مندر کی چھیاسٹھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہماری سانس کوئلے
والے انجن کی طرح
چل رہی تھی،،،شردا دیوی کے چکر میں ہماری بلّی چڑھنے والی تھی۔
ہم نے پانچ کلو میٹر پیچھے جیپ کو خیرباد کہہ دیا تھا،،،جو ہمیں شدت سے یاد
آ
رہی تھی،،،
دل میں کئی بار سوچا،،دیوی جی کسی آسان سی جگہ پر رہ لیتیں،،،تو کیا غضب ہو
جاتا،،،بس کیا کیجئے،،،وہ دیوی تھیں اور ہم ان کو دیکھنے کے مشتاق،،،!
بارش تھی کہ رکنا کا نام بھی نہ لیتی تھی،،،مولانا فاروق نے ہمیں ایسے
دیکھاجیسے
ہم نے دیوی جی کو یہاں مندر رینٹ پر لے کر دیا ہو،،،جبکہ ایسا کچھ نہ
تھا۔ہم بالکل
بے قصور تھے۔
راستے میں واٹر فال اور نیلم دریا کو دیکھ کر مولانا شعر پر شعر مار رہے
تھے۔شاید غالب
کے ہوں گے،،اب ان پر مولانا فاروق صاحب کا قبضہ تھا،،غالب اپنے مشکل سے
ملنے
والے سرکاری وظیفے کا لالچ دے کر بھی اب یہ اشعار مولانا سے،،،یہ اشعار
واپس نہیں
لے سکتا تھے،،،
شعروں کی حد تک مولانا کا تعلق قبضہ گروپ سے ہے،،اب پتا نہیں کتنے اشعاروں
کی
ان صاحب نے چائنہ کٹنگ کی ہے،،،یہ تو نیب والے ہی ان سے پوچھ سکتے
ہیں،،،!!!
ہم تو خود بہت معصوم سے ہیں۔
جب ہم مظفر آباد سے چلے تھے تو ہم نے دوگھنٹے کے سفر کے بعد دھانی واٹر فال
کو
انجوائے کیا،،،اس کے بعد ہم نے نان سٹاپ سفر کیا،،،کاران تک وہاں ریسٹ ہاؤس
میں
رات گزارنے کے بعد ہماری منزل خیل سے ہوتے ہوئےشاردہ تھی۔
نیلم دریا ہمارے ساتھ ساتھ تھا،،،نیلم میں لکڑیوں سے بنایا گیا رستہ
دیکھا،،،بہت ہی
انوکھا منزل جس میں تھرل تھا،،،ایڈونچر تھا،،،!
مندر پہنچ کر پتا چلا کہ شردا دیوی موجود ہی نہیں،،،،اس کے لیے ہمیں کئی سو
سال
پہلے آنا چاہیے تھا،،،بس اس مندر کے کھنڈرات تھے،،،جس سے پتا چل رہا تھا کہ
وہ
ذیادہ خوفناک نہ ہوگی۔
کچھ یونیورسٹی کے آثار بھی تھے،،،اس میں کوئی شک نہیں کہ شاردہ بہت
خوبصورتی
وادی ہے،،،جنگل،،،دریا،،،چشمے،،،واٹر فالز،،،لش گرین پیکس،،،سب کچھ انمول
تھا،،،دل
میں عہد کیا کہ پھر بھی آؤں گا،،،بار بار آؤں گا،،،ہزار بار آؤں گا،،،انشاء
اللہ،،،!!
پاکستان تیرے ہر آنگن کو،،،ہر رنگ کو سلام،،،پاکستان زندہ باد،،،،!!!!
|