کرنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ آخر پر دو گز زمین ہی سب کا ٹھکانہ ہے۔ وہ بھی قسمت سے مل گئی تو۔ ورنہ لاتعداد انسان چیلوں اور گدھوں کا نوالہ بنتے ہیں۔ یا دریا سمندر میں مچھلیوں کا شکار ہوتے ہیں یا ان کے اعضاء بکھر جاتے ہیں۔ یا ان کا سر دھڑ ہی ملتا ہے۔ مگر انسان کی حرص اور لالچ کا کوئی جواب نہیں۔ اس کا شکم نہیں بھرتا۔ یہ لینڈ مافیا، قبضہ مافیا ، فراڈ ، دھوکے وغیرہ کرنے والے لوگ غیر شعوری طور پر انسان کے انجام اور آخری آرام گاہ سے بے فکر ہو کر کام کرتے ہیں۔ قدرت اﷲ شہاب نے ایک اہم واقعہ بیان کیا ہے۔ جو یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ اس وقت جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ایک روزجھنگ کے ایک پرائمری سکول کا استادرحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائرہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں‘ رہنے کیلئے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی‘ اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہاں رہے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہوں گی‘ کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا۔ اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جاکر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ‘ اﷲ تمہاری مدد کریگا۔پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہوگیا اور بولا جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا‘ حضور نبی کریم ﷺ کے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں‘ اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ نے سنا نہیں کہ ’’باخدا دیوانہ وبامصطفیٰ ہشیار باش‘‘ یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کافرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کیلئے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا‘ پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی ہیں جو اس نے بیان کیے تھے۔

اس زمانے میں کچھ عرصہ کیلئے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربع تک ایسے خواہش مندوں کو طویل میعاد پر دے سکتے تھے جو انہیں آباد کرنے کیلئے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کراؤن لینڈ کے ایسے آٹھ مربع تلاش کرے جنہیں جلدازجلد کاشت کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردئیے۔دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کردیا کہ یہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ساری ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے‘ تقریباً 9 برس بعد میں کراچی میں فیلڈمارشل جنرل ایوب کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا (اس زمانے میں پاکستان کا صدر مقام اسلام آباد کی بجائے کراچی تھا)۔یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے‘ اپنے گزارے اوررہائش کیلئے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کرلیا ہے۔ اسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں‘ چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ یہ خط پڑھ کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا‘ میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر پاکستان کوئی بات کرنے کیلئے میرے کمرے میں آگئے ’’کس سوچ میں گم ہو‘‘ انہوں نے حالت بھانپ کر پوچھا‘ میں نے انہیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے‘ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے۔ تم نے بہت نیک کام سرانجام دیا ہے۔ میں گورنر کو لاہور ٹیلیفون کردیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں‘ میں نے نہایت لجاحت سے گزارش کی کہ یہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں یہ سن کر صدر پاکستان بولے کہ تمہیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ’’جی نہیں سر‘‘ میں نے التجا کی۔ آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کیلئے کام آتی ہے‘ وہ کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی ہے۔ قارئین! اس واقعہ کے پانچوں کردار آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن جھنگ کے ایک پرائمری ٹیچر رحمت الٰہی کا کردار ہم سب کیلئے منارہ نور ہے۔یہ عظیم لوگ تھے ۔ جنھیں اپنی موت کا یقین ہے۔ اس لئے انہیں خوف خدا ہے۔ کسی کی زمین جائیداد ہڑپ کرنا یہ گناہ عظی، سمجھتے ہیں۔ یہ عظیم لوگ سمجھتے ہیں کہ جو چیز انھیں آج ضرورت ہے۔ وہ کسی اور کی بھی ضرورت ہو گی۔ آج ضرورت پوری ہوئی تو یہ امانت واپس کر دیتے ہیں کہ اس سے کسی دوسرے کی ضرورت پوری ہو۔ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ سرکاری زمینوں ، جائیدادوں، غریبوں کے مال پر قبضے کرنے والوں سمیت ہم سب کے لئے یہ واقعہ چشم کشا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555930 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More