ماں کا قاتل

تحریر: امبرین جاوید، کراچی
سارہ کو اﷲ نے چاند سا بیٹا دیا تھا۔ بچے کی آمد کی خوشی اپنی جگہ مگر سارہ کا شوہر بیمار ہوگیا تھا۔ شوہر کی بیماری مسلسل بڑھ رہی تھی۔ اس وجہ سے بیٹے کی خوشی بھی وہ کھل کر نہیں منا پائی تھی۔ سارہ کو عبداﷲ نام بہت پسند تھا۔ اس نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا اور پھر اس بچے کا نام عبداﷲ رکھ دیا گیا۔
وہ ایک غریب سے گاؤں میں رہتے تھے۔ جیسے تیسے یہ گھرانہ چل رہا تھا مگر پھر شوہر کا انتقال ہوگیا۔ سار بالکل اکیلی اپنے چھوٹے سے بیٹے کے ساتھ رہنے لگیں۔ ان کے گھر آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ زندگی گزر بسر کرنا بہت مشکل ہوگئی تھی۔ سارہ نے کچھ سوچا اور پھر لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ادھر عبداﷲ بھی رفتہ رفتہ بڑا ہونے لگا اور پھر ایک دن اسے اسکول داخل کرادیا۔ اسکول جانے کے بعد سارہ کو مزید محنت کرنا پڑی۔ جس کی وجہ سے اس نے کچھ دیگر گھروں میں بھی کام کرنا شروع کردیا۔

سارہ اپنی اولاد کی خاطر لوگو ں کی باتیں بھی سنتی اور دل ہی دل میں روتی رہتی تھی۔ اﷲ سے اپنے حال پر رحم کی دعا بھی مانگتی رہتی۔ مشکل پریشانی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب عبداﷲ جوان ہوگیا تھا۔ اس نے میٹرک مکمل کرلی تھی اور کالج جانے لگا تھا۔ ماں کی پوری کوشش تھی کہ اچھی سی اچھی تعلیم و تربیت دے۔ اس لیے وہ اپنے بیٹے عبداﷲ کو آوارہ لڑکوں کے ساتھ نہیں گھومنے دیتی تھیں۔

عبداﷲ نے خوب محنت کی اور اپنی والدہ کی حالت دیکھ کر اسے کئی بار لگتا تھا کہ وہ پڑھائی چھوڑ کر کہیں کام کرنے لگ جائے مگر اس کی ماں نے ہمیشہ اسے ایسی کسی بھی حرکت سے منع کیا اور بالآخر عبداﷲ کی تعلیم مکمل ہوگئی۔ اچھی تعلیم اور بہتر تربیت کی وجہ سے عبد اﷲ کو اچھی جاب مل گئی۔ جاب کے لحاظ سے عبداﷲ کی تنخواہ بھی اچھی تھی اور یوں وہ دنوں ہی میں پرانی حالت سے اچھی حالت میں آنے لگے۔ عبداﷲ نے شہر میں گھر خریدا اور پھر والدہ کو لے کر وہیں پر منتقل ہوگیا۔ ماں جب بھی اپنے بیٹے کو دیکھتی اسے اپنی محنت اور تربیت پر ناز ہوتا تھا۔ وہ اپنی تمام مشکلات کو بھول جاتی اور یوں اس کی برسوں کی تھکان چند منٹوں میں اتر جاتی۔ وہ ہمیشہ اﷲ کا شکر ادا کرتی کہ اﷲ نے بالآخر اس کے دن پھیر دیے تھے اور اس کی سن لی تھی۔

عبداﷲ تو تھا ہی مگر سارہ کو بیٹی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔ سارہ نے عبداﷲ کی شادی کرنے کا سوچ لیا۔ عبداﷲ سے بات کر کر کے اپنے لیے شہر سے ایک اچھی سی بہو لے آئیں۔ بہو کے گھر میں آتے ہی رونقیں ہی رونقیں لگ گئیں۔ سارہ نے بہو کی صورت میں ہمیشہ بیٹی کو دیکھی۔ چند روز بعد اﷲ نے عبداﷲ کو بھی ایک پیارا سا بیٹا دیا۔ بیٹا پیدا ہوا تو سارہ کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ وہ ہر وقت بچے کی دیکھ بھال کرتیں۔ سارہ اب بڑھاپے میں پہنچ چکی تھیں۔

سارہ کی اب طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ وہ اکثر کھانستی رہتی ۔ شروع شروع میں عبداﷲ جیسے جاب سے گھر آتا فورا ماں کے پاس جاتا اور انہیں دوائیں دے کر پھر سوتا تھا۔ یہ بات سارہ کو جوان رکھے ہوئے تھی۔ مگر پھر جیسے عبداﷲ کا رویہ بدلنا شروع ہوگیا تھا۔ اب وہ اس کے پاس بھی نہیں آتا۔ کبھی کبھار بس آکر پوچھ لیتا۔ گویا یہ نظر انداز کرنا ایک بوڑھی ماں کو اور زیادہ کمزور کرگیا۔ اب تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ کئی کئی روز تک اسے عبداﷲ کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جاتی تھی۔ جب کبھی عبداﷲ ملتا وہ اس شکایت کرتی تو عبداﷲ اپنی نوکری، پھر بچے کی ذمے داریاں اور اپنی بیوی کے ناز نخرے لے کر بیٹھ جاتا۔ اس کا دل کرتا کہ وہ اپنے بیٹے کو یاد لائے کہ اسے کیسے کیسے حال میں پال پوس کر بڑا کیا۔ مگر وہ یہ سب اپنے لبوں تک لانے سے اس لیے گھبراتی تھی کہ کہیں اس کے بیٹے کو برا نہ لگے۔

کچھ دنوں سے موسم بہت سرد تھا اور اس کے کمرے میں سردی کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ پرانا بوسیدھا سا ایک پلنگ پڑا تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ بڑھیا کو برداشت نہیں ہورہی تھی۔ اس نے کئی بار بیٹے کو آواز دی مگر عبداﷲ نہیں آیا۔ اس کی کمزور ہڈیاں سردی کی شدت بردشت نہیں کر پا رہی تھیں۔ اس کا بستر بھی کوئی خاص نہیں تھا۔ وہ رات جیسے تیسے اس نے کاٹی مگر اگلے ہی روز خود چل کر عبداﷲ کے پاس گئی۔ اس آنکھ نم تھیں اور امید بھی کہ وہ عبداﷲ سے جو بھی کہے گی وہ فورا لاکردے دے گا۔ ’’عبداﷲ بیٹا! رات بہت سردی تھی، میری پرانی رضائی پھٹ چکی ہے۔ مجھے نئی رضائی لا کر دے دو‘‘۔ اس کے جملوں میں لرزش تھی۔

عبداﷲ نے ماں کو بیٹھایا اور پھر رضائی کی بات پر اپنی ایک لمبی سی لسٹ نکال کر سامنے رکھ دی۔ ’’اتنی ساری چیزیں گھر کے لیے لانی ہیں۔ رضائی کے لیے اس ماہ پیسے ممکن نہیں۔ اگر یہ ماں آپ جیسے تیسے گزارہ کرلیں تو میں کوشش کروں گاآئندہ ماہ آپ کو رضائی لاکر دے دوں گا‘‘۔ عبداﷲ نے ناراضی جیسا لہجہ اپناتے ہوئے عذر پیش کیا۔ والدہ چھپ چھاپ اٹھ کر آگئی۔ سارہ جس نے ایک رات اتنی مشکل سے کاٹی تھی اس ایک مہینہ کاٹنا پہاڑ لگ رہا تھا۔ مگر اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے وہ اٹھ کر آگئی تھی۔ وہ کمرے تک بوجھل قدموں سے پہنچ اور آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کا دل پھٹ رہا تھا۔ جس بیٹے کی زندگی کے لیے اس نے دنیا جہاں کی باتیں برداشت کیں اس کا سرد لہجہ اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ جس بیٹے کے لیے اس نے بارش سے گیلے بستر پر لیٹ گئی اور پوری رات بیٹے کو اپنے اوپر لیٹا کر تھپکی دیتے سلایا تھا آج اسی بیٹے نے اسے ایک ماہ تک سردی میں ٹھٹھرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

خیر قسمت کے سامنے اس نے ہار ہی مان لی تھی۔ رات بس جاگتے، تڑپتے ، روتے ہی گزرتی۔ دو دن تک یہ سلسلہ رہا مگر سارہ کی زبان مکمل طور پر گنگ ہوچکی تھی۔ اس رات بہت زور کی بارش ہوئی تھی۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا۔ پارہ منفی پر چلا گیا تھا۔ سارہ کا دل چاہ کہ وہ اپنے بیٹے کو بلا کر اپنے پاس بیٹھائے رکھے۔ کئی بار آوازیں دینے کے باوجود عبداﷲ نہیں آیا۔ سب لوگ گہری نیند سوگئے۔ رات دھیرے دھیرے بیتنے لگی۔ ہر سیکنڈ منٹ اور ہر منٹ گھنٹے کی رفتار سے گزرنے لگا۔ رات گویا ایک صدی کی ماند ہوچکی تھی اور پھر وہ صدی بھی بیت گئی۔

صبح سورج کی کرنوں سے نئے دن کا آغاز ہوچکا تھا۔ رات کی بارش سے سب کچھ دھل کر اجلا اجلا ہوچکا تھا۔ عبداﷲ نے اٹھتے ہی سب سے پہلے اپنے بیٹے کو گود میں لیا۔ بہت سارا پیار کیا۔ پھر ناشتے کی ٹیبل بھی سج گئی۔ سب نے خوب سیر ہوکر ناشتہ کیا۔کسی بھی سارہ کا خیال نہیں آیا۔ عبداﷲ نے جلدی جلدی آفس جانے کی تیاری کی۔ جیسے ہی وہ گھر سے نکلنے لگا اس کی نظر ماں کے کمرے کی جانب اٹھ گئی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ کسی کے ہونے نہ ہونے کا احساس تک نہیں ہورہا تھا۔ اچانک اس کے قدم ماں کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ اس نے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ اس کی ماں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ واضح محسوس ہورہی تھی۔ عبداﷲ نے آگے بڑھ کر ماں کو بلایا۔ مگر کوئی آواز نہیں آئی۔ اس نے ہلکے سے ہلا کر جگانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھیں۔ اسے خدشہ ہوا اور پھر وہ یقین میں بدلتا چلا گیا۔ ایک دم سے عبداﷲ لگا جیسے اس کے قدموں نے ساتھ دینے سے انکار دیا ہو۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے گر گیا۔ سارہ دنیا سے آنکھیں پھیر چکی تھی۔

عبداﷲ کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ ماں جیسی عظیم نعمت اس سے کہیں دور چلی گئی تھی۔ عبداﷲ کو ماں کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھے گویا صدیاں بیت چکی تھیں۔ مگر اب وہ مسکراہٹ اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی پچھتاوہ بن چکی تھی۔ وہ پچھتاوا جس سے وہ کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا پائے گا۔ انتقال کی خبر سنتے ہی سب لوگ جمع ہوگئے۔ عبداﷲ کو سعادت مند بیٹے جیسے القابات سے نوازہ جانے لگا۔ کسی نے ماں کی خدمت پر جنت کی نوید سنائی۔ کسی نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ کسی نے عبداﷲ جیسے بیٹے سب کو دینے کی دعا دی۔

اس وقت عبداﷲ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ اس کی ماں مری نہیں بلکہ اس نے اپنی ماں کا قتل کیا ہے۔ وہ قاتل اور ظالم بیٹا ہے نہ کہ سعادت مند۔ اس کا دل چاہ کہ وہ سب کو بتا دے اس جیسا بیٹا کسی ماں کو نہ ملے۔ جس کے لیے اس کی مان نے سب کچھ لٹا دیا اسی نے اپنی ماں کا گھلا گھونٹ دیا۔ اسے اپنے انجام سے خود آرہا تھا۔ مگر شاید اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب اس کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا تھا۔ ماں چل دیں مگر اس کے لیے ہمیشہ کا پچھتاوا رہے گیا۔

قارئین! نا جا نے ایسی کتنی ہی مائیں اس دنیا سے ایسی حالت میں رخصت ہوجاتی ہیں۔ خدارا اپنی ماں، اپنی جنت کی ایک پکار کا جواب دے دیں۔ ہوسکتا ہے اس کی ایک پکار کے پیچھے اس کی پوری زندگی ہو۔ ماں باپ کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ بس ایک بار یہ سوچ لیں کہ جب تم کچھ نہیں تھے تب انہوں نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ ماں وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کے دل میں شفقت کے علاوہ کچھ نہیں، خود بے آرام ہوتی ہیں مگر تمہیں آرام پہنچاتی ہیں۔ دن بھر کام کرتی ہیں، تھکن اٹھاتی ہیں مگر کبھی بھی ماتھے پر شکن نہیں لاتیں۔ ماں کا کوئی ثانی نہیں شاید اس کے لیے ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141918 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.