برسیوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

شہیدوں کی برسیوں کا مقصد اگر ان کے نام پر مخلص لوگوں سے پیسے اکھٹے کر کے جلسے اور اور مختلف قسم کی تقریبات منعقد کر کے خود کو نمایاں کرنا ہے تو پھر یہ کام ہم اجتماعی طور پر بہت اچھی طرح کر رہے ہیں لیکن اگر شہداء کے مشن کی تکمیل ہے تو پھر ہمارے ملک کی اکثر جماعتوں کا شمار منافقین میں شمار کیا جائے گا۔ شہداء کے ساتھ عقیدت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ان کے نام لیوا ان کے مشن کی تکمیل کے لیے خود بھی قربانی دیں اور قربانی دینے والوں کی عملی مدد بھی کریں۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ شہیدوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹے بیٹیوں کے ساتھ عملی طور پرہمدردی کریں۔ تیسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ غازیوں کے ہاتھ مضبوط کریں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہیدوں کے نام پر سٹیج سجانے والوں کو شہیدوں کی بیواؤں اور بچوں کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں جبکہ غازیوں کے ساتھ تو انہیں کھلی عداوت ہے کیونکہ وہ انہیں اپنی مفاداتی سیاست کے لیے رکاوٹ تصور کرتے ہیں بلکہ سٹیج کے بعض بادشاہ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ گولی چلانا کونسا مشکل کام اور سزائیں کاٹنا کونسا بڑا کارنامہ ہے ۔ بھاگتے ہوئے انسان پکڑا جائے تو جیل تو جانا ہی پڑتا ہے اسی لیے بے شمار لوگ جب جیل گے تو ان کے لیے کسی نے وکیل تک نہ کیا یہاں تک کہ افضل گورو کے حق میں بھی حریت کانفرنس بھارت کو دھمکیاں تو دیتی رہی لیکن وقت پر موثر لیگل ڈیفنس نہ کیا گیا جبکہ مقبول بٹ کو تو پھانسی کا پھندہ چومنے تک حریت پسند تسلیم ہی نہ کیا گیا۔ آج مقبول بٹ کے نام لیوا تو بہت ہیں۔ ہر سال انکی برسی منائی جاتی ہے لیکن ان کے نام پر متحد ہونے کے بجائے اپنی اپنی دکان چمکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ہر کوئی اپنے نظریے کے ساتھ مقبول بٹ کو نتھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جن لوگوں نے مقبول بٹ کے راستے پر چل کر زندگیاں قربان کیں انہیں سٹیج کے شہسوار جذباتی اور ایسے ماضی پرست قرار دیتے ہیں جو ابھی تک بندوق کے سحر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔ جوش خطابت میں یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ سزائیں کاٹنا کوئی بڑا کام نہیں اصل ہیرو تو وہ ہے جو بندوق بردار تیار کرتا ہے اور لیڈر بھی وہی ہے جو لائن آف ایکشن دیتا ہے چائے وہ لائن جہنم کی طرف ہی کیوں نہ جا رہی ہو مگر ان نادانوں کو یہ علم نہیں کہ دوسروں کے لیے جہنم کا انتخاب کرنے والا خود کبھی جنت میں نہیں جا سکتا اور نہ ہی انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ دنیا میں ان سے کئی گنا زیادہ فن خطابت کے مائر موجود ہیں انکی سٹیج کی بات میں اگر کوئی کشش ہے توہ ہزاروں لوگوں کی قربانیاں ہیں جو مقبول بٹ جیسے انسان کے نقش قدم پر چل کر دی گئیں جو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد بھارتی جیل سے فرار ہو گے تھے لیکن چند سال بعد دوبارہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گے یہی قربانیاں تھیں جنکی بنا پر جموں کشمیر کی عوام کو حوصلہ ملا اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اسکی تقریر سن کر کوئی جان دینے کے لیے تیار ہوا ہے تو ان کے لیے آج بھی میدان خالی ہے چائے کوئی کتنی بڑی تقریریں کرتا رہے کسی کے اچھے عمل کے بغیر کوئی کسی کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اسی لیے ہزاروں سابق اسیروں میں سے صرف چند ایک میدان میں ہیں باقی ماندہ نمائشی سیاست سے متنفر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ جس دور میں ہم تحریک میں شامل ہوئے اس وقت اس راستے کا انتخاب کرتے وقت لوگ ہزار بار سوچتے تھے انہیں ان کٹھن مراحل کا اندازہ تھا وہ پہلے سوچا کرتے تھے کہ آیا وہ تحریک آزادی کے اصولوں پر عمل کر سکیں گے یا نہیں محاز رائے شماری اور نیشنل لبریشن فرنٹ کے دور میں کارکنوں کی تربیتی نشستیں ہوا کرتی تھیں گو ہم کبھی محاز رائے شماری کا حصہ نہیں رہے لیکن اس دور کی تاریخ اور اصولوں کا علم ضرور ہے آج لوگ آگ کی طر ح آتے اور بھگولے کی طرح چلے جاتے ہیں جن لوگوں کو اپنے سیاسی مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آتے وہ بھاگ جاتے ہیں یا اپنی پہچان بن جانے کے بعد سودا بازی کر لیتے ہیں تحریکی جماعتوں کے اندر اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو پرکھے ازمائے اور تربیت دئیے بغیر صرف وقتی افرادی قوت دکھانے کے لیے شامل کر لیا جاتا ہے جو بعد میں اپنا مقصد پورا نہ ہونے پر الگ گروپ بنا لیتے ہیں چونکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہرتحصیل ہی نہیں بلکہ ہر گاؤں سے کوئی نہ کوئی ماں کا لخت جگر شہید ہوا ہے اس لیے گزشتہ ایک دہائی سے سال بھر برسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے جموں کشمیر کے آر پار کا اقتدار پرست ٹولہ تو دونوں اطراف ایسے لوگوں کی برسیاں بھی مناتا ہے جو ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کا سبب بنے جبکہ وحدت پسندوں کو وہ علحیدگی پسند قرار دیتے ہیں برسیوں کا فیصلہ ریاستی سطع پر کرنے کے بجائے حکومتی پارٹی کرتی ہے جسکی وجہ سے حکومت کی تبدیلی پربرسیاں بھی بدل جاتی ہیں اور عوام اور اداروں کو کوئی علم نہیں ہوتا کس دن کس کی برسی ہے ہے کئی بار بچوں کو تعلیمی اداروں سے واپس آتے ہوئے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کسی کی برسی ہے ماسٹر صاحب نے چھٹی کا اعلان کر دیا ۔ان برسیوں پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر نتیجہ پھر وہی صفر کیونکہ برسیاں زیادہ تر وہ سیاسی سوداگر مناتے ہیں جو شہادت پر تو یقین نہیں رکھتے لیکن شہادتوں سے فائدہ اٹھانے کا فن انہیں آتا ہے ۔ میں نے متعدد بار تجویز دی کہ مقبول بٹ شہید اور افضل گورو چونکہ بھارتی جیل میں دفن ہیں لہذا انکی برسیاں ان کے اپنے اپنے یوم شہادت پر منائی جائیں اور دوسرے شہدا کی چونکہ تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے سال کا کوئی دن یوم شہدا ء کے طور پر متعین کر لیا جائے تاکہ باقی وقت شہداء کے اصل مشن اور قومی ایشوز پر صرف کیا جائے۔ ایک سال اگر ایک ضلع میں تو دوسرے سال دوسرے ضلع میں یوم شہادت منایا جائے تاکہ کسی بھی علاقہ کے شہدا کے وارث یہ محسوس نہ کریں کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے لیکن اس طرف توجہ اس لیے نہیں دی جا رہی کہ اگر شہیدوں کی برسی کا کوئی ایک دن مقرر کر لیا گیا تو پھر نمود و نمائش کا سلسلہ بند ہو جائے گا ۔ ہماری سیاست میں نمود و نمائش کا عنصر اتنا حاوی ہو گیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایل او سی پر موجودہ گولہ باری سے شہید و بے گھر ہونے والوں پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ صرف ایک روز قبل کی بات ہے میں نے کھوئیرٹہ سے ایک سیاسی پارٹی کا بڑا قافلہ اسلام آباد پریس کلب جاتے ہوئے دیکھا لاکھوں روپے خرچ کر کے کرایہ پر لی گئی گاڑیوں پر ایک پارٹی کے مقامی سیاستدان کی بڑی تصویر لگی ہوئی تھی جس میں وہ مسکرا رہے تھے حالانکہ یہ خوشی نہیں بلکہ دکھ کی گھڑی ہے یہی مظاہرہ اگر مقامی لوگوں کو اکٹھا کر کے ایل او سی پر کیا جاتا تو دنیا کو اس کی سنگینی کا زیادہ احساس ہوتا اور اخراجات بھی کم ہوتے ۔ جو رقم آزاد کشمیر بھر سے قافلے اسلام آباد لے جانے پر خرچ ہوئی اس کا بہت سا حصہ بچا کر گولہ باری کے متاثرین کی عملی مدد اور آباد کاری پر خرچ ہوسکتا تھا افسوس کہ سیاستدانوں کی اکثریت اس تکلیف دہ موقع پر بھی خود کو نمایاں کرنے کے چکر میں ہے لیکن قانون فطرت کہتا ہے کہ جو اپنی اصلاح نہیں کرتے وہ خود مٹ جاتے ہیں یا مٹا دیا جاتے ہیں کیونکہ زندگی جامد نہیں تغیر پزیر ہے!

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.