بھٹکا ہوا مسافر (تھاٹ آف دِی ڈے)

چلو آج درد کو چھو کر دیکھتے ہیں
خود کو آنسوؤں سے غسل دے کر دیکھتے ہیں
جو ہیں دور ان کے پاس ہو کر دیکھتے ہیں
جو تھے سپنے پرائے آنکھوں کو دے کر دیکھتے ہیں
کیا رکھا ہے جگ میں
اسے چھوڑ کے دیکھتے ہیں،،،

ہوا ذرا اور بھی خنکی ساتھ لے آئی،،،کھڑکی کے کواڑ پٹ سے کھل گئے،،،اس نے
خود کو اچھی طرح سے ٹٹولا،کہ اب تک اس کی سانس چلتی ہے ،یا،، گھڑی کی
ٹک ٹک کی طرح بند ہوگئی ہے۔درد تو اب بھی تھا،،اس کا مطلب تھاکہ وہ زندہ
ہے۔

سرد ہوا اسے کئی برس پیچھے لے گئی،،،!!
ارے ماں،،! میں نے کیا پورے گھر کا ٹھیکہ لے رکھا ہے،،،اس کی دوائی،،،اس کی
فیس،،،بل،،،کرایہ،،،بڑا ہونا تو عذاب ہے۔۔۔!
ماں نے مایوسی سے اسے دیکھا،،،خاموشی سے اپنی کھانسی کو روکنے کی کوشش
کرنے لگی۔اس کی بہوکو ڈر تھا کہ بڑھیا کی کھانسی کے جراثیم ناصرف اسکے بچوں
کو بلکہ اسے بھی بیمار کردیں گے۔اور وہ بیمار ہو کر بدصورت نہ ہو جائے،،،اس کی
اچھی شکل صورت دیکھ کر ہی تو صائم کی ماں نے اسے اپنی بہو بنایا تھا۔

دنیا میں سب کچھ خوبصورتی میں ہی چھپا ہوا تھا،،ہر کامیابی کی کنجی یہی خوب
صورتی ہی تو تھی۔یہ بڑھیا گھر تو لے ہی آئی ہے،،سات برس ہو گئے ہیں اب اسے مر
جانا چاہیے،،،!!

رات کے تین بجے صائم نے اپنے کمرے سے باہر آکر دیکھا۔اس کی ماں جائے نماز پر
کھانسے جارہی تھی۔سجدے میں اس کے جسم پر خوف سے یا کھانسی کی وجہ سے
لرزا سا طاری تھا۔
صائم کؤ اپنے کولیگز کی بات یاد آئی،،،یار تیری ماں کی دعاؤں میں بہت اثر ہے،،،تیرا
کوئی بھی کام رکتا ہی نہیں ہے،،جیسے اللہ سے ہر دعا کی قبولیت دنیا میں کروا کر ہی
آئے ہو،،،!!

صائم نے سر جھٹک دیا،،دن رات میں نے محنت کی،،اپنے آپ کو مارکر یہاں تک پہنچا
ہوں،،،ہرچیز دعا نہیں کچھ تدبیر بھی تو ہوتی ہے۔
‘‘بیٹا جتنا ہو سکتا ہے کیا کر‘‘ پھر بیوی جیتتی چلی گئی،ماں ہارتی گئی،،صائم کا بوجھ
مٹی تلے جا سویا،،،!

صائم نے لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا،‘‘کیا کروں میں،اتنا کچھ تو کرتا ہوں،،تم ذرا ہاتھ کھینچ
کر خرچ کیا کرو،،پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ،،،! بیوی منہ بناکر دوسرے کمرےمیں چلی گئی،،
‘‘صائم بیٹا آرام بھی کیاکر ،،یہ ضرورتیں شام کی طرح ہوتی ہیں،،،اجالے کو ہڑپ کر کے ،،،ہر
طرف سیاہی پھیلا دیتی ہیں۔جان ہے تو جہاں ہے،،،!‘‘

صائم کو بہت افسوس ہوا،،،جن کے لیے سب کچھ کیا وہ یوں حقارت سے میری محنت،،،
مشقت دھتکار رہے ہیں،،،کمال ہے۔
سامنے ہنستے، خوش و خرم صائم کا لاش جیسا وجود پڑا ہوا تھا،،،اس کا دوست افسردگی
سے صائم کو دیکھ رہا تھا۔

صائم نحیف سی آواز میں بولا،،،یار سمجھ نہیں آیا، ماں کے بعد ہر کام بے رنگ،،،بےوجود
ساہوگیا۔
کمال نے دکھی لہجے میں کہا،،،دیکھ، ماں کا وجود وہ چھتری تھا، جو دھوپ میں سایہ
دیتا ہے۔ اس کی دعائیں ہر جگہ ڈھال بن جاتی ہے،،،اب تیرا کمزور وجود دھوپ میں ہے۔
وہ چھتری نہیں ہے،،،!
صائم لرز سا گیا،،،اسے رات تین بجے سجدے میں پڑا کھانستا ہوا وجود یاد آیا،،،،! اب وہ
دھوپ میں تھا۔۔۔۔!!
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1189833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.